معیاری تعلیم کے لئے بیداری مہم

ممتاز دانشور ، منتظم اور تعلیم داں جناب سید حامد کی سربراہی میں تقریباً بائیس سال قبل ستمبرسنہ ۱۹۹۱ءمیں ایک مہم کا آغاز ہوا ، جس کی چار بنیادی جہات طے پائیں۔ تعلیم کا فروغ، صفائی ستھرائی اورحفظان صحت پر زور، اصلاح معاشرہ کی تلقین اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی فکر مندی۔ حکمت عملی یہ طے پائی کہ کچھ لوگ گھروں سے نکلیں اور شہر شہر جاکر لوگوں کے دلوں پر دستک دیں۔ چنانچہ مختلف موضوعات پر ملک گیر اور ریاستی سطح کے متعدد کارواں نکالے گئے۔

یہ بھی محسوس کیا گیا کہ جب تک اس مہم میں خواتین شریک نہ ہونگیںخاطر خواہ نتائج برامد نہیں ہونگے۔ چنانچہ خواتین تک یہ پیغام پہنچانے کے لئے چندہوشمند خواتین نے بھی اپنا وقت فارغ کیا ۔ خواتین کی متوازی نشستیں بھی ہوئیں اور جہاں ممکن ہوسکا وہاں خواتین کے کارواں نکالے گئے۔ چنانچہ میوات میںاور خاص طور سے بہار میں یہ مہم بڑا چھوکھا رنگ لائی۔ اتنی بڑی تعداد میں خواتین جوق در جوق جلسوں میں شریک ہوئیں جس کاتصور بھی نہیںکیا گیا تھا۔ بعض جگہ ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچی۔ خواتین کے درمیان کھل کر تبادلہ خیال ہوا جو مردوں کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔

یہ سلسلہ جاری تھا کہ محسوس ہوا کہ ناخواندگی، بے بنیاد مفروضات و توہمات سے خاص توجہ مطلوب ہے ۔ چنانچہ” مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ“ کے تعاون سے ، جو اہل اور ضرورت مند طلبہ و طالبات کے لئے وظائف کا نظام چلارہا ہے ، ایک الگ پلیٹ فارم ”آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘ ‘کا قیام عمل میں آیا اور سرسید کے اس مشن کے احیاءکا بیڑا اٹھایا گیا جو انہوں نے ”محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس“ کے عنوان سے زاید از ایک صدی قبل شروع کیا تھا۔اس مہم میں متعدد دیگر ریاستی و مقامی تنظیموں و سماجی کارکنوں نے بھی اپنا بیش قیمت تعاون پیش کیا۔ طے پایا کہ ان کوششوں کو مہمیز دینے کے لئے ہرسال ایک کل ہند کانفرنس منعقد کی جائے۔چنانچہ آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کی پہلی کل ہند کانفرنس سنہ 2010ءدہلی میں، دوسری سنہ 2011ءمیں شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ میں، تیسری گزشتہ سال حج ہاﺅس کولکاتہ میں اور چوتھی اسی 16 و 17 مارچ کو اڑیسہ کے شہر کٹک میں منعقد ہوئی۔

