اللہ کے پاک نام سے جس نے حضرت
آدم علیہ السام کو مٹی سے بنایا پھر اُن کی پسلی سے اماں حوا ؑ کو پیدا کیا
پھر ان دونوں سے تمام کائنات کے انسانوں کو پیدا فرمایا۔پھر حضرت نوح ؑ کے
دور میں طوفان نوح سب انسانوں کو تباہ کر گیا بیالیس کے قریب لوگ ایمان
والے جو کشتی میں سوار تھے وہی بچے ان سب کو پھر جودی پہاڑ پر موت دی اور
حضرت نوح علیہ السلام کے تےن بیٹوں یافت،سام اور خام کی نسل سے تمام
انسانوں کو پیدا کیا حضرت نوح ؑ کو آدم ثانی کا لقب عطافرمایا ۔پھر ہم پر
بڑا احسان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک ﷺ کی امت سے پیدا بھی فرمایا اور
انکی دعوت کو قبول کر کے مسلمان بننے کا شرف بھی عطا فرمایا ۔اس وقت کائنات
میں جتنے بھی انسان ہیں وہ انھی تینوں کی اولاد میں سے ہیں۔
ایک گمنام شخص نے عزیر الطااف کے نام سے ایک انتہائی معوب مضمون لکھا جس کا
نہ کوئی سر نہ کوئی پاﺅں ہے۔اس کا مضمون پڑھ کر مجھے ایک حافظ صاحب کا
واقعہ یاد آگیا کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے وزیر اور نوکر کے ساتھ شکار
کے لیے گئے ایسے جنگل میں گم ہوئے کہ راستہ ہی بھول گئے دونوں بچھڑ گئے کسی
طرف سے ایک باہر نکلا اور نابینا حافظ سے جاملا وہ راستے کے کنارے بیٹھے
ہوئے تھے نوکر نے آکر کہا اے اندھے ادھر سے دو آدمی تو نہیں گئے پھر وزیر
صاحب کا گزر ہوا تو انہوں نے کہا سائیں ادھر سے دو بندے تو نہیں گئے ۔جب
بادشاہ کا گزر ہواتو اس نے کہا حافظ جی ادھر سے دوشخص تو نہیں گزرے حافظ نے
علم سے بھر پور جواب دیا بادشاہ سلامت تیرا نوکر اور وزیر یہاں سے جا چکے
ہیں۔بادشاہ بڑا حیران ہوا کہ حافظ صاحب کو کیسے پتہ چلاکہ میں بادشاہ ہوں
اور وزیر و نوکر یہاں سے گزر چکے ہیں۔بادشاہ نے تجسس کی تسکین کے لیے پوچھ
ہی ڈالا حافظ صاحب آپکو کیسے پتہ چلا کہ میں بادشاہ ہوں اور میرا وزیر اور
نوکر یہاں سے گزر چکے ہیں؟تو حافظ صاحب نے انتہائی عاقلانہ جواب دیا کہ جب
پہلے بندے نے کہا” اے اندھے “میں سمجھ گیا کہ یہ انتہائی ادنیٰ درجے کا
غلام ہے جو اس طرح مخاطب کر رہاہے ۔دوسرے نے کہا اے سائیں میں سمجھ گیا کہ
یہ درمیانی طبقہ کا انسان ہے جو وزیر ہی ہو سکتا ہے۔جب آپ نے کہا حافظ جی
تو میں سمجھ گیا کہ اس زبان والا انسان کسی اعلیٰ مقام اور درجے کا مالک ہی
ہو سکتا ہے اور میرے دل نے گواہی دی کہ یہ بادشاہ سلامت ہی ہیں ۔عزیر الطاف
صاحب کا مضمون پڑھا تو یہ واقعہ ذہن میں بار بار آنے لگا ۔
صاحب مضمون یقیناََ تاریخ سے ناواقف ہیں اور صرف لفظی باتیں جو آج کل کہی
جاتی ہیں ان پر یقین رکھتے ہیں اسی لیے وضاحت ضروری ہے لفظ گوجر کا معنٰی
ہے محافظ اعظم ۔یہ آریہ النسل قوم ہے ۔مشرق و مغرب ،جنوب و شمال اللہ کی
زمین پہ ہر جگہ پہ یہ قوم آبااد ہے ۔فارسی میں گوجر قوم کی بادشاہی کا ذکر
کرتے ہوئے شاعر یوں کہتا ہے :
پائے گوجر لنگ نیست
یعنی خدا کا ملک تنگ نہیں اور گوجر قوم کوئی لنگری نہیں ۔جہاں جہاں رب کی
خدائی وہاں وہاں گوجر کی بادشاہی۔لغت کے لحاظ سے گو کا معنیٰ اچھا بولنے
والا اور جر کا معنیٰ اچھا کاٹنے والا ۔گو جر اصل میں فصیح و بلیغ بھی ہوتا
ہے اور دلیر وبہادر بھی۔”گوجو قوم کا آئینہ دانش“ میں قاری شیر محمد لکھتے
ہیں کہ ”گوجر ایک مستقل قوم ہے جو کرہ ارض کے ہر اس کونے میں پائی جاتی ہے
جہاں انسانوں کی آبادی موجود ہے “ گوجروں کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے
آگے لکھتے ہیں کہ ”اس (قوم)نے ہمیشہ بیابان ریگستان کو آباد کیا ہے اور
اپنی صلاحیت کا سکہ منوایا ہے“۔گوجروں کے نام پر آج بھی ایشیاءمیں ہزاروں
بستیاں آباد ہیں جو انکی محنت و خودداری کا منہ بولتا ثبو ت ہیں ۔گوجر قوم
کی بے مثال حکمرانی کا اور انکی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں ”گوجر
