ضلع لسبیلہ کے اندر تعلیم کی
زبوں حالی جس قدر آج ہے جس کی مثال ماضی بعید میں کم ہی ملتی ہے ،نظام
تعلیم بری طرح مفلوج ہے جس کی درست کرنے کی فکر نہ اقتدار کے ایوانوں میں
بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو ہے،نہ ہی تعلیم کے نام لاکھوں روپیوں میں تنخواہ
بٹورنے والے تعلیمی آفسران یا اساتذہ کو ہی ہے،اس سے بڑھ کر لمحہ فکریہ یہ
کہ جن کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں کے اندر پڑھ رہے ہیں ان والدین نے ان
تعلیمی اداروں سے جواب دہی کا عمل کی ختم کردیا ہے تو پھر اس تمام تر
صورتحال میں اس طرح کاخبریں اخبارات کی زینت کیوں نہیں بنیں گی ؟
بلوچستان کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے اخبارت کے مطابق گزشتہ ماہ
سیکرٹری تعلیم کالجز بلوچستان نے حب میںقائم گورنمنٹ بوائر ڈگری کالج حب کا
اچانک دورہ کیاجس کے دوران 24 لیکچرازمیں سے 4 کو حاضرباش پایا اور 345
طلبہ میں سے 24 کو کالج کے اندر تدریسی عمل میں مصروف ،اس خبر کو میں نے
سوشل میڈیا میں فیس بک پر شہیر کیا کہ شاہد ہمارے حکمرانوں ،حکومتی آفسران
،تعلیمی بہتری کے لیے کام کرنے والے اداروں ،سول سوسائٹی کے نمائندوں اور
والدین کو یہ احساس ہواور ہمارے میڈیا کے بندے کو پتا چلے گے کہ ہمارے
ہاںتعلیم کا جنازہ کس طرح نکل رہاہے؟ اور اس کا قصور وار کون ہے؟ اس خبر کو
پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ ہمارے پرنسپل محترم فوری طور پر اپنی کرسی چھوڑ
دینے چاہیے کیونکہ اتنے بڑی نااہلی کی کہانی میڈیا میں آنے کے بعد اپنے
فرائص منصفی کو جائز قرار دینا توتوہین تعلیم ہی ہوگا ،مگرہمارے ہاں خود
احتسابی کا نظام کہا ں ہے؟ کہ جس سے جو ذمہ داری ادا نہ ہوں اس کو وہ کام
چھوڑ دینا ہی چائیے اور نہ ہی احکام بالا ایکشن لینے کی زحمت کرتے ہیں، کیو
نکہ اس سفارشی دور ہر ایک کی ڈور کہی اور سے ہلائی جاتی ہے ،ملک کے
اندگزشتہ حکومت میں ریلوئے کی تباہی کا منظر سب کے سامنے ہے مگر وزیر
ریلوئے کو سیٹ سے کون ہٹائے تو ہمارے لسبیلہ میں بیلہ اور حب کی کالج کے
پرنسپل کا بھی ریلوئے کے وزیر کی طرح بڑے تعلقات ہیں ،باقی تعلیم کے جنازے
نکلتے رہے ،اسٹاف غائب رہے ،پرنسپل خود اپنے فرائص سے غافل رہے ،بچے آئیں
یا نہ آئیں ،رزلٹ کتنا فی صد آتاہے،طلبہ و طالبات کے ڈارپ آوٹ کی اوسط کیا
ہے ،اس کو کس کو کس سے غرض ، لسبیلہ کے تعلیمی عمل میں اگر اوپر سے نیچے
آئیں تو پور ے کا پور ے تعلیمی ڈھانچہ متاثر ہے یہاں پر بہت سے حوصلہ
افزاءباتیں ہیں وہاں پر کافی تعلیمی مسائل ضرور موجود ہیں ،حوصلہ
افزاءباتوں میںگزشتہ چندماہ قبل ہمارے نئے تعلیمی آفسران کا ضلع کے اندر
تعینات ہونا ہے،امید ہے کہ ہمارے یہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفسیرز محمد عظیم
ساجدی ،محمد نوید ہاشمی اور ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر فیمل مسز روبینہ جالب
لسبیلہ کی اسکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے ضرور اہم اقدمات کرئیں
گے ،۔گزشتہ کچھ عرصے میں لسبیلہ کے طلبہ و طالبات کی طرف سے ملک کے دیگر