حالیہ کانفرنس سے قبل یہ مناسب سمجھا گیا کہ اسکاپیغام پہنچانے کے لئے اور تعلیم کی صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے کچھ لوگ کارواں کی شکل میںنکلیں۔ تیس افراد پر مشتمل ایک کارواں ۸ مارچ کو دہلی سے روانہ ہوا،جو یوپی اور بہار کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا12 مارچ کو بنگال پہنچا ۔ اس مہم میںبیرون ہند مقیم بعض ہندستانی دانشور بھی شریک رہے۔اسی کے متوازی ایک دوسرا کارواں بنگال کے لئے مخصوص کیا گیا جس میں جاکر دہلی والاکارواں بھی مل گیا اور سفر کی صعوبت، موسم کے سرد و گرم کو انگیز کرتا ہوا کچھ سفر ٹرین سے اور کچھ سڑک کے راستے طے کرتا ہوا مغربی بنگال کے دور دارز مقامات تک پہنچا۔ مقامی معاونین نے جابجا مدارس، مسلم اسکولوں اور عام جلسہ گاہوں میں تعلیمی کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ راقم الحروف کو بھی دہلی سے کٹک تک اس میں شرکت کی توفیق حاصل ہوئی اور نو بہ نو تجربات اور اطلاعات سے استفادہ کا موقع ملا۔ دہلی سے کارواں موومنٹ کے صدر امان اللہ خان کی قیادت میں روانہ ہوا جسے سید فیصل علی ، گروپ ایڈیٹر ، سہارا اخبارات و ٹی وی چینل ، اعجاز اسلم، ایڈیٹر انگریزی ہفت روزہ ریڈئنس اور خواجہ ایم شاہد ، صدر اے یم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے رخصت کیا۔
اس سال کانفرنس کا عنوان ”کوالٹی ایجوکیشن؛ اشوز اینڈ چیلنجز“ قرار پایا۔اس پر کسی کو کیا اختلاف ہوگاکہ تعلیم عام ہواور معیار بلند ہو۔محض امتحان پاس کرلینا کافی نہیں ۔ چنانچہ کانفرنس میں اہم سوال یہ زیر غور آیا کہ تعلیم کا مقصود کیا ہے اور کوالٹی ایجوکیشن سے مرادکیا ہے؟

تعلیم کا مقصد اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ انسان کی فکر و نظر میں وسعت پیدا ہو اور وہ معاشرہ کا مفید حصہ بنے؟ یہ اسی وقت ممکن ہے جب طلباءمیں، چاہے مدرسہ کے ہوں یا کسی عصری تعلیم گاہ کے،کتابی علم کے ساتھ کچھ اور خوبیاں بھی پیدا ہوں۔ چند نصابی کتابیں پڑھا دینا یا چند اسباق رٹوا دینا ہرگز کافی نہیں۔اس کانفرنس میں محسوس کیا گیا کہ تعلیم کا مقصد طلباءکے اندر خداشناسی ، خود آگاہی اور ذہنی ارتقاءہونا چاہئے۔ معاشرے کے لئے مفید فرد کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو اور اس سے اپنے رشتے کو پہچانے۔ اس کی جملہ مخلوق کے درمیان اپنے مقام اور ذمہ داریوں کو سمجھے اور اپنے اندر موجود جوہر سے باخبر ہوتاکہ حوصلہ مندی اورشعور کے ساتھ اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکے۔تعلیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کی متعلم کا ذہنی ارتقا ہو،اس میں بھلے برے کے تمیز پیدا ہوا اوراس علم کی روشنی میں عام انسانوں کی رہنمائی و قیادت کی صلاحیت اس میں عود کر آئے۔ایک اہم مطلوبہ صفت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلا اخلاق و کردار کی آبیاری ہو۔ ایسی تعلیم جو انسان کوخالق کائنات سے غافل رکھے، ایسا نظام تعلیم جو طلباءکے اندر خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے ان میں خود شناسی اور خود اعتمادی کا جوہر پیدا نہ کرے، ان کے اندر غور و فکر کی صلاحیت کو جِلا نہ دے، ان کا ذہنی ارتقاءکی راہ ہموار نہ کرے اور ایسا تعلیمی نظام جس کے فارغین کردار کی عظمت سے نابلند رہیں، ایسا ہی ہے جیسے گدھوں پر کتابیں لاد دی جائیں۔

