ہندوستان اور دنیا میں انسانی
حقوق کے تئیں ہر سطح پرجتنی بیداری آرہی ہے مسلمانوں کے لئے زمین اتنی ہی
تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں’سافٹ ٹارگیٹ‘
مسلمان ہیں۔ حکومت، پولیس، خفیہ ایجنسی اور میڈیا جس شکل میں چاہتا ہے
مسلمانوں کو پیش کردیتا ہے۔ ابھی لیاقت علی شاہ کا معاملہ سامنے آیا ہے جو
خود سپردگی کے لئے جموں و کشمیر جارہاتھا لیکن دہلی اور یوپی پولیس نے مل
کر اسے راستے میں ہی دبوچ لیا اوریہ مشہور کردیا ہے کہ وہ ہولی سے قبل دہلی
میں دھماکہ کرنے آیا تھا، بہت بڑا فدائین حملہ کرنے کا ان کا منصوبہ تھا
وغیرہ وغیرہ۔ ہولی ظاہر سی بات ہے کہ ہندوؤں کا بڑا تہوار ہے اور ہندوستان
میں جم کر ہولی کھیلی جاتی ہے پولیس نے اس موقع کو بھی مسلمانوں کے خلاف
نفرت کا ماحول پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا ہے ۔اس راز پر پردہ کبھی نہیں
اٹھتا اگر جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر فاروق عبداللہ نے اس معاملہ پر
سخت احتجاج نہ کیا ہوتا۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر میں تمام کاررائیاں چل
رہی تھیں ۔ دہلی پولیس اور دہلی کی خصوصی سیل نے یہ گھناؤنا قدم کیوں
اٹھایا۔ دہلی کے ایک خصوصی پولیس کمشنر نے پریس کانفرنس کرکے پورے ملک کو
خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کی حماقت کیوں کی۔ سوال یہ بھی ہے ہتھیار کہاں
سے آیا تھا اور کس نے وہاں رکھا تھا۔ دہلی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے کتنے
گرگے ہیں جو اس طرح کے ہتھیاروں کا پلانٹ کرتے ہیں تاکہ جب مرضی آئے دہشت
گردی کے الزام میں کسی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ ہندوؤں کو تو
جانے دیں کچھ مسلمان بھی آنکھ بند کرکے پولیس کے بیان کو من و عن تسلیم
کرلیتے ہیں’کچھ تو ہے جب ہی تو پولیس پکڑ کر لے گئی‘ ۔ اگر کچھ ہوتا تو اب
تک درجنوں مسلم نوجوان باعزت بری نہیں ہوئے ہوتے۔ قانون کا رویہ ہندوستانی
شہریوں کے لئے یہ ہے کہ شک کی بنیاد پر کسی کوپریشان نہ کیا جائے اور 99
مجرم چھوٹ جائے تو کوئی ہرج نہیں لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے
یہی رویہ یہاں کے عدلیہ کا بھی ہے لیکن جیسے ہی معاملہ مسلمانوں کا آتا ہے
سب کچھ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے 99 بے قصور مسلمان جیل میں
سڑتے ہوں تو سڑیں لیکن ایک مجرم مسلمان بچنے نہ پائے۔ درجنوں باعزت بری
ہونے والے کیس میں یہی بات سامنے آئی ہے اور عدلیہ نے کھلم کھلا پولیس کے
کردار پر انگلی اٹھائی لیکن اب تک کسی پولیس والے کو سزا تو دور کی بات ان
سے پوچھ کچھ بھی نہیں ہوئی کہ انہوں نے یہ سب کس کے اشارے پر کیا تھا۔
مسلمان اگر مسلمان کا مجرم ہے تو ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون سرگرم
عمل ہوجاتے ہیں لیکن اگر مسلمان مظلوم ہے اور ظالم کوئی دوسرا تو جمہوریت
کے سارے ستون کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ہندوستان کی جیلوں میں مسلم
قیدیوں کی تعداد سے لگایا جاسکتاہے۔ اس طرح کا رویہ اپنانے میں کانگریس
