فیکٹریز آن فائر ........ لیکن

مرد و خواتین افراتفری کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے قیامت صغری بپا تھی۔ آگ کی لپٹیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں گاڑیوں کا شور،زخمیوں کی آہ و پکار اور لواحقین کی بھاگم دوڑ میں کچھ سجھائی نہیں دے رہاتھا۔وہاں پر موجود ہر شخص اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں تھا جن کے پیارے آگ کی نذر کی ہوگئے تھے وہ نوحہ کناں تھے اور جن کی کوئی خبر نہ تھی ان کے لواحقین امید و یاس و ناامیدی کی کیفیت میںکشمکش کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ ریسکیو اہلکار بھی فیکٹری میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کیلئے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جتے ہوئے تھے لیکن بے رحم آگ تھی کہ پھیلتی ہی جارہی تھی

جی ہاں یہ مناظر کراچی بلدیہ ٹاﺅن میں واقع گارمنٹس کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے تھے جس میں تین دھماکوں کے بعدیک لخت آگ پھیل گئی اور اپر و لوئر سٹوریز کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی لپیٹ میں لے کر ساڑھے تین سو کے قریب انسانی جانوں کو لقمہ بنالیا۔ اسے مشیت ایزدی ہی کہا جاسکتا ہے اور خالق کائنات کی حکمتوں اور پالیسیوں کو وہی بہتر جانتا ہے کیونکہ انسان ہمیشہ سے ہی نا شکرا اور ناسمجھ ہے۔لیکن اگر ground realities کو مد نظر رکھا جائے تو اس میں انسانی غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت دکھائی دیتی ہے جس نے ساڑھے تین سو کے قریب بے گناہ انسانی جانوں کو نگل لیااور اور اس غفلت کے ذمہ دار بہت سے ”ہونہار“ محکمے اور ان کے ملازمین جن میں لیبر ڈیپارٹمنٹ، سول ڈیفنس، محکمہ بلڈنگ،محکمہ محنت و صنعت کے علاوہ گورنر، وزیر اعلی وزیر محنت و صنعت اور متعلقہ لوگ اس کے حقیقی ذمہ دار اور سو فیصد مجرم ہیں سب سے پہلے ان کو بغیر کسی روایتی انکوائریز اور کمیٹیاں بنائے قوم کے سامنے کٹہرے میں لاکر کھڑاکیا جائے۔اور انسانی جانوں سے کھیلنے والے ان بے حس اور درندہ صفت بھیڑیوں کو تختہ دار میں لٹکایا جائے۔تاکہ انہیں بھی معلوم ہوسکے کہ موت کی اذیت کیا ہوتی ہے؟جلنے کا احساس کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے اور پیاروں کے بچھڑنے کا غم کیا ہوتا ہے؟

لیکن! پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ لااینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی ناقص ہے۔ ہر دوسرا شخص غیر قانونی انداز میں اپنے معاملات کو حکومتی کارندوں کی سرپرستی اور آشیرباد سے چلا رہا ہے اور انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے ملک میں ہر چھوٹے بڑے شہرقصبات و دیہات میں گلی محلوں اور بازاروں کے نکڑ پر غیر رجسٹرڈ غیر قانونی اور انتہائی ناقص انتظامات بلکہ انتظامات سے بری الذمہ پٹرول مٹی تیل اور گیس کی دکانیں بصورت ایجنسیاں بڑے دھڑلے سے کام کررہی ہیں اور متعلقہ محکمہ جات کی کارکردگی کا پول کھول رہی ہیںاور قرب و جوار کے لوگ و رہائشی ہر وقت خوف و ہراس کا شکار سولی پر لٹکے رہتے ہیں اور باوجود شکایات کے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی الٹا ان کو مختلف مقدمات میں پھنسانے کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔ وجہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ان تمام افسران و اہلکاروں کے منہ اور پیٹ اس انداز سے بھر دیئے جاتے ہیںکہ آواز منہ سے نکل نہ سکے پیٹ وزنی ہونے کی وجہ سے وہ جائے وقوع پر پہنچ نہ سکے اور انکھوں پر چربی تو پہلے ہی ہذا من فضل ربی کی چڑھی ہوتی ہے۔