پبلک اسکولوں،کیڈٹ کالجز، بین الصوبائی کالجز،یونیورسٹیز،میں داخلہ لینے
میں اہم پیش رفت ہوئی ہے مگر ابھی بھی بہت سارے تعلیمی مواقعوں سے فائدہ
اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
لسبیلہ کے تعلیمی مسائل کا اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں پتا
چلتاہے لسبیلہ کے تمام امتحانات میں نقل مافیا سرگرم عمل ہے کیونکہ بدقسمتی
سے ہمارے ہاں امتحانات میں نقل کرنا ایک بنیادی حق سمجھا جاتاہے ،طلبہ و
طالبات کو پیر ز کی تیاری کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی اس کو امتحانات میں
نقل کی کاپیاں پہنچانے کے لیے بھروسہ مند ہیلپر کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ہاں
امتحانات میں امتحانی ہال کے اندر امیدوار کم اور ہال کے باہر نقل فراہم
کرنے والے زیادہ ملیںگے ،لسبیلہ میں کالج و ہائی اسکولز لیول پر نقل کی بات
چھوڑیں ہمارے ہاں پرائمری سطح پر تمام سینٹر وں میں نقل مافیا سرگرم ہے اس
سے کسی بھی قوم کا بڑا لمحہ فکریہ کیا ہوسکتاہے کہ وہاں ٹیچرز حضرات خود اس
غیر قانونی کام کا حصہ ہو-
کالجز کے اندر طلبہ و طالبات کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ،کیونکہ کالجز
کے اندر اس طرح کے تعلیمی ماحول ہی فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ طلبہ و طالبات
کو تعلیمی عمل کے اندر مصروف رکھیںدوسری طرف ہم دیکھیں کہ کالجز کے اندر
ہونے والے گولڈن ویک،تقریری مقابلے ،غیر نصابی سرگرمیاں،اسڈی وزٹ اور کالج
میگزین کی اشاعت جیسے سرگرمیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے ایسے حالات تعلیمی
رحجانات بڑھنے کے بجائے کم ہورئے ہیں -
تعلیمی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ لسبیلہ کے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ و
والدین کے درمیان رابطہ کاری کا شدید فقدان ہے ،اسکولوں کے اندر والدین
کمیٹیاںکا تو قیام عمل میں لایا گیا ہے مگر اس کے اندر نہ تو والدین متحرک
کردار ادا کرنے کو تیار ہیں نہ ہی اساتذہ کے پاس ایسی کوئی واضح حکمت عملی
ہے کہ وہ ان افراد کو تعلیمی عمل کی بہتر ی کے لیے ان کو اپنے ساتھ ملایا
جائے ،کالج لیول پر تو بمشکل ہی کوئی والدین ہونگے جو کہ کالج اتنظامیہ سے
اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کا معلوم کرسکیں ،اس تمام تر عمل میںوالدین
اور تعلیمی اتنظامیہ برابرکی قصوار ہیں ۔
لسبیلہ کے زیادہ تر اسکولوں میں آرٹس کے مضامین کو پڑھانا ہی ختم کردیا ہے
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں کیریئرگائید نس کی شدید کمی ہے ،فرسودہ
تعلیمی نصاب سے ہٹ کر نئے تعلیمی رحجانات کے حوالے سے بچوں سے بہت کم بات
چیت کی جاتی ہے، کسی بھی استاد کی قابلیت صرف یہ نہیں کہ وہ نصاب میں گرفت
رکھتاہوں وہ ایک اعلی لیڈرشپ ،بہتر کردار ،قائدانہ صلاحیتں اور آئیدیل
شخصیت کا مالک ہونا چاہیے، ساتھ میں وہ موجودہ حالات سے آگاہ درپیش چیلیز و
مستقبل کی پلاننگ میں متحرک ہونا چاہیے، لسبیلہ میں نوجوان اپنے تعلیمی
