مصلحت کوشی، مصلحت آمیزی اور
ناعاقبت اندیشی نے فکر مسلم کو آغوش فرنگی میں خواب خرگوش کا شکار
کردیا۔تاریخ کو مسخ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ ابھی دور کی بات
نہیں ۔ پاکستان بنانے اور اسکے قیام میں بے مثل قربانیاں دینے والے ابھی
بہت لوگ زندہ ہیں۔ اس لیئے قیام پاکستان کے حقائق کو کوئی بھی کسی امریکی ،
فرنگی یا صلیبی کی خوشنودی کے حصول کے لیئے مسخ نہیں کرسکتا۔ پاکستان
مسلمانان برصغیر کی ضرورت تھا جس کے لیئے ایک طویل جدو جہد کی گئی۔ برصغیر
پر مسلمانوں نے تاریخ ساز حکومت کی۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کے دور میں بنگال تک پیام حق پہنچ چکا تھا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات
مساوات انسانی سے متاثر ہوکر برہمنوں کی اجارہ داری سے آزاد ہوکر حلقہ بگوش
اسلام ہونے والوں کو اسلام کے دامن عافیت میں پیدائشی انسانی حقوق ملے۔ غیر
مسلموں نے جب دیکھا کہ مسلمان مسلمان کو بھائی سمجھتا ہے اور رنگ و نسل کی
کوئی تفریق نہیں۔ حاکم و محکوم، شاہ و گدا، امیر و غریب ، سیاہ و سفید سبھی
ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔تو ایک ہی صف میں کھڑے
ہوگئے محمود ایاز ۔ نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بند ہ نواز۔ مسلمان تو مسلمان
غیر مسلموں نے اپنے تئیں وہ حقوق پائے اور وہ تحفظ حاصل کیا جو انہیں ہندو
حکمرانوں کے دور میں حاصل نہ تھا۔توحید کے پرستاروں نے کسی کو جبرا مسلمان
نہیں بنایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق اور مساویانہ سلوک سے
متاثر ہوکر ہندوﺅں نے اسلام قبول کیا۔ اس میں اولیاءاللہ اور صوفیائے کرام
کا کردار اہم رہا۔ جیسا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کے
بارے روائت ہے کہ آپ کی نگاہ سے ہی ہندو گھائل ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے
اور ننانوے لاکھ ہندو مسلمان ہوا۔ آج بھی ہندو آپ کے مزار اقدس پر حاضری
دیتے ہیں۔ برصغیر میں اس وقت شائد ہی کوئی عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا
ہو۔
فرنگی یعنی انگریز، پرتگیزی، فرانسیسی اور دیگر یورپی اقوام اپنی معاشی بد
حالی دور کرنے کے لیئے برصغیر سے تجارت کرنے آئے۔ فرنگیوں کی حرکتوں پر
شہنشاہ ہند جہانگیر نے انہیں نکل جانے کا حکم دیا تو تھامس رو سفارت لے کر
آیا اور بادشاہ سے معذرت کی اور تجارت کی اجازت حاصل کی۔ اسوقت مسلمانوں کے
اقتدار کی نوبت ثریا تک بجتی تھی اور وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ مفلوک
الحال ننگے بھوکے کبھی ہمارے اقتدار کے زوال کا سبب بنیں گے اور ہمارے ہی
خون سے اپنی پیاس بجھائیں گے۔ انگریز بڑی مکاری اور چالبازی سے اپنے مقاصد
میں آگے بڑھتا رہا۔ صاحب شعور غیور شیر میسور سلطان ٹیپو اور غیور شیر
بنگال سلطان سراج الدولہ نے انگریز کا مقابلہ کرکے جام شہادت نوش فرمائے
اور ساتھ ہی انگریز سے آزادی کی تاریخ رقم کردی۔ فرنگی اخلاق باختہ، ظالم،
قاتل، بدکار، وعدہ خلاف اور انسانی قدروں کو پامال کرنے والا برصغیر کے
عوام کو اپنا گرویدہ نہ بناسکا بلکہ نفرتوں میں اضافہ ہوا۔ برصغیر کے
ہندوبھی فرنگی کے کردار سے متنفر تھے ۔ جب کوئی کسی کے کردار سے متاثر ہوتا
ہے تو اسکے نظریات کو قبول کرتا ہے۔ انگریز میں ایسی کوئی انسانی اخلاقی
دولت نہ تھی کہ وہ لوگوں کو اپنا ہم مذہب بنا سکتا۔ اس کام کے لیئے عیسائی
مشنری اداروں نے کئی منصوبے شروع کیئے جنمیں ہندو شودروں کو عیسائی بنانا ۔
چونکہ غربت انتہاکی تھی اور ہندو برہمنوں نے شودروں پر عرصہ حیات تنگ