پر امن راست باز ،بہادر ،عمدہ کاشت کار ،قابل اعتماد ،وملک خدا تنگ نیست
فادار ،شریف ،معاملہ فہم ،مہمان نواز اور اچھے حکمران ہیں ۔گوجر قوم میں
لاتعداد گوتیں ہیں ۔جن کی تفصیل جاننے کے لیے درج زیل کتب کو ملاحظہ کیا
جائے ۔۱۔تاریخ ضیاءالبیان مصنف،حضرت علامہ پروفیسرعبدالغنی الشاشی الازہری
پروفیسرسری نگر یونیورسٹی کشمیر(نوٹ)اس مایہ ناز کتاب کوجامعة الازہرمصر
میں لکھاگیاعرب اوردیگرممالک میں گوجرقوم کی جوگوتیں ،شاخیں اورکاسٹیں ہیں
ان پہ تحقیق کی گئی ہے۔ ۲۔شاہان ِگوجر مصنف حضرت مولاناعلامہ عبدالمالک ۳۔تاریخ
گوجراں مصنف حضرت مولاناعبدالحق سیالکوٹی ۴۔تاریخ گوجراں مصنف چوہدری
محمدحسن سیف ۵۔تاریخ گرجر مصنف راناعلی حسن چوہان گرجر ۶۔اے شارٹ ہسٹری آف
گرجر مصنف راناعلی حسن چوہان گرجر راناعلی حسن چوہان گرجر۷۔گوجرگونج مصنف
اکبرخان اجنالوی ۸۔گوجراتھاس ۹۔امپریل گوجرز مصنف کے ایم منشی ۰۱۔گوجری ادب
مصنف ۱۱۔گوجرقوم کاآئینہ دانش مصنف قاری شیرمحمدبجران 12۔گوجر
انسائیکلوپیڈیا مصنفہ مس حمیرا چوہدری 13۔علماءہندکاشاندار ماضی جلدچہارم
مصنف حضرت مولانا سیدمحمد میاں 14۔1857 کی تحریک آزادی اورگوجرقوم مصنف
حضرت مولاناقاضی مہدی الزمان کھٹانہ 15۔گوجری ادب رسالہ ایڈیٹر ڈاکٹر
سراج احمد 16۔اسرارکبیری مصنف باباجی لاروی 17۔ ماہنامہ گوجرگونج ایڈیٹر
چوہدری عبدالباقی نسیم 18۔ماہنامہ گوجرگزٹ لاہور 19۔ماہنامہ ندائے
گوجرلاہور 20۔ ماہنامہ وائس آف گوجر مظفرآباد کشمیر
گوجر قوم کی قیادت و سیادت اہل علم جانتے ہیں اور مانتے ہیں اگر کوئی شخص
دیواانہ بن کر آسمان کی طرف تھوکے تو اسکو پاگل ہی کہا جاتا فارسی زبان کی
ضرب المثل جو اس سچی آواز کو بلند کر رہی ہے :فریاد سگاں کم نکند رزق گدارا
(لگائی بجھائی یا حسد کسی کے رزق کو کم نہیں کرسکتا کتوں کے بھونکنے سے
فقیر کے رزق میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی۔فارسی کی ہی ضرب المثل ہے فضل الٰہی
اک طرف ساری خدائی اک طرف ۔ساری دنیا اگر مخالف ہو جائے خدا کا کرم اگر
شامل ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔عزیر صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ ضرب
المثل زہن میں گھومنے لگی سر سجدے میں من بدیوں میں(ظاہر نیک باطن خراب)
حافظ اشتیاق احمد جلالی گوجر یوں لکھتے ہیں ”عظیم مغل اکبر نے کہا تھا
گوجروں کے ساتھ دوستی کر کے ہرایا جا سکتا ہے لیکن لڑ کر نہیں ہرایا جاسکتا
“محمود غزنوی ؒ نے فرمایا تھا ”اگر گوجر متحد ہو جائیں تو ساری دنیا پر
انکی لازوال حکومت ہو “۔سکندر اعظم نے بھی گوجروں کی دلیری کا اعتراف کرتے
ہوئے کیا تھا کہ جنگ میں اترنے کے بعد گوجروں کو روکنا شیر کے منہ میں ہاتھ
ڈالنے کے برابر ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق گوجر شہزادے بڑے بہادر اور شجاع تھے
خصوصاََ جنگ کرنے کے گرز کے پہلوان تھے ۔پہلے گرزی کے نام سے مشہور ہوئے
پھر گرزی سے گرجی بنا ،گرجی سے گر جر اور گرجر سے گوجر مشہور ہو گیا۔عزیر
الطاف ایک ٹرالے والے سے ہار کے پوری گوجر قوم کے خلاف آپ نے مضمون لکھ کر
انتہائی معیوب کام کیا ہے ۔
میں نے سوچا کہ اس مضمون کا جواب ان کی ہی زبان میں دیا جائے لیکن ایسا
نہیں کیا اور ناصحانہ انداز میں انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔ اگر وہ سمجھ گئے
تو اپنا قلم ضرور اٹھائیں گے اور اس عظیم قوم پر جو زبان استعمال کی ہے اُس
پر بھی معذرت کریں گے۔میری اُن سے خیرخواہانہ درخواست ہے کہ اپنے غرور و
تکبر کو توڑیں ورنہ غرور و تکبر والوں کا انجام بہت ہی بُرا ہوتا ہے ۔
مٹاتے رہے سبھی پر مٹ سکا نہ نام گوجر
اب تو پڑھا جاتا ہے ہر محفل میں پیغام گوجر
بڑے چرچے رہے جس کے ہر دور کے ایوانوں میں
زرا پرکھ کے دیکھ لے یہی ہے وہ جام گوجر |