حکومت فرقہ پرست حکومت سے کئی قدم آگے ہے۔ یہی معاملہ بمبئی بم دھماکہ کے
سلسلے میں اپنایا گیا ہے ۔ اس دھماکے کے الزام میں سو سے زائد لوگوں کو
سزائیں سنائی گئی ہیں اور ۷ دیگر پر ابھی بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ کسی عدالت
نے دھماکے کے محرکات پرغور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ قانون کا تقاضہ ہوتا ہے
کہ ردعمل کے ساتھ عمل پر بھی غور کیا جائے ۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ عمل
کرنے والوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور ردعمل کا اظہار کرنے والوں کو صرف
سزائیں دی جائیں جیسا کہ ہندوستان میں ہوتا آیا ہے اور ہورہا ہے۔ عمل کرنے
والوں کو سزا دی جاتی تو ردعمل کبھی نہیں ہوتا۔اگر اس کے لئے کوئی ذمہ دار
ہے تو حکومت ، پولیس، انتظامیہ اور مقننہ ہے۔ ان سے وابستہ لوگوں کو سزا
دینی چاہئے تھی۔
جس طرح ممبئی کے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کو 20 برس سے زائد عرصہ گزر چکا
ہے اسی طرح ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کوبھی
بیس سال گزر چکے ہیں۔12 مارچ 1993 کو ممبئی میں سلسلہ وار 12 مقامات پر
دھماکے ہوئے تھے ان میں بامبے اسٹاک ایکسچنیج کی 28 منزلہ عمارت کی بیسمیٹ
میں دھماکہ بھی شامل تھا۔اس کے بعد بھی آج تک لوگوں کے ذہن میں اس حادثے کی
یاد تازہ ہے اور زخم گہرے ہیں۔لوگوں کے دل دماغ سے آج بھی اس بلیک فرائڈے
کا کالا دھواں نہیں چھٹ رہا ہے۔ان دھماکوں میں 257 لوگوں کی موت اور 700 سے
زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ان دھماکوں سے تقریبا 27 کروڑ سے زیادہ رقم کی
املاک تباہ ہو ئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ملک نے سیریل بم بلاسٹ کے دہشت
کو جھیلا تھا ۔ اس معاملے میں خصوصی ٹاڈا عدالت میں 686 گواہ پیش ہوئے اور
تقریبا دس ہزار صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی اور 123 لوگوں کو ملزم بنایا
گیا تھا۔ 2006 میں عدالت نے فیصلے سنایا تھا۔ 123 ملزمان میں سے 12 کو نچلی
عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی، 20 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی
جن میں سے دو کی موت ہو چکی ہے اور ان کے وارث یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ان کے
علاوہ 68 افراد کو عمر قید سے کم کی سزا دی گئی تھی جب کہ 23 لوگوں کو بے
گناہ پایا گیا تھا۔آزاد ہندوستان میں اب تک کا یہ سب سے پیچیدہ معاملہ خیال
کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے بھی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی ہے ۔ یعقوب
میمن کی موت سزا برقرا ررکھی ہے اور دس دیگر کی سزائے موت کو تاحیات عمر
قید میں تبدیل کردی ہے اور کچھ کی سزائیں کم کی گئی ہیں لیکن یہ اتنا لمبا
عرصہ ہوگیا ہے سزا کم کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ا بھی اس معاملے کا
اہم ملزم داد ابراہیم اوردیگر پولس کی گرفت سے باہر ہیں۔ پولیس کی رپورٹ کے
