بدمعاش کی توبہ

اسلام دین فطرت ہے ۔اس میں ہمارے لیے نفع اور بھلائی کا تمام ساماں موجود ہے ۔آج جو ہم برائیوں، حماقتوں کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں ۔اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک اہم وجہ ہم نے اپنا محاسبہ اور دوسروں کونیکی کی دعوت دینا چھوڑ دی ۔حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰۤئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ()۔ترجمہئ کنزالایمان : اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اوربری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے ۔'' (پ٤ ، سورۃ آل عمران،آیت:١٠٤)

قران مجید کا یہ لاثانی پیغام ایک عظیم درس ،اک عظیم مشن اور اک عظیم عزم ہے ۔آہ!افسوس صد افسوس !!!!یہ احساس ذمہ داری ،اپنا احتساب ،شریعت کا پاس، سبھی کچھ ہمارے دامن سے نکلتاچلاجارہاہے ۔بے راہ روی عام ہوتی چلی جارہی ہے ۔شہر تو شہر ،گاؤں ،دیہاتوں میں جہاں طرز زندگی انتہائی سادہ ہواکرتا تھا۔جہاں اہل علم و دانش کو پیشوا مقتداء جانا جاتاتھا۔جہاں ادب کی بے نظیر مثال قائم تھی ۔جہاں فیشن پرستی ،رقص و سرور کا رجحان کم سے کم تھا ۔بزرگوں کی عزت کا پاس تھا۔لحاظ تھا۔لیکن ثقافتی یلغار نے ماحول ہی بدل کر رکھ دیا۔فحاشی و عریانی ،فیشن پرستی ،رقص و سرور کی محافل وہاں بھی ایسی جمنے لگی ہیں کہ الامان والحفیظ۔علم کی کمی اور اچھوں کی صحبت کے فقدان کی وجہ سے جہالت کے چھائے بدل ماحول کو بھیانک سے بھیانک بناتے چلے جارہے ہیں ۔ دیہات میں نمو پانے والا بچہ بھی دل میں یہ خواہشیں و امنگیں لیے جوان ہوتاہے کہ میں بڑاہوکر ایکٹر بنوں گا،ڈانسر بنوں گا،شہرت حاصل کروں گا،معاشرے کے بدلتے ہوئے رویے اسے بدمعاش بنادیتے ہیں ۔ایک نرم طبع شخص بھی بدمعاش اور حقوق تلف کرنے والا بن جاتاہے۔پھر اس بدمعاشی پر گھمنڈکرتاپھرتاہے ۔وہ اس منزل اور اس مقصد کے حصول میں اپنا سبھی کچھ صرف کردیتاہے ۔حتی کے زندگی کے نادر لمحے اسی طرح گزرتے چلے جاتے ہیں ۔ شہروں کی تو حالت ہی بگڑ گئی۔فحاشی و عریانی ،اسلام کش رویے اور نظریے اور نہ جانے کیا کیا۔

ندامت سے گناہوں کا ازالہ کچھ تو ہوجاتا ہمیں رونا بھی تو آتانہیں ہائے ندامت سے لیکن حالات کی مشکلیں دیکھ کر ،برائیوں کا سد باب کرنے کی بجائے ،ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھنا بھی یا اس میں سدھار لانے سے رک جانا، یہ اہل علم و دانش کا طریقہ نہیں اور نہ ہی یہ تعلیمات اسلام ہیں بلکہ تعلیمات اسلام میں تو ہمیں یہی درس ملتاہے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور دوسروں پر انفرادی کوشش کرتے چلے جائیں ۔آج کے اس پرفتن دور میں اس کی مثالیں ملیں گیں ۔جنھوں نے گناہوں کی دلدل میں دھنستے معاشرے میں سنّتوں کی بہاریں عام کیں ۔نیکی کی دھومیں مچائیں ۔اسلاف کے کردار کی یاد تازہ فرمادی کہ جن کی دین کی کڑہن ،فکر آخرت کی بدولت ہزاروں نہیں لاکھوں کی زندگیاں سنور گئیں ۔سییر و تواریخ کی کتب میں ایسے بیش بہاواقعات ملتے ہیں کہ جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے ۔لیکن جب ربّ تعالیٰ کی رحمت غالب آئی ۔توفیق کے دروازے کشادہ ہوئے توکایہ ہی پلٹ گئی ۔بگڑی سنور گئی ۔

جیساکہ تذکرۃ الاولیاء میں ایک واقعہ لکھاہوا ہے کہ ایک بدمعاش نوجوان 'حضرتِسیدنا مالک بن دینا رعلیہ الرحمۃ کا ہمسایہ تھا ۔ لوگ اس سے بہت پریشان رہتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت مالک بن دینا رعلیہ الرحمۃسے اس کے مظالم کی شکایت کی تو آپ نے اس کے پاس جا کر سمجھایا لیکن اس نے گستاخی کے ساتھ پیش آتے ہوئے کہا کہ'' میں حکومت کا آدمی ہوں اور کسی کو میرے کاموں میں دخیل ہونے کی ضرورت نہیں ۔''آپ نے جب اس سے فرمایا کہ''میں بادشاہ سے تیری شکایت کروں گا۔ ''تو اس نے جواب دیا :'' وہ بہت ہی کریم ہے میرے خلاف وہ کسی کی بات نہیں سنے گا ۔''آپ نے فرمایا کہ ''اگر وہ نہیں سنے گا تو میں اللہ عزوجل سے عرض کروں گا۔''اس نے کہا کہ وہ بادشاہ سے بھی زیادہ کریم ہے ۔یہ سن کر آپ واپس آگئے لیکن کچھ دنوں بعد جب اس کے ظالمانہ افعال حد سے زیادہ ہو گئے تو لوگوں نے پھر آپ سے شکایت کی اور آپ پھر نصیحت کرنے جا پہنچے لیکن غائب سے آواز آئی کہ'' میرے دوست کو مت پریشان کرو ۔''آپ کو یہ آواز سن کر بہت حیرانی ہوئی اور اس نوجوان سے کہا کہ میں اس غیبی آواز کے متعلق تجھ سے پوچھنے آیا ہوں جو میں نے راستہ میں سنی ہے ۔اس نے کہا کہ'' اگر یہ بات ہے تو میں اپنی تمام دولت
راہ خدال میں خیرات کرتا ہوں ۔''اور پورا سامان خیرات کر کے نامعلوم سمت چلاگیا۔

اس کے بعد سوائے حضرت مالک بن دینا رعلیہ الرحمۃ کے کسی نے اس کو نہیں دیکھا۔ آپ نے بھی مکہ معظمہ میں اس حالت میں دیکھا کہ بہت ہی کمزوراور مرنے کےقریب تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنا دوست فرمایا ہے میں اس کے احکام پر جان ودل سے نثار ہوں اور مجھے علم ہے کہ اس کی رضاصرف عبادت ہی سے حاصل ہوتی ہے اور آج سے میں اس کی رضا کے خلاف کام کرنے سے تائب ہوں۔'' یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ (تذکرۃ الاولیا ، باب چہارم ، ذکر مالک دینار ،ج١،ص٥٠)

محترم قارئین:زندگی بے حد مختصر ہے ۔ہم لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم قبر و آخرت کی تیاری کریں اور خوب خوب علم دین حاصل کرکے اس عظیم مدنی مقصد کو دوسروں تک عام کریں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اخلاص کی دولت عطا فرمائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 543392 views i am scholar.serve the humainbeing... View More