عورت اور چینی معاشرہ

دروازے پر تھوڑا کھٹا ہوا تو میں نے آواز لگائی ۔ یس کم ان(ہاں اند آجاﺅ) فوراً دروازہ کھلا ۔ پہلے ایک عورت اور پھر اُس کے پیچھے ایک مرد کمرے میں داخل ہوئے۔ مرد بمشکل پانچ فٹ کا ہو گا۔ عورت اس سے تھوڑا چھوٹے قد کی تھی۔ عورت نے مسکراتے ہوئے اسلام و علیکم کہا اور میرے اشارے پر سامنے بیٹھ گئی۔ مرد بالکل گم سم پاس کھڑا رہا۔ اُس نے میرے اشارے پر بھی کوئی توجہ نہ دی۔ میں نے اسلام و علیکم کہنے کی وجہ سے عورت سے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو۔ نہیں۔ چینی ہوں۔ جواب ملا، پھر اس نے مجھے سوال کیا۔ پاچستانی (پاکستانی ) ۔ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ اُس نے فوری طور پر ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کا آغاز کر دیا۔ پہلے میرا حال دریافت کیا۔ پھر کہنے لگے کہ آپ نے کچھ سامان خریدا ہے اور پاکستان بھیجنا ہے۔ ۔۔ بالکل خریدا ہے اور بھیجنا بھی ہے۔۔۔ میں اور میرا خاوند، اُس نے ساتھی مرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، سامان بھجوانے کا کام کرتے ہیں۔ آپ بھی خدمت کا موقع دیں۔ سامان ہمارے گودام بھیج دیں یا ہمیں بتائیں ہم کہاں سے اٹھا لیں۔ آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔ گو اس بیان کے دوران اُس نے کافی غلطیاں بھی کیں اور جھٹکے بھی لیے لیکن مجھے بات سمجھ آگئی ۔ اُس نے اپنا کارڈ بھی دیا۔ گڈز فاروڈنگ ایجنسی کی مالک تھی۔ مجھے سامان بھیجنے کے لیے کسی ٹرانسپورٹر کی تلاش تھی۔ اس زحمت سے بچ جانا اچھا لگا۔ فوراً ہاں کہہ دی۔

بزنس حاصل کرنے پر اُس کے چہرے پر رونق آگئی ۔ اُس نے میرا شکریہ ادا کیا اور پھر لہک لہک کر ایک ہندوستانی گانا گانا شروع کر دیا۔ اردو گانا اور چینی لہجہ ، مجھے ہنسی آگئی۔ وہ بھی ہنسنے لگی اور بتانے لگی کہ اس شہر میں آنے والے سارے پاکستانی سامان بھیجنے کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ انہی لوگوں نے مجھے سکھایا ہے ۔ میں اُن کا سامان بک کرتی او رمنزل مقصود تک پوری احتیاط سے پہنچاتی ہوں۔ آپ اُمید ہے آئندہ بھی مجھ سے رابطہ کریں گے۔ خدا حافظ۔ وہ کمرے میں آئی ، بیٹھی ، گفتگو کی اور پھر چل پڑی۔ اس دوران اُس کا خاوند اس کے قریب گم سم کھڑا رہا۔ نہ بولا نہ بیٹھا مگر جب وہ چلی تو روبوٹ کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ لگتا تھا کہ کوئی گونگا بہرہ آدمی ہے۔