جب حالات سے دلبرداشتہ ہوکر میں کالم لکھنے بیٹھا تو دوستوں نے میرا مذاق اڑایا کہ کیوں اپنی توانائیاں اور سیاہی خرچ کررہے ہواس ملک میں کسی کے حلاف کچھ نہیں ہوتا فیکٹری مالکان نے صاف بچ جانا ہے ۔انکوائری کمیٹیاں ہمیشہ سے بنتی رہی ہیں اور آج تک کسی کمیٹی کی کوئی ایسی رپورٹ سامنے نہیں آئی کو جس میں کسی ملوث فرد یا افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ہو یا ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔ان کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں

دوسری طرف کوئی بھی فیکٹری کارخانہ تو دور کی بات نقشہ بھی قوانین کے مطابق نہیں بنایا جاتاہے اور پاس ہوجاتا ے عمارت کھڑی ہوجاتی ہے پھر وہی ہوتا ہے جو لاہور اور کراچی کی فیکٹریوں میں عوام الناس کے ساتھ ہوا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی راہ فرار ہی نہیں ملتی۔ آگ بجھانے کے آلات کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ کہیں پر فائر distingusher نہیں لگائے جاتے۔سموک سینسر کا استعمال ندارد ہوتا ہے ایمرجنسی وے اور سیڑھیوں کو بلڈنگ میں فضول خرچ گردانا جاتا ہے آگ بجھانے کے دوسرے آلات کہیں دکھائی نہیں پڑتے تو پھر اس قسم کی صورت حال میں ایسے حادثات کا رونما ہونا کوئی اچنبھے یا انہونی کی بات نہیں ۔

لیکن! لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان سب معاملات کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے آیا کہ فیکٹری مالکان ذمہ دار ہیں کہ وہ تمام ادارے جو ان مالکان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اور بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ بلڈنگ کو فیکٹری بنانے کا نقشہ کس نے پاس کیا ؟ ایک ایسی بلڈنگ جس میں کوئی exit way نہ ہو تو اس کو فیکٹری کے طور پر کا م کرنے کی اجازت کس نے دی کن گراﺅنڈز پر دی۔ کیا کبھی سول ڈیفنس نے معائنہ کیا کہ ایک ایسی بلڈنگ جس میں flamable میٹریل موجود ہے اور سینکٹروں کی تعداد میں غریب ورکر کام کررہے ہیں ان کی زندگیا ں کس خطرے سے دوچار ہیں اور کیا وہاں ایمرجنسی و آگ سے نمٹنے کے آلات و انتظامات موجود ہیں۔اگر نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں۔جہاں پر لاکھوں کروڑوں کی لاگت سے پروجیکٹ بنایا جاتا ہے اس کو چلانے والوں کی حفاظت کیلئے ہزاروں روپے خرچ کرنا مالکان کو موت نظر آتا ہے اور یہی موت غریبوں کو نگل جاتی ہے لیکن پاکستان میں ہر سوال کا ایک ہی جواب ہے ۔ کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں-

اور حکومت کے تو کیا کہنے ! قربان جائیے ان کی سوچ اور بے حسی پر کہ ایک مرنے والے کے لواحقین کو دو چار لاکھ روپے دے کر احسان عظیم کردیا جاتا ہے کہ مرنے والے کی قیمت ادا کردی گئی ہے۔اور یہ رقم اتنی ہے کہ اگر مرنے والہ ساری عمر بھی کماتا تو بھی نہ کما سکتا۔ ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ وہ کسی کا باپ بیٹا بیٹی بھائی بہن بیوی یا شوہر تھا اس کی کمی کو رقم سے کیسے پر کیا جاسکتا ہے۔بہرحال مقصد لکھنے کا یہی ہے کہ شاید کوئی دبی چنگاری کوئی سویا ضمیر جاگ جائے اور پاکستان میں کہیں پر غریب کو اس کا حق اور انصاف مل سکے اور قانون کی حکمرانی ہوسکے ۔کیونکہ غریب کا اس ملک میں پیدا ہونا بذات خود ایک جرم اور گالی ہے۔اس لئے تو میرا خیال ہے کہ شاعر سے پاکستان کے غریبوں کیلئے کہاتھا کہ
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211777 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More