انسان کے اندر یہ جوہر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی عطا کردہ سماعت اور بصارت کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے اور فواد سے کام لیا جائے۔ اللہ کی عطاکردہ ان صلاحیتوں کے اعلا ترین استعمال کا شعورطلباءمیں پیداکیا جائے اور اس کی مشق کرائی جائے۔مگر آج ہو یہ رہا ہے کہ الفاظ کانوں سے ٹکراتے ہیں، اللہ کی نشانیاں(آیات) نظروں کے سامنے آتی ہیں، مگر ان پر غور و فکر نہیں کیا جاتا اور کچھ چیزوں کو طوطے کی طرح رٹ لینے کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے الفاظ سماعت سے محروم انسان کے کانوں سے ٹکرا ئے اور اپنا اثر مرتب کئے بغیر لوٹ گئے۔یا چیزیں نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود ہم ان کو دیکھنے کی طرح نہیں دیکھتے کہ ان کے جوہر کو سمجھ سکیں۔ فواد کے لغوی معنی دل کے ہیں اور مراد اس سے قلب و نظر، فکر و ذہن کی ہے۔ جوعلم انسان کے اندر قوتِ ادراک، تحمل و استقرار، باہم تعاون کی خوبو، دوسروں کی فکرکرنا نہیں سکھاتا بلکہ استکبار و انانیت، خود ستائی،خود نمائی،خود غرضی و خود سری اور خوشامد جیسے رزائل کا زریعہ بن جائے ، ایسا علم انسان کو شرف انسانیت سے گراکر شیطانیت کے مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ سمع ، بصر اور فواد کی یہ اصطلاحیں کہیں اور سے نہیں بلکہ کلام الٰہی سے اخذ ہیں۔ ارشار ہوتا ہے: ”بیشک کان، آنکھ اور دل، ہرایک کے بارے میں پرشش ہوگی۔ “(بنی اسرائیل : 36) جو اللہ کی کھلی ہدایات سے روگردانی کرتے ہیں ان کی مثال بہرے، گونکے، اندھے جیسی ہے۔ (البقرہ : 18)

ہم نے موٹے طور پر یہ سمجھ لیا ہے کہ پرشش صرف اس بات کی ہوگی کہ اپنی سماعت و بصارت اور دل کو فواحشات سے محفوظ رکھا یا نہیں؟ لیکن کیا اس بات کی پوچھ نہیںہوگی کہ تم نے اللہ کی آیات کو سنا، قدرت میں پھیلی ہوئی اس کی آیات (نشانیوں) کو دیکھا ، مگر ان پر غور و فکر ہی نہیں کیا،حالانکہ قرآن میں جا بجا مظاہر فطرت کا ذکر ہے ، ان پر غور و فکر کی ہدایت ہے اور فرمایا گیا ہے کہ” ان میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں ہیں“۔ (۶:۹۹)اور وہ زبردست حکمت والا ہے، یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لئے دیتے ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھ پاتے ہیں جو علم رکھتے ہیں،اللہ نے زمین کو اور آسمان کوحق (ٹھیک ٹھیک ناپ تول اور نظام ) کے ساتھ پیدا کیا، درحقیقت ان میں نشانی ہے اہل ایمان کے لئے “ (29:43)

یہ نشانیاں اس وقت انسان پر کھلتی ہیں جب وہ بے عقلوں کی طرح ان پر سے گزر جانے کے بجائے عقل کو بروئے کار لائے اور اس نظام قدرت کو سمجھنے اور ان سے عالم انسانیت کے لئے مفید اکتشافات پر محنت کرے۔ قرآن میں جا بجا اللہ کی نشانیوں (آیات ) کے مطالعہ کی ہدایت ہے۔ آیات دونوں طرح کی ،وہ آیات بھی جو قرآن کریم میں ملفوظ ہیں اور وہ آیات بھی جو کائنات عالم میں پھیلی پڑی ہیں۔ایک ننھے سے تخم سے برگد جیسا عظیم الشان درخت اور ایک ایک قطرے سے انسان کا وجود عمل میں آجاتا ہے۔ ان کے ارتقائی عمل میں اللہ کی ہزار ہا آیات غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، مگر ہم نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں یا بس ہونقوں کی طرح منھ پھاڑے ان دیکھ کر سبحان اللہ کہہ لیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایک طبقہ نے خود کو ملفوظ آیات تک محدود کرلیا اور جنہوں نے ’کتاب عالم ‘ کے مطالعہ میں اشغال پیدا کیا انہوں نے کتاب الٰہی سے آنکھین بند کرلیں،حالانکہ خدا شناسی اور خود شناسی کے لئے یہ لازم ہے کتاب الہٰی سے رہنمائی حاصل کی جائے اورکتاب عالم پر غور وخوض کیا جائے۔آیات قرآنی میں تدبر کے بغیر کائنات کا مشاہد ہ نہ منزل پر پہنچاتا ہے اور نہ کائنات کا مشاہدہ کئے بغیر قرآن پر تدبر کامل ہوتا ہے۔