کررکھا تھا۔ مشنری اداروں نے ایسے لوگوں کو روزگار دیئے اور مالی معاونت کی۔
یہ لوگ ان پڑھ اور غریب تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے فرنگی
نے ہی اپنے ہم مذھب غریبوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنا بول
و براز اور کوڑا اٹھانے پر مامور کیا۔ فرنگی سے قبل یہ سارے کام ہرکوئی
اپنی حد تک خود کرتا تھا۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو
اور اپنے ماحول کو خود پاک صاف رکھے کیونکہ ماحول کو آلودہ بھی انسان خود
ہی کرتا ہے۔ فرنگی نے ان غریبوں کو اپنا ہم مذہب تو بنا لیا مگر ان کو اپنے
قبرستان میںدفن بھی نہیں ہونے دیا۔ جبھی گورا قبرستان علیحدہ موجود ہیں جو
فرنگی کے کالے گورے کے تعصب پر شاہد ہیں حالانکہ قبر میں جانے کے بعد تو
کالا گورا رنگ باقی نہیں رہتا۔ انکے چرچ یا عبادت کے اوقات بھی علیحدہ
کردیئے۔ عیسائیوں کے قبرستان بھی مخصوص ہوگئے۔ حقیقت کو کوئی چھپا نہیں
سکتا ۔ اسلام کے دامن میں انسانیت کی نعمتیں ہیں۔ نماز پنجگانہ، نماز جمعہ
ہو یا عیدین کی نمازیں تمام مسلمان بلاتفریق رنگ ونسل ، زبان امارت و غربت
ساتھ ساتھ کھڑے ہوکر نماز اداکرتے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں۔ جب
کوئی فوت ہوتا ہے توسبھی اسکے جنازہ میں شریک ہوتے ہیں اور قبرستان میں بھی
مساوات نافذ ہے۔ کراچی پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں میرے ایک عزیز
کی تدفین ہوئی جو حادثہ میں فوت ہوئے اور غریب الوطنی میں وہاں دفن ہوئے۔
میں انکی مرقد پر گیا تو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ابراہیم
اسمعیل چندریگر کی قبر پر نظر پڑی ۔ میں رک گیا اور فاتحہ پڑھی اور سوچ
رہاتھا کہ کہاں وزارت عظمی کا کروفر اور کہاں یہ مقام۔ اللہ اکبر ۔ ہر
انسان کا یہی مقام ہے۔ تمام لوگ برابر ہیں اگر فرق ہے تو اللہ کے نزدیک صرف
ایمان اور تقوی کی بنیادپر۔ فرنگی نے برصغیر پر اپنا اقتدار قائم رکھنے کے
لیئے بڑے جتن کیئے مگرقوت بازﺅے مسلم کے سامنے اسے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔
یہاں میں بلا تامل پورے ایمان و ایقان کے ساتھ وہ سچ بیان کروں کہ برصغیر
میں سوائے مسلمانوں کے تمام مذاہب کے لوگ انگریز کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ
تھے اور سبھی مل کر رہ سکتے ہیں کیونکہ کہ ان میں سے کسی کے پاس مکمل ضابطہ
کائنات نہیں کہ جسکے مطابق وہ زندگی بسر کرنے کے پابند ہوں۔ ہر چہ خواہی می
کرد۔ جو چاہیں کریں۔ انگریز جبھی تو غیرفطری افعال کو فروغ دیتے ہیں اور ہم
جنسوں کے ساتھ بدفعلیوں کو قانونی تحفظ دیتے ہیں اور مذہب انکا عیسائی ہے۔
ہندوستا ن کیوں تقسیم ہوا۔؟مسلم اکابرین اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ
انگریز نے ہمارا ملک ہمارے حوالے نہیں کرنا بلکہ یہ ہمیں ہندو کے تسلط میں
رکھنا چاہتے ہیں۔ اس بنا پر حضرت علامہ اقبال کی فکر رسا نے مسلم اکثریتی
علاقوں پر مسلم ریاست کے وجود کا نظریہ پیش کردیا جو تحریک بنا۔ ابتداءسے
لے کر انتہا تک پاکستان کی تحریک میں صرف مسلمان شامل رہے ۔ کسی غیرمسلم
عیسائی یا ہندو نے اسلامی ریاست کے وجود کے لیئے نہ آواز بلند کی اور نہ ہی
کوئی چھوٹی سے چھوٹی قربانی دی۔ آج یہ آواز سنی جارہی ہے کہ عیسائی کہ رہے
ہیں پاکستان بنانے میں ہم شامل تھے ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے
بڑے بڑے علما ،سیاسی رہنما اور دانشور یہ سفید جھوٹ سن کر جواب دینے کی سکت
نہیں رکھتے؟ آخر کیا مصلحت ہے؟ لیکن میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ بتاﺅ ہندوستان
