سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں مغل
حکمرانوں کی حالت زار اور انگریزوں کی قوت اور دبدبے کا یہ حال تھا کہ درج
ذیل قسم کی باتیں عام طور پر کہی جاتی تھیں ’’ملک خدا کا‘ حکومت بادشاہ کی
اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ اب آزاد اور جمہوری ہندوستان میں ذرائع ابلاغ (جو
بہ ذات خود ’’ایوان جمہوریت‘‘ کا اہم ستون ہیں) کا ایک حصہ یعنی ٹی وی
چیانلز اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں کہ حکومت کی داخلی و خارجی حکمت عملی ہر
قسم کی تحقیق و تفتیش اور سراغ رسانی ہی نہیں بلکہ مقدمات کی سماعت و فیصلے
(میڈیا ٹرائیل Media Trial) سب ٹی وی چینلز کرنے لگے ہیں ۔ گوکہ ٹی وی
چیانلز اور چند اخبارات کی روش اور رویہ پر ہر قسم کے اعتراضات کئی گوشوں
سے ہورہے ہیں لیکن سب صدا بہ صحرا ثابت ہورہے ہیں۔ ایوان جمہوریت کے اہم
ستونوں میں سے ایک ستون کا ٹی وی چیانلز کا رول تعمیری تو بہت کم رہ گیا
ہاں دن بہ دن تخریبی ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد
کرنے میں ملک بھر کے مختلف زبانوں کے ٹی وی چیانلز سب سے آگے ہیں۔ آج ٹی وی
ملک کے ہر حصہ میں معاشی لحاظ سے پسماندہ طبقات کے بیشتر افراد کو میسر ہے
ٹی وی کی باتیں عوام پر جلد اور موثر طور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسی وجہ
سے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے بلکہ بہانے سے مسلم دشمنی و فرقہ پرستی
میں اضافہ ہورہا ہے۔ سنگھ پریوار اور اس کے ہم نوا انتہا پسندوں، فرقہ
پرستوں اور فاشسٹوں کے خیالات کی ٹی وی چینلز زبردست تشہیر کرتے ہیں اور
مسلمان قائدین کے ساتھ جسٹس کاٹجو، منی شنکر ائیر اور اروندھتی رائے کی
باتیں بھی نظر انداز کی جاتی ہیں اور اگر نظر انداز نہ بھی کی جائیں تو غیر
موثر انداز میں رسم کی تکمیل کی خاطر سرسری انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔
انگریزی وہندی کے علاوہ علاقائی زبانوں کے اخبارات جو پہلے ہی سلہا سال سے
اسی روش پر چل رہے تھے اب مزید شدت پسندی کا شکار ہوگئے ہیں اور تو اور
مرعوبیت اور خوف کا شکار خود کو سیکولر ثابت کرنے کے چکر میں بعض اردو
اخبارات اور صحافی بھی انجانے طور پر فرقہ پرست و غیر ذمہ دار میڈیا میں
شامل ہوگئے ہیں چنانچہ مفاد پرست قائدین اور اخبارات و صحافیوں سے بھی
مسلمانوں کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
مسلمانوں کی حمایت میں میڈیا کی سب سے زیادہ مذمت پریس کونسل کے صدرنشین
جسٹس کاٹجو متعدد بار کرچکے ہیں۔ اپنی بے باک اور کھری کھری گفتگو سے جسٹس
کاٹجو نے مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے کی میڈیا کی سازش کا
پول کھولا ۔ اس سے بڑھ کر انڈین مجاہدین کے بارے میں ان کا یہ انکشاف
تاریخی ہے کہ انڈین مجاہدین زرخرید اور شر پسند صحافیوں کی تخلیق ہے۔ اس کا
مقصد صرف یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جائے ورنہ سچ
یہی ہے کہ انڈین مجاہدین نامی کی کسی تنظیم کا وجود ہی نہیں ہے۔ جسٹس کاٹجو
کے بعد ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس التمش کبیر نے واشگاف الفاظ میں کہا
ہے کہ کسی بھی ملزم کا میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کسی ملزم کا
میڈیا ٹرائل عدالتی کو متاثر نہ صرف کرسکتا ہے بلکہ ضرور کرے گا۔
میڈیا ٹرائل سے ملزم کے خلاف ایک نظریہ قائم ہوجاتا ہے اور یہ انتہائی
تشویشناک ہے۔
کئی حلقوں سے بھی میڈیا کی روش پر شدید اعتراضات ہوتے رہے ہیں لیکن میڈیا
پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان ہی کالموں میں ہمارے علاوہ ہم سے زیادہ بہتر اور
محترم اصحاب نے بارہا قلم اٹھایا لیکن میڈیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
میڈیا اور مسلمانوں کے قطع نظر ملک کے داخلی و خارجی مسائل پر بھی میڈیا کا
رول تباہ کن رہا ہے۔ شائد اب میڈیا مسلم دشمنی سے آگے بڑ ھ کر ملک دشمنی کی
حدود میں داخل ہورہا ہے۔
داخلی مسائل پر سنسنی خیزی کی بات ہوتو میڈیا میں مقابلہ آرائی زور دار
ہوتی ہے لیکن عوامی مسائل پر توجہ کی ضرورت سمجھی ہی نہیں جاتی ہے۔ ہم سب
یہ حقیقت جانتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسی نہ بدل سکتے ہیں اور نہ سہی ان سے