ترتیب نزول سے قرآن کی پہلی آیت ” پڑھ، پالنہار کے نام سے، جس نے پیدا کیا، انسان کی تخلیق کی خون کی ایک پھٹکی سے“۔ اس میں اللہ کی صفات ربوبیت، خلاقیت اور اس حقیقت کا ذکر ہے کہ انسان کو ایک پھٹکی سے وجودبخشا۔یہاں اللہ کی ان صفات کا ذکر زیب داستان کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ ان پر غور کرے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اس ذکر کو پڑھنے کی طرح سے پڑھا جائے اور سمجھنے کی طرح سے سمجھا۔ سماعت اور بصارت دونوں سے کام لیا جائے۔

یہ توقرآن کا ایجاز ہے، ورنہ خود وہ قطرہ جس سے انسان کا وجود عمل میں آتا اپنے اندر ایک عظیم کارخانہ رکھتا ہے۔ اللہ نے یہاں اپنی شان ربوبیت و خلاقی کا جو ذکر فرمایا ہے، اس سے ہمارے اندر یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ربوبیت کا یہ نظام ، جس میں نباتات، حیوانات اور جمادات سب اپنا اپنا کردارکررہے ہیں، کس طرح ’حق کے ساتھ‘ قایم ہےں؟ ہرایک کا ایک وظیفہ مقرر ہے، کس طرح وہ اس کوادا کررہا ہے؟ اللہ نے ان کو عالم انسانیت کی خدمت میںکس طرح مشغول کردیا؟ اگر یہ تجسس پیدا نہیں ہوتا توگویا ہم نے نہ کچھ پڑھا اور نہ کچھ سنا۔نہ سماعت سے کام لیا، نہ بصارت سے اور نہ فواد سے۔۔

اگر ہم اللہ کے نظام ربوبیت پر غور و فکر نہیں کرتے، اس نے اس کائنات کو کس طرح تخلیق کیا، اس کو سمجھنے کی جستجو نہیں کرتے، انسان کا وجود کس طرح بنا، اس کے اندر جو ہزار ہا پیچیدہ کارخانے اللہ نے قائم کردئے ہیں ، وہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اگر ہم ان کا بہ نظر غائر مطالعہ نہیں کرتے، تو کیا دعوا کرسکتے ہیں کہ اس باز پرس سے بچ جائیں گے جس کا ذکر بنی اسرائیل کی آیت 36 میں آیا ہے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ اللہ تو فرماتا ہے ان میں اہل ایمان کے لئے نشانیاں ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی ان آیات میں ، جو خود انسان کے اپنے وجود سے لیکر کائنات کے آخری سرے تک پھیلی پڑی ہیں، غور و فکر کفر و الحاد کا پیش خیمہ بن جائے گا؟ حالانکہ خدا ناشناسوں کے ان میں غور و فکراور مشاہدات کے نتیجے میں جو ایجادات ہورہی ہےں، انکشافات و فتوحات ہورہی ہیں ان سے استفادے میں کوئی تردد نہیں ہوتا۔کیا ہم سے بازپرس نہ ہوگی کہ خدمت خلق کے اتنے سارے امکانات سے ہم کنارہ کش ہوگئے اور خدا ناشناس ان پر چھائے رہے؟ استغفراللہ۔

حالانکہ ہمارا دین پوری زندگی پر محیط ہے مگر ہم نے تعلیم کو دو غیر حقیقی شعبوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر علم نافع پر ہمارا حق ہے۔ طب وجراحت،علم الاعضاء، علم الابدان ، علم الادویہ، صنعت و حرفت،ہندسہ،تعمیرات، فلکیات، جغرافیہ، سماجیات، معاشیات اورسائنس و ٹکنالوجی وغیرہ سارے نافع علوم ہیں ان کو دین کے دائرے کے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا حصول اسی طرح فرض کفایہ ہے جس طرح قرآن ، تفسیر، حدیث اور فقہ کا ، کہ ہمارا دین عبادات اور معاملات دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔

کانفرنس میں اس پہلو سے بھی غور و خوض ہوا کہ ہمارے مدارس کے طلباء، جن کو بیشک مہمانان رسول کہا جاتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں ،تو نائبین رسول کا کردار ادا کرنے اور سماج کی رہنمائی اور منصبِ امامت پر فائز ہونے کے اہل نہیں پائے جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ پڑھا ہے، اس کو معاشرہ پر نافذ کرنے کا فن ان کو نہیں سکھایا گیا۔ وہ عصری معاشرے میں کارفرما طاقتوں سے باخبر نہیں ہوتے۔ ان کے پاس معاشرے پر حاوی نظریات کاایسا علم نہیں ہوتا کہ زمام کار ان کے ہاتھوں سے چھین سکیں اور اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔چنانچہ وہ تماشائی بن کر مسجد اور مدرسہ تک محدود رہ جاتے ہیں حالانکہ دنیا کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں اسی طرح آنی چاہئے جس طرح رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں میں آگئی تھی۔ یہ زمام کار بدستور خدا ناشناسوں کے ہاتھوں میںہے جو عدل وانصاف کی جگہ عیاری اور مکاری، عطا اور بخشش کی جگہ لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔

اس کے برعکس جدید تعلیم کا المیہ یہ ہے سیکولرزم کے نام پر اس کو خدا ناشناسی کا شاہکار بنا دیا گیاہے۔ اخلاقی تعلیم کے نام پر بھگوا کرن کیاجارہا ہے اور اہل مدارس جمود کی کیفیت میں مبتلا ہیں، 21ویں صدی میں وہ ہزار سال قدیم حالہ میں خود کو قید کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طرح کی نظام تعلیم کو معیار مطلوب میں ڈھالنے کی فکر کی جائے، جس کو ہم نے ”کوالٹی ایجوکیشن“ کا نام دیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے مدارس اگر کوالٹی ایجوکیشن کا گہوراہ ہو جائیں، ان کے نصاب میں بقدر ضرورت تمام نافع علوم کو شامل کرلیا جائے ،اورابتدائی درجات کے بعد طلباءکی استعداد و دلچسپیوں کے اعتبار سے ان کی اعلا تعلیم کے مضامین کا تعین کیا جائے، اساتذہ اپنے اخلاق و کردار کا اعلا نمونہ پیش کرکے طلباءکے اخلاق و کردار کو سنواریں تو ایک بڑا نقلاب رونما ہوسکتا ہے اور امت مسلمہ کی بااختیاری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

کانفرنس میں خدمت خلق کی اہمیت کا بھی ذکر آیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہ امت، خیر امت اسی صورت میں بن سکتی ہے جب اس میں خدمت خلق کا وہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر ا ہو، جس کے اعلا نمونے ہم سیرت نبوی میں مطالعہ کرتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے ہم نے اپنی سماعت، بصارت اور فواد تینوں پر تالے جڑ دئے ہیں اور بدقسمتی سے دعوا یہ کرتے ہےں کہ یہی عین تقاضائے دین ہے۔ہمارے مدارس ہوں یا عصری تعلیم گاہیں،ان میں خدمت خلق پر توجہ نہیں دی جاتی۔

اہم سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کن علوم میں آگے تھی کہ دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہوئی، اور کون سے علوم واقدارتھے جو ہم سے چھوٹ گئے کہ ہم غار مذلت میں جا پڑے؟ آج قال اللہ اور قا ل الرسول کو غلغلہ تو ہے ، مگر ملت پر جمود کی کیفیت طاری ہے؟ آخر کیوں؟ (جاری)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.