گزشتہ چار دن سے ترکی
میں ہوں، ترکی ایک لبرل اسلامی ملک ہے، یہاں لوگوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل
ہے، یہ ایک صاف ستھرا، خوبصورت، تاریخی اور پڑھا لکھا ملک ہے۔ میں نے ان
چار دنوں میں ترکی کے متعدد شہروں کا دورہ کیا، خاص طور پر استنبول سٹی
دیکھا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے، اس شہر میں وسیع و عریض سڑکیں، بہترین
پارکس،خوبصورت فٹ پاتھ،جدید شاپنگ مالز اور بلند وبالا عمارتیں ہیں۔آپ کو
یہ جان کر حیرت ہوگی میں نے ان چار دنوں میں ترکی میں ایک بھی باریش شخص
نہیں دیکھا، لوگوں کی اکثریت کلین شیو ہے۔ میں اس سے پہلے دنیا کے 50سے
زائد ممالک میں جاچکا ہوں، امریکہ ، برطانیہ اور دبئی ایسے آزاد ممالک میں
گیا ہوں، وہاں لوگوں سے ملا ہوں، ان سے میل ملاقات کی ہے لیکن مجھے ان
ممالک میں کوئی نہ کوئی باریش شخص ضرور دکھائی دیا لیکن یہاں ڈھونڈنے سے
بھی کوئی باریش آدمی نہیں ملا۔ میںترکی کے لوگوں کو دیکھ کرواقعی حیران رہ
گیا۔
میرے ساتھ ایک کمپنی ERIA کام کررہی تھی، اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے مجھے
کھانے پر مدعو کیا ، اس دوران میں نے چیف ایگزیکٹو سے پوچھا "مجھے کہیں
کوئی داڑھی والا شخص نظر نہیں آیا، اس کی کیا وجہ ہے" وہ مسکرایا اور کہنے
لگا "ہم ظاہر نہیں باطن کو دیکھتے ہیں" اس نے بتایا" پچھلے دنوں پاکستان سے
کچھ لوگ کورس کیلئے ترکی آئے تھے، ان میں سے ایک شخص نے داڑھی رکھی ہوئی
تھی چنانچہ ہماری کمپنی نے اسے واپس پاکستان بھیج دیا تھا کیونکہ ہماری
توجہ ظاہری سے زیادہ باطنی چیزوں پر ہوتی ہے جبکہ وہ شخص اسلام کے حوالے سے
انتہائی شدت پسند تھا لہٰذا ترکی میں ایسے شخص کی کوئی جگہ نہیں تھی چنانچہ
ہم نے اسے واپس بھجوا دیا"اس کا کہنا تھا" ان کی کمپنی نے چشمہ رائٹ کینال
پر کام کیا تھا، کمپنی کے پاکستان میں چیف ایگزیکٹو میرے دوست تھے، انہوں
نے مجھے بتایا تھا، ایک دن ایکسیئن دورے پر تھا، میرے دوست چیف ایگزیکٹو نے
اسے دو لاکھ روپے دینے کا حکم دیا، جب ایکسیئن آیا تو دو لاکھ روپے اس کو
پیش کر دئیے، اس نے وہ روپے فوری اٹھا کر جیب میں ڈالے اور کھانا کھانے کے
بعد نماز میں مشغول ہو گیا، نماز کے دوران یہ رقم اس کی جیب سے جانماز پر
گر گئی، اس نے فوراً نماز توڑی، رقم اٹھائی اورجیب میں ڈال کردوبارہ نماز
پڑھنے لگا لہٰذا ہم ایسے اسلام کے روادار نہیں " میں اس کی بات سن کر
شرمندہ ہوگیا بعد ازاں اس نے استنبول کا ایک واقعہ سنایا ، اس نے بتایا"
پچھلے دنوں استنبول کی مسجد میں ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا، اسے ہارٹ اٹیک
ہوگیا، وہ گرا اورتڑپنا شروع کر دیاجبکہ نمازی اپنی نماز میں مشغول رہے ،
جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئے لہٰذا ترکی میں
اسلام بڑا سیدھا اور سادا ہے، اس میں کوئی گڑ بڑ نہیں جبکہ پاکستان میں
اسلام کے لبادے میں منافقت ہے"۔اس کی یہ بات سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں آگ
سی دوڑ گئی لیکن میں خاموش ہو گیا۔
ترکی میں اس وقت پاکستان سے زیادہ مساجد ہیں، صرف استنبول شہر میں درجنوں
تاریخی مساجد ہیں ،ان میں ایک مسجد سلیمانیہ ہے،یہ خوبصورتی میں اپنی مثال
آپ ہے ، اس کے علاوہ بادشاہی مسجد، مسجد وزیر علی اور کئی دیگر قدیم مساجد
ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور جن میں داخل ہو کرانسان حیرت میں
مبتلا ہو جاتا ہے ۔استنبول میں توپ کاپی کا ایک میوزیم ہے، یہ بھی انتہائی
شاندار اور تاریخی ہے ۔میں نے اس میوزیم میں نبی اکرم صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ
وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے تبرکات بھی دیکھے، مجھے یہ
تبرکات دیکھ کر بڑا اچھا لگا اور ان تبرکات کی نسبت نے میری پلکیں تر کر
دیں۔ میرے گائیڈ نے بتایا ،یہ میوزیم کسی دور میں بادشاہ کا محل ہوا کرتا
تھا، اس محل میں بادشاہ اپنی دو سو بیویوں کے ساتھ رہتا تھا لیکن اس کی