مطابق ممبئی کو دہلانے کی ناپاک سازش میں انڈرورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم نے
اپنے نیٹ ورک کا استعمال کرکے اس دھماکے کو انجام دیا تھا۔ عدالت نے بھی
تسلیم کیا کہ ایک پولیس افسر اور کسٹم افسران کے علاوہ انڈر ورلڈ سے وابستہ
کئی افراد اس واردات میں شامل تھے جنہوں نے جگہ جگہ آر ڈی ایکس سے بھری
گاڑیوں کو پارک کیاتھا۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ گناہ عظیم تھا ظلم کا بدلہ
لینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انسان کی جان لینے کی کسی کو اجازت نہیں
ہونی چاہئے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور انسانی جان لینے والوں مساویانہ سزا
ملنی چاہئے جو ہندوستان میں کبھی نہیں ہوتا۔ دراصل بمبئی بم دھماکہ کے
محرکات کے لئے کوئی ذمہ دار ہے تو وہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے خاطیوں
کی ٹولی ہے جو آج بھی نہ صرف بے روک ٹوک گھوم رہے ہیں بلکہ ایوان پارلیمنٹ
اور ایوان اقتدار میں براجمان ہیں۔ عدلیہ کو فیصلہ سناتے ہوئے ان محرکات کو
مدنظر رکھنی چاہئے تھی۔
مسلمان بابری مسجد کی شہادت کا غم منابھی نہیں پائے تھے کہ ملک گیر سطح پر
مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کرکے نہ صرف مسلمانوں کو قتل کیا
گیا بلکہ مالی طور پر بدتر کرنے کے لئے دکانوں، مکانوں اور تجارتی اداروں
کو آگ کے حوالے کردیاتھا۔ ممبئی میں تو دو مرحلوں میں مسلمانوں کا قتل عام
کیا گیا تھا۔ پہلا مرحلہ7 دسمبر سے 27 دسمبر1992 تک چلا تھا اور فساد کا
دوسر ا مرحلہ7 جنوری سے 25 جنوری 1993تک چلا تھا۔ اس فساد کو آزادی کے بعد
بھیانک ترین فسادات میں شمار کیا جاتاتھا۔ گجرات قتل عام کو چھوڑ دیں تو یہ
فساد یقیناًمنظم طور پر برپا کیاگیا تھا جس میں سیاست، حکومت کے افسران،
پولیس اہلکاروں میں کانسٹبل سے ڈی آئی جی رینک کے افسران فسادات میں ملوث
پائے گئے تھے جس کا ذکر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا، بی جے پی اور آرایس ایس کے کارکنوں نے
مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو سے جم کر کھیلواڑ کیا تھا۔ ممبئی ایسا
شہر بن گیا تھا جہاں پر کئی اسپتال نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے منع کردیا
تھا۔ان اسپتالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی پھر بھی ہم شان سے
کہتے ہیں ہمارا ملک کثیر جمہوری ملک ہے۔ اس نفرت بھرے ماحول میں بالی وڈ
اداکار سنجے دت کے والد سنیل دت بغیر کسی تفریق کے ہندو ہوں یا مسلمان فساد
سے متاثرہ افراد کی مدد میں جی جان سے لگ گئے تھے اس کام میں سنجے دت بھی
اپنے والد کا ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے ممبئی میں جگہ جگہ کیمپ لگاکر فساد
متاثرین کی مدد کرتے تھے۔ شہر کی تنگ اور نفرت بھری گلیوں سے فساد متاثرین
کو نکال کر اسپتال میں داخل کراتے تھے چونکہ زیادہ تر متاثرہ مسلمان تھے اس
لئے انہیں مسلمانوں کا حامی کہا جانے لگا۔مسلمانوں کی مدد کرنے کے جرم میں
انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں ملنی شروع ہو گئی۔ کئی بار