ترقی کے اس موڑ پر اپنا آئید یل تلاش کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم لسبیلہ
میں تعلیم کی میدان میں طلبہ و طالبات کو کوئی آئیڈیل نہیں دے سکے ہیں ،ہمارے
ہاں اہل علم و دانش رکھنے والے افراداپنے اس کردار کو ادا کرنے میں ناکام
ہیں جس سے لسبیلہ کے عوام امید رکھتے ہیں -
لسبیلہ سے منتخب شدہ عوامی لیڈرز مرحوم جام محمد یوسف اور محمد اسلم
بھوتانی نے اپنے دور حکومت میں تعلیمی عمل کی بہتری کے لیے بہترین اقدامات
کیے جن میں لسبیلہ یونیورسٹی کا قیام ،بیلہ گرلز کالج حب و وندر بوائز کالج
کا قیام ،اسکولوں کی اپ گرڈیشن ،و دیگر تعلیمی اصلاحات شامل ہیں،لیکن سیاسی
عمل میں شامل دیگرعلاقائی عمائدین نے اجتماعی تعلیمی فوائد کی حصول کی
ترجعی کے بجائے کنوان ،ہیڈپمیپ،موری ،کمیوینٹی ہال،بند جیسے منصوبہ جات کے
حصول کو کو زیادہ اہمیت دی ، تعلیمی بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی خدمات
بھی حب کے علاوہ لسبیلہ کے باقی علاقوں میں بلکل نہ ہونے برابر ہے ،پرائیویٹ
سیکٹرکی تعلیمی خدمات کم کاروبار زیادہ لگتاہے،حب و بیلہ ،اوتھل اور وندر
کے علاقوں میں کوئی بھی مقامی ایچویکٹر اس طرح کے کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی
ادارے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا جس پر سرکاری اسکولوں سے نالاں
والدین اپنے بچوں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکیں بیلہ ،اوتھل،وندر میں کئی
بار انگلش لینگویج و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کورسس کروانے کا آغاز کیا گیا
مگر وہ کسی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ناکام رہے -
لسبیلہ میں بے شمار فیکٹریاں کام کررہی ہیں جن کو اپنی آمدنی میں سے کچھ
حصہ لازمی طور پر سوشل سیکٹر پر یعنی فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنا لازمی ہے
،تعلیمی عمل میں جبکو ،انرنیشنل پاور کی کچھ خدمات ضرور ہیں مگر گزشتہ ہفتہ
سے وندر میں صدیق سنز پلیٹ کی طرف سے قائم کمیونٹی اسکولوں کی بندش جیسے
اقدامات سے تعلیمی عمل بڑی طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے جوکہ لسبیلہ کے ان
معصوم بچوں اور بچیوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہوگا تو تعلیم کے زیور سے اپنے
آپ کو آراستہ کرنا چاہتے تھے مگر فیکٹری انتظامیہ کی لسبیلہ عوام دشمن
پالیسی سے ان کی روشن مستبل کو تاریک کے نذر کیاجارہاہے -
تعلیمی مسائل کے اس سنگین صورتحال میں سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے
ہاں اس طرح کا کوئی فورم ہی موجود نہیں جس پر تعلیمی مسائل کو ڈسکس کیا
جائے اور ان کے حل کے لیے کوئی ایکشن کیا جائے اس کے لیے فوری طور لسبیلہ
میں تعلیمی فورم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں پر اس طرح کے تعلیمی مسائل کے
حل کے لیے بحث و مباحثے منعقد کیے جائیں اورتعلیمی آفسران ،عوامی نمائیدین
،غیر سرکاری اداروں کے اہلکار ،سرگرم والدین مل کر تعلیمی ترقی کے لیے کوئی
ایکشن پلان مرتب کریں تاکہ تعلیمی تبدیلی کے لیے جہدوجہد کی راہ ہموار کی
جاسکیں - |