وفات کے بعد یہ محل میوزیم کیلئے مخصوص کر دیا گیا چونکہ ترک بادشاہوں کی
یہ روایت تھی، وہ کسی کو اپنا ولی عہد نامزد نہیں کرتے تھے اور وہ تخت و
تاج کے اکیلے وارث ہوتے تھے چنانچہ وہ اس لالچ اور ہوس کی وجہ سے اپنے
بھائیوں کو ایک ایک کر کے قتل کر دیتے تھے تا کہ وہ حکومت کا مطالبہ نہ
کریں۔ میں ترکی کی تاریخی حیثیت سے تو متاثر ہوا ہی لیکن مجھے جس چیز نے سب
سے زیادہ متاثر کیا وہ ترکی کی انڈسٹری تھی، یورپ کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے
ترکی کی کوالٹی چین کی کوالٹی سے کہیں بہتر ہے، ترکی کی انڈسٹری ہر سال
107بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتی ہے، یہاں ایسی ایسی شاندار فیکٹریاں ہیں
جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ مثلاً میں ایک دروازے بنانے والی
فیکٹری میں چلا گیا، اس فیکٹری کے مالک سے ملا، میں نے اسے بتایا "پاکستان
میں ایک بہت بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی ہے اور ہمیں اس کمپنی کیلئے بے شمار
دروازے چاہئیں" اس نے پوچھا "کتنے چاہئیں" میں نے کہا "ان لمیٹڈ" وہ
مسکراکر کہنے لگا "ان لمیٹڈ کا کیا مطلب ہے" میں نے کہا "ہمیں 20ہزار
دروازے چاہئیں" وہ ایک بار پھر مسکرایا اور اس کے بعد کہنے لگا "جناب یہ تو
ہمارا صرف چھ دنوں کا کام ہے اور میری فیکٹری میں روزانہ ساڑھے تین ہزار
دروازے بنتے ہیں" میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ یہ ترکی کی صرف ایک
کمپنی کی گنجائش ہے جبکہ اس کے علاوہ کچن وئیر، ٹائلز اور گھروں کی دوسری
اشیاء بنانے والی سینکڑوں فیکٹریاں ہیں جن میں روزانہ لاکھوں ڈالرز کا
کاروبار ہوتا ہے اور ان فیکٹریوں میں سیکنڈ کے حساب سے کام ہوتا ہے، چند
سیکنڈ میں چیزیں بنتی، مکمل ہوتی اور پیک ہو جاتی ہیں۔
میں جن دنوں ترکی پہنچا ان دنوں سکارف کا مسئلہ بہت "اِن" تھا، سکولوں،
کالجوں، یونیورسٹیوں اور اداروں میں لڑکیوں کو سکارف کی اجازت دی جانی
چاہئے یا نہیں اس معاملے پر ٹاک شو اور بحثیں چل رہی تھیں اور یہ معاملہ
کافی شدت اختیار کرتا جا رہا تھا، ترک حکومت نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے
ہوئے پورے ملک کی بڑی بڑی شاہراہوں، مارکیٹوں، بازاروں اور شاپنگ پلازوں پر
کمال اتا ترک کی ہزاروں قدآدم تصاویرآویزاں کر دیں، ان تصاویر میں کمال اتا
ترک سوئمنگ پول میں لڑکیوں کے ساتھ نہا رہا تھا، ڈانسنگ فلور پر ڈانس کر
رہا تھا، کتوں کے ساتھ واک کررہا تھا اور مختصر لباس میں سڑک پر دوڑ رہا
تھا۔ میں نے جس طرف دیکھا کمال اتا ترک کی یہ تصاویر آویزاں تھیں۔ میں نے
ایک دن اپنے میزبان سے پوچھا "یہ تصاویر کیوں نصب کی گئی ہیں؟" اس کا کہنا
تھا "ہم قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں ہمارا بابائے قوم ایک لبرل انسان تھا،
وہ ترکی کو ایسا ملک بنانا چاہتا تھا جس میں مذہبی جنونیت نہ ہو، جس میں ہر
شخص آزاد ہو اور وہ اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق زندگی گزارے"۔ مجھے
ترکی کی یہ اپروچ بہت اچھی لگی۔ ترکی میں کلبز اور مسجدیں دونوں آزاد ہیں،
کوئی رند رات کے آخری پہر شراب خانے میں جانا چاہے تو ترکی کا قانون اسکے
راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا اور اگر کوئی شخص تہجد کے وقت اپنے پروردگار کی
بارگاہ میں حاضر ہونا چاہے تو ترک قانون اسے بھی پوری پوری سہولت فراہم
کرتا ہے لہٰذا ترک پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں۔
میں ترکی کے نظام، ترقی اوروہاں کے لوگوں کے خیالات جان کر حیران رہ گیا۔
میں سوچنے لگا، دنیا آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور یورپ کا مقابلہ کرنے کیلئے
کس طرح سوچتی ہے جبکہ ہم ابھی تک دھوتی کرتا اور پینٹ شرٹ کے مسائل سے باہر
نہیں آئے، ہم ابھی تک پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔
Courtsey: The Daily Jinnah |