سنیل دت پر حملے بھی ہوئے۔ ایک بار مشتعل ہجوم نے ان کی کار پر حملہ کیا
تھاجس میں وہ بال بال بچے-سنجے دت کے خاندان کو دھمکی بھرے فون آنے کا نہ
ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔سنیل دت نے ان حملوں کی شکایت پولیس سے کی
اور حفاظت کا مطالبہ کیا۔ یہاں تک کہ سنجے دت نے خود پولیس سے مدد طلب کی،
لیکن انہیں سیکورٹی نہیں دی گئی۔تب پریشان سنجے دت نے یہ باتیں فلم
پروڈیوسر حنیف کڑے والا اور سمیر ہنگورا کو بتائی۔ حنیف اور سمیر نے سنجے
دت کو خود کار ہتھیار کا مشورہ دیا تاکہ مصیبت کی گھڑی میں وہ اس کا
استعمال کر سکیں۔ سنجے دت تذبذب میں رہنے کے بعد آخر کار وہ راضی ہو
گئے۔سنجے دت کو 15 جنوری 1993 کو ایک اے کے ۔56 پلس رائفلس مہیا کرایا
گیا۔سنجے دت نے یہ بھی کہا تھا کہ جیسے ہی رائفلس کا کام ختم ہو جائے گا،
انہیں لوٹا دیں گے۔ لیکن جب فسادات کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی تو سنجے دت نے حنیف
اور سمیر سے رائفلس واپس لینے کی درخواست کی. لیکن جب انہوں نے رائفلس واپس
لینے سے انکار کیا تو انہوں نے فلم صنم کی شوٹنگ بھی چھوڑ دی۔سنجے دت نے
گھر پر ہتھیار ہونے کی بات قبول کر لی، یہ بات 28 اپریل، 1933 کی ہے۔ لیکن
ساتھ ہی یہ ضرور کہا تھاکہ انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے رکھا تھا۔وکیل کی
صلاح پر سنجے دت نے نومبر 1994 میں اپنا وہ اقبالیہ بیان واپس لے لیا، جس
میں انہوں نے ہتھیار رکھنے کی بات قبول کی تھی۔ اس بنیاد پر انہیں ستمبر
1995 میں ضمانت ملنے کی امید تھی، لیکن 14 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت
نہیں مل سکی۔ اس وقت اداکار اور ممبر پارلیمنٹ شترگھن سنہا جو بی جے پی میں
تھے، لیکن سنجے کی جنگ پارلیمنٹ میں لڑی تھی اور کہا تھا کہ وہ بے قصور ہیں
لیکن سنیل دت کو کامیابی اس وقت ملی جب وہ اپنے کٹر مخالف بال ٹھاکرے سے
ملے کیوں کہ شیوسینا اس وقت اقتدار میں تھی۔ بال ٹھاکرے کی مداخلت کے بعد
سنجے دت کو ضمانت ملی تھی۔سنجے دت کی اس وقت معافی کی مہم چل رہی ہے جس پر
سنگھ پریوار اور اس کا سیاسی بازو چراغ پا ہے۔ ان کی نظرمیں ہر وہ شخص مجرم
ہے جومسلمانوں کے لئے تھوڑی سی بھی ہمدردی رکھتا ہے۔ گزشتہ سال اسی طرح کے
حالات سے مہیش بھٹ کے بیٹے راہل بھٹ کو گزرنا پڑا تھا کیوں کہ مہیش بھٹ
مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اسی طرح تیستا سیتلواڈ اور
دوسرے انسانی حقوق کارکن کو محض اس لئے لعن و طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے
کیوں کہ وہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔
ممبئی کا فساد کس قدر یکطرقہ اور حکومتی اہلکار کے زیر سرپرستی انجام دیا
گیا ۔ اس پر پوری دنیامیں آواز گونجی تھی۔ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے
حکومت سے انصاف کرنے کی گزارش کی تھی۔ 6 دسمبر 2002 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل
نے بابری مسجد کی شہادت کی دسویں برسی پر شری کرشن انکوائری کمیشن کی رپورٹ
کو نافذ کرنے کی حکومت مہاراشٹر سے اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ 1998میں
رپورٹ کی پیشی کے باوجود ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی
ہے۔1788 افراد اس فساد ہلاک ہوئے تھے۔بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت نے اس
کمیشن کو توڑ دیا تھا جب کہ کانگریس اور این سی پی حکومت نے اپنی آنکھیں
موند لی ہیں۔ کانگریس کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت کی کبھی خواہش ہی نہیں
رہی کہ ممبئی فسادات کے خاطیوں کو سزا دی جائے۔ اس کی نیت کا پتہ اس کی اس
عرضی سے چلتا ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں داخل کی تھی۔ مہاراشتر حکومت
نے 24نومبر 2002کو سپریم کورٹ سے 1993 کے ممبئی بم دھماکے سے تعلق شری کرشن
انکوائری کمیشن کی رپورٹ اس بنیاد پر مسترد کئے جانے کی اپیل کی تھی کہ اس
واقعہ کو طویل عرصہ ہوگیا ہے اور اس سے نیا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے۔رپورٹ
میں فسادات کے لئے پولیس افسران اور اس وقت کی شیو سینا ۔بی جے پی حکومت کو
ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے وکیل اشوک دیسائی نے چیف جسٹس
جے بی پٹنائک، جسٹس کے جی بالا کرشنن اور جسٹس ایس بی سنہا کی ڈویژن کے
سامنے کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کے لئے دائر کی گئی مختلف عرضیوں کی
سماعت کے دوران یہ اپیل کی تھی۔مہاراشٹر حکومت نے ممبئی بم دھماکہ کے بارے
میں یہ بات کیوں نہیں کہی تھی۔ممبئی فسادات کے دوران شیو سینا ایم پی
مدھوکر سرپوتدار کو اسلحہ کے ساتھ فوج نے گرفتار کیا گیا تھالیکن اس کا بال
باکا نہیں ہوا۔ سنجے دت کو سزا ملی لیکن سرپوتدار کو ایک دیگر پارٹی ورکر
کے ساتھ بہت شور مچانے کے بعد بہ مشکل 10جولائی 2008 کو ایک سال کی سزا ملی
تھی سزا ملتے ہی انہیں ضمانت پر رہا کردیاگیا تھا۔ یہ ہے انصاف کرنے کا
حکومت کا پیمانہ ۔اسے امتیاز ، تعصب اور دوہرا معیار نہیں کہیں گے تو کیا
کہیں گے۔
ممبئی بم دھماکے ملزمین کو سزا دینے میں کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن اس بات
پر اعتراض ضرور ہے ممبئی فسادات کے ملزمین کو بھی سزا دی جانی چاہئے ۔کیا
انہیں اس لئے سزا نہیں دی جارہی ہے کہ وہ ہندو ہیں۔ یا فرقہ پرست پارٹیوں
سے ان کا تعلق ہے۔ فسادات میں ملوث پولیس افسران کو محض اس لئے سزا نہیں دی
گئی کہ اس سے ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹی وی نیوز
چینلز اخبارات میں چلنے والی بحث میں ہر کسی نے بم دھماکے کے متاثرین کے
لئے آنسو بہائے لیکن کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ممبئی فسادات
متاثرین کے لئے بھی آنسو بہاتے یا ان کے دکھ درد جاننے کی کوشش کرتے ۔
توکیا اس مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو انسان کے زمرے میں نہیں
رکھا جاتا؟۔انصاف بھی ہندو اور مسلمان کا چہرہ دیکھ کر کیا جاتاہے۔ جب کہ
ممبئی فسادات کے متاثرین کا درد بم دھماکوں کے متاثرین سے بڑا ہے ۔ اگر
انسانی جانوں کا اتلاف ہی کسی بڑے جرم کاپیمانہ ہوتا ہے تو ممبئی فسادات
کسی بڑے جرم کے زمرے میں کیوں نہیں آیا محض اس لئے مرنے والا مسلمان تھا۔ |