میں مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کی گئی،
مسلمانوں کو مکانوں میں جمع کرکے جلایا گیا، لٹے پٹے ہجرت کرکے آنے والے
نہتے مسلمان مردوں، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو شہید کیا گیا۔ لاہور والٹن
آنے والی ٹرینوں میں کن کی لاشیں تھیں۔ ان میںنہ کوئی عیسائی تھا نہ ہندو۔
اگر وہ لاشیں تھیں تو مسلمانوں کی تھیں۔پاکستان بنانے میں تو صرف مسلمانان
برصغیر کاکردار شامل ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ محمد رسول
اللہ ﷺ ۔قائد تحریک قیام پاکستان حضرت قائد اعظم کی متعدد تقریروںمیں اور
بعد قیام پاکستان پشاور1948 کو آپکا خطاب اہم تاریخی دستاویز ہے جب آپ نے
فرمایا ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیئے نہیں
کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے
اصولوں کا آزما سکیں(13 جنوری 1948 اسکامیہ کالج) کیا عیسائیوں یا دیگر غیر
مسلموں نے اس کلمہ کی بنیا د پر پاکستان بنانے میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ؟
پاکستان بننے کے بعد دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ قرآن و سنت کے مطابق سلوک
کیا گیا۔
پاکستان میں عیسائی اور ہندوبڑی تعداد میں رہ رہے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے
ساتھ کوئی زیادتی نہ کی کیونکہ مسلمانوں کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ورنہ عیسائی انگریزوں کے ہم مذہب ہیں اور ہندو سبھی نے ملک کر مسلمانوں کو
ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے صلح پسند غیرمسلموں کے
ساتھ لڑنے سے منع فرمایا۔ انکے خلاف اسی صورت میںہتھیار اٹھانے کا حکم ہے
جب وہ مسلمانوں پرہتھیاراٹھائیں۔جو غیر مسلم اسلامی ریاست رہنا پسند کریں
تو انہیں انکے جان و مال اور عزت آبروکا اس طرح تحفظ حاصل ہوگا جس طرح ایک
مسلمان کو حاصل ہے۔ انہیں اپنی مذہبی رسومات اداکرنے اور اپنے عبادت خانوں
کو آباد رکھنے پر اسلام نے کوئی قدغن نہیں لگائی۔ لیکن جہاں انہیں کاروبار
کرنے ، تعلیم حاصل کرنے، روزی کمانے اور آزاد زندگی گزارنے کی ضمانت اسلام
نے دی وہاں انکے لیئے ضابطے موجود ہیں کہ اسلامی ریاست کے وفادار رہیں،
جزیہ ادا کریں، اپنے مذہب یا عقائد کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ریاست کا جو مذہب
ہے صرف اسکی کی تبلیغ کی جاسکتی ہے۔
آخر میں یہ بھی عرض کروں کہ یہ تحریر جن حالات کے تناظر میں پیش کررہا ہوں
،عیسائی جوان ساون اور اسکے دوست نے زبان درازی کی۔ ساون کا دوست ابھی تک
گرفتار نہیں ہوا۔ ۔اسے گرفتار کیا جائے اور اگر عدالت انہیں مجرم قراردیتی
ہے تو سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔ جوزف کالونی پر حملہ اور مکانوں کا جلایا
جانا انتہائی غیراسلامی فعل ہے۔ وزیر اعلی کی جانب سے مکانات کی تعمیرشروع
کراکے اور نقد امدادمتاثرین کو دے کر اپنا فرض ادا کیا۔ جن مسلمانوں نے ان
پریشان لوگوں کو کھانا یا کچھ اور امداد دی تو یہ عین رسول کریم ﷺ کی
تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ان تما تر ہمدردانہ اقدامات کے بعد پرتشدد مظاہرے
،املاک کو نقصان پہنچانا اور صلیب لہرا کا مظاہرے کرنے کا کوئی جواز نہیں
تھا۔لھذا جہاں جوزف کالونی پر حملہ کرنے والے سزا کے مستحق ہیں وہاں صلیب
بردارمظاہرین کہ جنہوں نے املاک کو نقصان پہنچایا وہ بھی سزا کے مستحق ہیں۔
غیر مسلموں کو چاہیئے کہ وہ امریکہ، برطانیہ یا کسی اور صلیبی ملک کے سہارے
پاکستان میں صلیب کی قوت کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں کیونکہ ان کا
مرجیناپاکستانیوں کے ساتھ ہے۔ |