جواب مضمون تلخ کلامی کا جواب

24مئی 2012پر اجاگر دنیا میں میرا کالم( پختون کا مطلب کیا)؟ شائع ہوا۔ یکم جون 2012ءپر محترم معین ا لدین ( شاہ بیگ )نے میر ے اس کالم کی تردید کرتے ہوئے ایک کالم دیا۔ جس کا عنوان تھا( جواب مضمون تلخ کلامی) ۔ لیکن مجھے اخبار بہت دیر سے ملا۔ اس لئے جواب دینے میں بہت تاخیر ہوگئی۔ اس کی معافی چاہتی ہو اور اس کالم کے پڑھنے سے جو محترم کی دل شکنی ہوئی ہے۔ تو محترم بیگ صاحب سے دل شکنی کی معافی چاہتی ہو اور جیسا کہ بیگ صاحب نے لکھا ہے کہ میری طرح اور قائیرین کی بھی دل شکنی ہوئی ہوگی۔ تو ان سے بھی دل شکنی کی معافی چاہتی ہو۔ لیکن اس کی باوجود محترم بیگ صاحب کو عرض کرتی چلو کہ جو باتیں میں نے لکھی ہے! وہ غلط ہے؟ میں نے جو جملے لکھی ہے میں مانتی ہو کہ وہ جملے بہت سخت اور دل شکنی والی ہیں۔ لیکن میں یہ حقیقت بھی واضح کرنا چاہتی ہو کہ یہ بالکل درست اور ثابت ہے کہ نہ پختون اسلام کی اصولوں پر عمل کرتے ہیں نہ اسلام سے حقیقی محبت کرتے ہیں۔ بلکہ اسلام نام پہ اسلام بدنام کرنا ہی ان کی محبت ہے۔ محترم بیگ صاحب کا بہت شکریہ ادا کرتی ہو کہ اس نے میرے کالم کی تردید کرتے ہوئے مجھے احساس دلایا کہ قلم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے کہ میں جو باتیں لکھتی ہو۔اس پہ مجھے پچھتاوا ہوگا کہ نہیں۔ میں اپنے عزیز اور محترم برادر معین الد ین صاحب پر واضح کرتی چلو کہ میں نے اس کالم کے لکھی نے سے پہلے ہزار بار سوچا تھا اور اس کے بعد بھی ہزار مرتبہ سوچا اور آپ کی تردیدی کالم پڑھ کے بھی ہزار بار سوچا لیکن ہر بار مجھے اپنے کالم کے ایک ایک لفظ موتی جیسا لگتا ہے۔ اور کوشش کرتی ہو کہ جو لکھتی ہو وہ تاریخ سے ثابت ہو اور جو تاریخ موزوں معلوم ہوتا ہے تو اس سے معلومات لے تی ہو۔ محترم برادر میں اپنے آپ سے نہیں لکھتی ہو لیکن تاریخ پڑھ کہ ہی لکھتی ہو۔ مجھے احساس ہے کہ میں نے جو لکھا ہے یہ میرے دل کی اواز ہے۔ لیکن دل کے اواز کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے۔کہ پختون قوم کا اسلام کی دعواداری جھوٹ پہ مبنی ہے۔ اور میں کالم کے وہ جملے دوبارہ دہراتی ہو۔ کہ پختون قوم جو اسلام کے دعویداری اور خاص طور پر اپنے آپ کو اسلام کے وارث اور حامی مانے والے یہ اسلام کے ایک ہی بات پر عمل نہیں کرتے اور نہ کبھی پختونوں سے اسلام کے پھیلنے کے لیے کوئی کام ہوا ہے۔ نہ ہی کوئی ایسا کردار تاریخ میں سامنے آیا ہے۔ کہ پختونوں نے اسلام کے بقاءکے لئے جنگ لڑی ہے۔ صرف اقتدار کے حصول کے خاطر اوراپنے پھیٹ بھرنے کے لیے اسلام کے نام لے کر اسلام کا نام بدنام کرنے کا ہر دور میں لڑنے والے جنگ میں پیش پش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بیگ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکیزہ نے جو لکھا ہے یہ سب کچھ سمندر میں رھ کر سمندر میں بیرہے کہ مترادف ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہو جو لکھا ہے یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ کیونکہ یہ کالم آزادی سوات اخبار میں 2سال پہلے شائع ہوا تھا۔