کسی بھی ملک کی ترقی کا ٰ انحصار
اُس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ یہ بات شاید پوری دنیا سمجھ چکی ہے۔ لیکن شاید
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے یا ہم سمجھنا نہیں چاہتے وجہ کوئی بھی ہو۔
بہرحال رفتہ رفتہ ترقی کی رفتار میں پوری دنیا سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام میں دین اور دنیا کو الگ
الگ کر دیا ہے۔ اب یہ سازش ہے یا غلطی بہرحال اس کا خمیازہ ہمارے پورے ملک
کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ انگریز نے جو ہمیں تعلیمی نظام دیا تھا اُس کا
مقصد ترقی کرنا ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ اُسے اپنا نظام چلانے کے لیے کلرک
چاہیے ہوتے تھے بقول اکبر الہٰ آبادی:
چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
یہی وجہ ہے کہ ہماری تعلیمی نظام سے سائنسداں نکل نہیں پارہے ہیں۔ اب ہمیں
یہ دیکھنا ہو گا کہ کتنے تعلیمی نظام اس وقت ہمارے پیارے ملک میں کام کررہے
ہیں۔
۱) دینی مدرسے
۲) گورنمنٹ اسکولز
۳) نام نہاد پرائیوٹ انگلش اسکولز
۴) او لیول اسکولز
دینی مدرسے سے جو بچہ تعلیم لے کر نکلتا ہے۔ اُسے نہیں پتہ ہوتا کہ اُسے
زندگی گزارنے کے لیے کیا کرنا ہے یا تو وہ مولوی بن جاتاہے یا مولانا
جسکاکا م صرف نماز پڑھانا٬ نکاح کرانا رہ جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو
یہ کام تو کوئی بھی مسلمان کرسکتا ہے۔ گورنمنٹ اسکو لز کا حال تو سب کو
معلوم ہی ہے کہ کلرک پیدا کرنے کے علاوہ اُن کا کوئی ہی نہیں رہ گیا ہے۔ یہ
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک میں اتنے کلرک کیا کام کریں گے۔ اساتذہ کرام
کو بھی اپنی تنخواہ کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں ہے۔ نام نہاد پرائیوٹ
انگلش اسکولز جن کا سارا زور صرف انگلش زبان سیکھنے یا سیکھانے میں لگ جاتا
ہے حالانکہ انگلش زبان قابلیت کا نعم البدل ہر گز نہیں ہے مگر ہم من الحوث
قوم ہم غلام ہی ہیں کیونکہ جو انگلش میں بات کرتاہے ہم اُس سے مرعوب ہو
جاتے ہیں۔ اب بات آتی ہے اُن اسکولوں کی جو ہیں تو پاکستان میں مگر کورس
پڑھایا جاتا ہے امریکہ ٬ انگلینڈ ٬ سنگاپور کا۔ یہ وہی اسکول ہیں جہاں کی
فیس اتنی ہیں کہ پاکستان کے ایک عام آدمی کے خاندان کا گزارہ ہو جاتا ہے۔
یہی وہ اسکو لز ہیں جہاں ہماری ایلیٹ کلاس کے بچےّ پڑھتے ہیں اور ہم پر
حکومت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہی
نہیں ہوپاتا اور نہ ہی وہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر میں تعلیم کو کسی بھی ملک کا سستاترین دفاع سمجھا جاتا ہے مگر
پاکستان کے ۶۵ سال میں ۲۴ تعلیمی پالیسیزآنے کے باوجود ایسی کوئی پیشرفت
نہیں ہو سکی ہے اور آج بھی ہمارا ملک پوری دنیا میں ۱۳۶ کے نمبر پر کھڑا
ہوا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت اپنی کُل قومی پیداوار کا صرف %۲ تعلیم پر خرچ
کررہا ہے ۔ عظیم اقوام جانتی ہیں کہ ایک اُستاد کی قیمت امن کے زمانے میں
جنرل سے زیادہ ہوتی ہے اور جنگ کے زمانے میں سپاہی کی قیمت یونیورسٹی کے
وائس چانسلر سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے دونوں چیزوں کو
توزان میں رکھا ہے۔
ابھی تک ہم یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام کس زبان میں ہونا
چاہیے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم بھی ایسی نہیں ملتی جس نے کسی دوسری
زبان میں تعلیم حاصل کی ہو۔ ہمارے بچّے کا ذہن تو صرف زبان سیکھنے میں ہی
لگ جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ علم دوسرے کی زبان میں حاصل کیا جا سکتا ہے مگر
تخلیق کا کام اپنی ہی زبان میں آسانی سے ہو سکتا ہے۔
تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے حل :
۱) یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے۔
۲) کُل قومی پیداوار میں تعلیم کے فنڈ کو %۲ سے %۷ پر لایا جائے۔
۳) تکینکی تعلیم پر توجہ دی جائے ۔
۴) عوام میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور بڑھایاجائے۔
۵) اساتذہ کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے۔
تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جسکے ذریعے ہمارے ملک انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
دعُا اور دوا دونوں بہت ضروری ہیں اور ہمارے ملک کی ترقی کے لیے ـتعلیم ’ ـدواـ‘
کی حیثیت رکھتی ہے۔ |