شام کو میں سامان کے بارے پتہ کرنے اُس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا ۔ بڑا سا گودام تھا جس میں کچھ ٹرک کھڑے سامان لوڈ کر رہے تھے۔ گیٹ کے ساتھ ہی ایک میز پر بہت سے کاغذات سجائے اُس کا شوہر بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کر اُس نے ایک رسید میری طرف بڑھا دی۔ مطلب تھا کہ سامان پہنچ گیا ہے۔ پھرمڑ کر اُس نے چینی زبان میں کچھ کہا۔ کچھ دوسرے پاکستانی بھی وہاں کھڑے تھے۔ میں نے ہنس کر کہا ۔ ”او ۔ یہ بولتا بھی ہے “۔ ایک پاکستانی نے جواب دیا صرف اپنی بیگم سے بات کرتا اور صرف اُسی کی بات سنتا ہے۔ اتنے میں وہ عورت بھاگتی ہوئی آئی ۔ بڑے تپاک سے ملی اور معذرت کرنے لگی کہ آپ بیٹھو ۔ میں کچھ کام کر کے ابھی آتی ہوں۔ میں نے کہا کہ میں ساتھ ہی چلتا ہوں۔ دیکھوں کیا کام کر رہی ہو اور میں اُس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ ٹرک پر سامان لوڈ کر رہی تھی۔ حیران ہوا کہ لوڈ کرنے والی بھی عورتیں تھیں۔ وہ خاتون جو مالک تھی اور جس کا قد کے مطابق وزن 50کلو سے کم ہو گا۔ سو دو سو کلو کے پیکٹ بڑی آسانی سے اٹھا کر دوسری عورتوں کو ٹرک پر پکڑا رہی تھی اور میں حیران ہو رہا تھا۔

ہم چیزوں کا اندازہ نہیں کرتے۔ فطرت نے ہر ذی روح کو اُس کی ضرورت کے مطابق ہمت اور طاقت دی ہے۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ شتر مرغ جیسے ہم مرغ جان کر کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ گھوڑے سے زےادہ تیز دوڑ سکتا ہے اور شیر سے زیادہ خوفناک انداز میں دھاڑتا ہے۔ ایک چیونٹی اپنے وزن سے پچاس گنا وزن آسانی سے اٹھا لیتی ہے۔ حیران کن یہ کہ شہد کی مکھی اپنے وزن سے 300گنا وزن اٹھا سکتی ہے یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جسیے کسی عام انسان کو 10ٹن وزن اٹھانا پڑے۔

جس شہر میں میرا قیام تھا یہ چین کا ایک چھوٹا سا انڈسٹریل قصبہ ہے مگر یہاں عملاً عورتوں کا راج ہے۔ مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہے ۔ پوری پوری مارکیٹ میں بعض اوقات کسی بھی دوکان پر کوئی مرد دکھائی نہیں دیتا۔ یکم اکتوبر 1949ءجب پیپلز ریپبلک آف چائنہ وجود میں آیا اُس وقت عورتوں کی بہت کم تعداد کام کرتی تھی۔ وہ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ کھیتی باڑی کی صورت میں۔ ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد اُس وقت صرف 7فیصد تھی۔ جبکہ یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 1992ءمیں 38فیصد ہو گئی۔ بزنس پیشہ خواتین اور دوسرے شعبوں سے منسلک خواتین کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

دیہی علاقوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے خاندان کے ہمراہ چاول، چائے اور دیگر فصلوں کی تیاری اور دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں جبکہ شہری علاقوں میں کام کرنے والے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے گھروں سے دور فیکٹریوں میں کام کرتی اور وہیں رہتی ہیں۔ یہ خواتین زیادہ تر نوجوان ہیں اور اپنی آمدن اپنے گھر والوں کو بھیجتی ہیں۔ یہ خواتین فیکٹریوں میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بناتی ہیں جن میں الیکٹرک ، الیکڑونکس ، کھلونے اور دوسری گھریلو اشیاءشامل ہیں۔ خواتین کے حقوق کی نگہبانی کے لیے بہت سی انجمنیں کام کر رہی ہیں اور خواتین کو چین میں گلوبلایزیشن کے حوالے سے تمام حقوق اور مراعات حاصل ہیں۔ شنجن (Shenzen) کی آبادی 35لاکھ سے زیادہ ہے ۔ یہ ایک انڈسٹریل شہر ہے اور یہاں کام کرنے والوں میں 70فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔

1980ءسے انڈسٹریلائزیشن کے بعد چائنہ میں حقیقی طو رپر عورتوں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب آیا ہے۔ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہی نہیں بلکہ بعض شعبوں میں قدرے آگے جا رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے چائنہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہترین ملک ہے۔ کام کرنے والی اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے حوالے سے چائنہ کی عورتیں اس وقت امریکہ اور جاپان سے بہت آگے ہیں۔ جہاں عورت فعال بھی ہے اور انتہائی قابل احترام بھی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 588 Articles with 543176 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More