انجان یا لا تعلق رہ سکتے ہیں۔ عہد قدیم کے مشہور مدبر اور دانشور چانکیہ
کی سیاست میں دو باتوں پر زور دیا جاتا ہے اپنے تمام پڑوسیوں پر اپنی دھاک
اپنا دبدبہ قائم رکھو اپنی قوم اپنے ملک کے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا کرو کہ
دنیا میں سب ہم سے کم تر ہیں۔ ہم سب سے اعلیٰ ہیں اور فاشسٹ نظریات کو عملی
شکل دینے کے لئے جائز، ناجائز، دھونس، دھمکی، سازش، دھوکہ، ظلم سب جائز ہیں۔
عالمی صیہونی تحریک، اسرائیل اور سنگھ پریوار سب ہی ان فاشسٹ نظریات پر
ایقان رکھتے ہیں اور ان ہی کے زیر اثر ہمارا میڈیا کام کرتا ہے۔
مشرق بعید کے ممالک انڈونیشیاء، ملیشیاء، ہانگ کانگ اور سنگاپور وغیرہ کی
معاشی میدان میں ترقی قابل رشک ہے لیکن ہمارا میڈیا ان ممالک کی معاشی ترقی
سے زیادہ اس بات کا تذکرہ کرکے خوش ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں ہندوستانی
خاصی تعداد میں ہیں۔ ہندوستانی تہذیب کا اثر خاصہ ہے۔ چین کی معاشی ترقی سے
ساری دنیا دنگ ہے امریکہ اور ہندوستان کے بازاروں پر چین کی مصنوعات کا
قبضہ ہے۔ ہم کو اس سے غرض نہیں ہے ہمارے میڈیا کا سارا زور اس بات پر ہے کہ
چین ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ چین سے تو چین کی مضبوط معیشت کی وجہ سے
امریکہ بھی خائف ہے۔ لیکن ہمارا میڈیا چین سے مقابلہ آرائی پر آمادہ ہے
(اپنی برتری کرنے) اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے نیز اس لئے بھی کہ چین
پاکستان کا دوست ہے۔
کسی بھی چینل پر بیرونی ممالک کے بارے میں خبریں و تبصرے سنئے تو بیرونی
ممالک کی خبریں اول تو کم ہوں گی اور اگر ہوں گی تو منفی! وہ بھی امریکہ کو
خوش کرنے والی ہاں پاکستان و چین پر اعتراضات اور ان کی ہجو بہ کثرت ملے گی
بلکہ اب تو سری لنکا پر بھی تنقیدی تبصرے امریکہ و ٹاملوں خاص طور پر ڈی
ایم کے کو خوش کرنے کے لئے سری لنکا پر اعتراضات کی بھرمار ہورہی ہے۔ بنگلہ
دیش کی اسلام دشمن حسینہ واجد کی وجہ سے سے ہم بنگلہ دیش سے خوش ہیں اگر
خالد ہ ضیاء یا کسی اور کی حکمرانی ہوتو بنگلہ دیش بھی ہمارا ہدف
ہوگا۔نیپال اور بھوٹان سے بھی قریبی تعلقات ذکر ماضی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم راجہ اشرف کی آمد پر درگاہ اجمیر کے دیوان زین
العابدین علی خان سے ملک کے زیادہ تر مسلمان بھی واقف نہیں ہیں۔ راجہ اشرف
کا خیر مقدم نہ کرنے کا فیصلہ بلا شبہ کسی اہمیت کا حامل نہ ہوتا اگر میڈیا
یا دیوان جی اور ا ن کی تائید میں ٹی وی پر متعدد با ر نظر آنے والے ایک
مولانا کے بیان کی غیر معمولی تشہیر نہ کی جاتی تو بات ہند۔پاک تعلقا ت تک
ہرگز نہیں پہنچتی۔ بی جے پی اقتدار میں ہوتی ہے تو ہند۔پاک دوستی کی چمپئن
بننا چاہتی ہے لیکن حزب مخالف میں ہوتو ہند۔پاک میں جنگ کروانا چاہتی ہے
چنانچہ سنگھ پریوار کے زیر اثر رہ کر کام کرنے والا میڈیا ہند۔پاک تعلقات
کو تلخ سے تلخ تر بنانا چاہتی ہے اور حکومت بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے
لئے باہمی اعتماد بحال رکھنے کے لئے کئے گئے اقدامات منسوخ یا معطل کررہی
ہے۔
’’اشتہاری خبر(Paid News)کی باتوں کو ٹی وی چیانلز نے ذکر ماضی کردیا ہے اب
ٹی وی کی نشریات کا بڑا حصہ اشتہاری ٹیلی کاسٹ بن گئی ہیں اسی لئے آج کل
تمام ہی چیانلز پر نریندر مودی اور نتیش کمار کا ذکر گھنٹوں ہوتا ہے ان کی
طویل تقارے گھنٹوں نہ صڑف راست ٹیلی کاست ہورہی ہے بلکہ بار بار دکھائی اور
سنائی جارہی ہے۔ کبھی بہن جی کی تائید اور ملائم سنگھ و اکھلیش کی مخالفت
میں طویل پروگرام ہورہے ہیں۔ مباحثوں میں بی جے پی کو چیخنے چلانے کی بھر
پاور آزادی ہے لیکن جب کوئی مدلل جواب سے ان کی بولتی بند کرنے لگتا ہے تو
اینکر جھٹ سے وقفہ Breakلینا ضروری سمجھتا ہے۔
ٹی وی چینلز بلکہ اخبارات کی بے ہنگم و خطرناک پروازوں پر قابو پونے کے لئے
ان کے پر کترنے کے لئے قانون سازی ضروری ہے ورنہ ملک نہ صرف بدنام بلکہ
خاصی حدتک بگڑ بھی سکتا ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر دل آزاری، فتنہ فساد،
نفرت پھیلانے، مظالم کی ترغیب دینے اور ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی
اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ |