گاڑیوں کا بے ہنگم رش، رکشوں کا
شور ، کنڈیکٹروں اور ڈرایئوروں کی سواریوں پر کھینچا تانی اور درمیان میں
بے چاری عوام۔ میں مینگورہ کے جنرل بس اڈے میں کھڑے ہو کر بریکوٹ جانے والی
فلائنگ کوچ کا انتظار کر رہا تھا۔ میرے ساتھ ہی دو خواتین بھی کھڑی تھیں جن
کے ساتھ ایک پانچ سالہ بچی بھی تھی۔ اُن کی باتوں سے اندازہ ہورہاتھا کہ وہ
کسی گاؤں سے اکیلی علاج کی غرض سے مینگورہ شہر کے ہسپتال آئیں تھیں۔
کنڈیکٹر اُن کوصرف اس لئے گاڑی میں نہیں بٹھا رہا تھا کہ اُن کے وہ دو تھیں
اور پھر اُن کے ساتھ کوئی مرد نہیں بیٹھ سکتا، جن کو وہ چار بندوں کی سیٹ
پر بٹھا کر اپنی دو سواریوں کے کرائے کو ضائع نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
خواتین غریب تھیں وہ بچی کے لئے علیحدہ سیٹ نہیں لے سکتے تھے اور نہ ہی دو
اضافی نشستوں کا کرایہ دینے کے قابل تھیں. دو تین گاڑیاں بھر کہ چلی گئیں
مگر وہ خواتین اُسی طرح کھڑی تھیں اور تب تک کھڑی رہتی جب تک کوئی رحمدل
کنڈیکٹر اُن کو بٹھا نہ لیتا یا کوئی اور خواتین نہ آجاتیں تاکہ سیٹ پوری
ہوجاتی یا تب تک کھڑی رہتیں جب تک وہ اپنی گاڑی خود نہ خرید لیتیں۔
جب صوبے میں سرخ پوشوں کی حکومت آئی تو ہمیشہ کی طرح بلند وبانگ دعوے کئے
گئے اور عوام کو سبز باغ دکھا ئے گئے ۔ انہوں نے بھی خواتین کی ترقی اور
خوشحالی کا نعرہ لگایا اور پہلی منزل پر صوبائی دارالحکومت میں خواتین کے
لئے علیحدہ بس سروس کے اجرا کا عندیہ دیا گیااورہم بھی خوش ہوگئے کہ چند
مہینوں بعد میرے شہر میں بھی خواتین کے لئے الگ بس سروس شروع ہوجائے گی۔
کثیر ثرمایہ خرچ کرکے کے دو بہت شاندارنئی سی این جی بسیں منگوائیں گئیں۔
صوبائی حکومت کی ایک خاتون وزیر نے بس سروس کا افتتاخ کیا، جشن منایا گیا،
کیک کاٹے گئے، لنچ اور ڈنر ہوئے اور اگلے دن ایک بس گم ہوگئی اور دوسری
موٹروے کے قریب رنگ روڈ پر ایک ورکشاپ میں مرمت کے لئے کھڑی کر دی گئی۔
اس حکومت سے پہلے نگران صوبائی حکومت نے صوبائی دارالحکومت میں سی این جی
بس سروس شروع کرنے کے کام کو برق رفتاری سے مکمل کرنا شروع کیا مگر وقت کی
کمی اور جمہوری حکومت کی آمد کے ساتھ ہی یہ منصوبہ پتہ نہیں کہاں غائب
ہوگیا جبکہ ہم عوام کو یہ اطلاع مل رہی تھی کہ بس چند ہی دنوں میں ہم پشاور
کی شدید گرمی اور ناکارہ بسوں میں سفر کرنے کے بجائے ایر کنڈشنڈ سی این جی
بسوں میں سفر کریں گے۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ عمال اقتدارسیاسی اور
ٹرانسپورٹروں کے دباؤ میں آگئے ہیں۔ اسی طرح کے مسائل خاص کر خواتین سے
متعلقہ دشواریوں کے حل کے لئے جب اپنے علاقے کی خواتین کی مخصوص نشست پر
منتخب ہونے والی نمائندہ سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے بہت فراخ دلی اور
خوش اخلاقی سے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہر طرح کی مدد کرنے بلکہ اسمبلی میں
اس مسئلے پر بل پیش کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ اُن کو بل بھی ڈرافٹ
کرکے دے دیا گیااور پھر اُس کے بعد وہ ایسے غائب ہوئی کہ ابھی تک دوبارہ
نظر نہیں آئیں۔
نجانے کتنے ایسے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے بنتے ہونگے اور مٹی تلے دبتے
ہوںگے ، کتنی خواتین بارش ،گرمی ، سردی اور برفباری میں کسی رحمدل کنڈیکٹر
اور ڈرائیور کا انتظار کر رہی ہونگی۔ کتنے مریض بروقت ہسپتال پہنچنے کا
انتظار کرتے ہوںگے۔ کتنی بچیاں اور بچے بروقت سکول وکالج پہنچنے کے لئے بے
چین ہونگے۔ یہ احساس کسی کو نہیں۔
میرے شہر میں ہر متوسط گھرانے کے پاس ایک یا دو گاڑیاں ہیں کیونکہ یہاں پر
غیر قانونی گاڑیوں کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ اتنی گاڑیاں ہیں یہاں
کہ بازار اور سڑکوں پر لوگ کم اور گاڑیاں زیادہ ہونگی مگر میرے جیسے مڈل
اور مڈل کلاس سے نیچے کے طبقے کے لئے آمد ورفت کا کوئی معقول انتظام نہیں۔
جو گاڑیاں یہاں لوکل ٹرانسپورٹ کے نام پر چلتی ہیں اُن میں باعزت طریقے سے
سفر کرنا بہت مشکل ہے اور خاص کر جب خواتین ساتھ میں ہوں۔ جانوروں کی طرح
گاڑیوں میں ٹھسے ہوئے جاہل اور بعد زبان کنڈیکٹر ڈرائیور کے رحم وکرم پر
اپنے پیسوں پر سفر پل صراط پر سے گزرنے سے کم نہیں۔ انتظامیہ کہاں سوئی
ہوئی ہے کسی کو کچھ خبر نہیں، اتنی تعداد میں قانونی اور غیر قانونی گاڑیاں
ہونے کے باوجود
کوئی مناسب ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں
ٹی وی اور اخبارات میں سرخ چمچماتی ہوئی لمبی لمبی بسیں لاہور کی سڑکوں پر
دوڑتی ہوئی اور اُس میں آرام سے سفر کرتے ہوئے خواتین وحضرات کو دیکھ کر
رشک آگیا اور پھر ساتھ ہی ساتھ منفی پروپیگنڈہ سن سن کر غصہ بھی آگیا۔ بھئی
ذرا تو سوچئے کہ جتنا بھی پیسا اس کام پر خرچ ہوا فائدہ تو عوام کو ہی ہوا
نا۔ کم از کم عزت سے سفر تو کرسکتے ہیں اور کیا پتا کہ کل کو ہمارے صوبے کی
حکومت کو بھی غیرت آجائے اور کوئی ایسی ایک آدھ سروس یہاں بھی شروع کرے۔
ذرا یہ بھی تو سوچئے کہ اگر یہ یہ پیسہ مفاد عامہ کے لئے استعمال نہ ہوتا
تو کوئی اُن سے پوچھنے والا تھا کہ وہ پیسہ اُنہوں نے کہاں خرچ کیا؟ ہاں یہ
آنے والے انتخابات میں عوام کو راغب کرنے کا دھوکہ بھی ہوسکتا ہے مگر تھوڑا
بہت فائدہ تو ہوا نا۔ بڑی بڑی ٹھنڈی وگرم گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کرنے والے
ہمارے حکمران کب یہ جانتے ہیں کہ عام کٹھارہ قسم کی گاڑیوں میں سفر کیسے
ہوتا ہے ۔ مگر پھر میں بھی سوچتا ہوں کہ اگر میرے پاس بھی موٹر کار آگئی تو
مجھے بھی نہ تو سڑک کے کنارے بیٹھی مجبوری کی حالت میں گاڑی کا انتظار کرتی
ہوئی خاتون نظر آئیں گی، نہ ہی کوئی عمر رسیدہ شخص تپتی دھوپ میں گاڑی کے
انتظار میں پگلتا ہوا ملے گا اور نہ ہہی کوئی بچی بچہ سکول کو جاتے ہوئے
گاڑی سے لٹکتا ہو ا نظر آئے گا۔ |