تو بہت سے لو گ آزادی سوات کے ایڈیٹر کو فون کر کے اپنے رائے کا اظہار کرتے کہ پاکیزہ نے جو لکھا ہے یہ باتیں سب سچ ہے اور پختون واقع اس قسم کے لوگ ہے۔ بیگ صاحب جو اس کالم پہ مشتعل ہوئے ہے۔ میں ان سے اس کے دل شکنی کی معافی چاہتی ہو۔ اوریہ بھی واضح کرتی چلو کہ اس کالم پہ اور اداروں میں بھی اعتراضات ہوئے ہے کہ ان کے اخبار خیبر نے یہ کالم دیا تھا لیکن بعد میں اس کالم کے مشتعل ہونے پر میرا اور کالم (چاردیواری) سٹا پ کروایا جو کہ پختون لڑکی پہ لکھا گیا ہے اور کہاں کہ آپ نے پختون قوم کی دل شکنی کی ہے اس کے بعد انہوں نے میرا کالم پرنٹ کرنا بند کردیا لیکن بعد میں( سی، سی، پی) کے کہنے پر دوبارہ شروع کردیا۔ سوات میں چاند اخبار نے بھی کالم سٹاف کروایا۔ لیکن اور کالم کا سلسلہ چلتا ہے ۔اور ازادی سوات میں یہ کا لم دو سال پہلے د یا تھا۔لیکن میں نے دوبارہ اشاعت کی اپرکی تو انہوں نے یہ کالم سٹاف کروایا۔ لیکن اور کالموں کا سلسلہ جاری ہے۔ نوائے وقت والوں نے بھی سٹا پ کروایا۔ اور اجاگر دنیا میں یہ کالم شائع ہوا۔اور سلسلہ بھی چلتے رھتا ھے لیکن اجاگر دنیا کے کالم نگار اور عظیم صحافی معین الدین شاہ بیگ میر ے اس کالم پہ تردید میں کالم تلخ کلامی دیا۔ لیکن میں ان کے بے حد مشکور ہو۔ کہ اس نے مجھے سبق دیا۔ کہ میں ہر قدم بڑی احتیاط سے رکھو اور خاص کر صحافت میں تو بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ کیونکہ سب کچھ میڈیا کے ذریع لوگوں پر واضح ہوتے ہیں۔ پھر تو مجھے زیادہ احتیاط کرنا چاہئے جوکہ میر ے کالم تو پاکستان کے ہر شہر اور ہر علاقے سے اُگتا ہے۔

کیونکہ CCPوالے میرے کالم 1800ایڈیشن کو دیتے ہیں۔ ان میں انگلینڈ، امریکہ ، انڈیا، دوبئی، پاکستان وغیرہ کے اردو اور انگلش اخبارات شامل ہے۔ پختونوں کی کم فھمی پہ میں نے اور کالم بھی لکھے ہیں جن میں سوات کا” مصیبت زدہ عوام“ ”چاردیواری“ شامل ہے۔ سوات کے مصیبت زدہ عوام بہت زیادہ پیپرز اور ویب سائڈز میں پرنٹ ہوا ہے۔ جو کہ بہت مقبول کا لم ر ہا ہے۔ اور چاردیدواری پختون لڑکی پہ لکھا گیا ہے۔ چاردیواری اخبار خیبر میں سٹاف کروایا۔ لیکن اور اخباروں میں شائع ہوا۔ آزادی سوات اخبار میں چاردیواری ۲۱مئی 2012ءپہ میں شائع ہوا۔13مئی پر ایک صحا فی محمد طاہر بوستانخان نے ان کے تعید میں کالم لکھا۔ اور میری رہنمائی اور دل جوئی کی۔ بیگ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکیزہ نے نہ صرف نثر میں بلکہ اشعار کا سہا را لے کر یہ ثابت کرنی کی کوشش کی ہے۔ کہ پختون کا اسلام سے دور دور کا واسطہ نہیں تو میں اپنے موقف سے نہیں ہٹتی ہواور دو با رہ وہ اشعا ر د ہرا تے ہوں اور ثا بت کر تی ہو کہ پختو ں لو گ اسلا می احکا ما ت پہ عمل نییں کر تے یہ وہ ا شعار ہے جو اس کا لم میں دی تھے۔پختو ن کا متلب کیا ؟ غو با ڑ ے
د رنز علا ج یے ثہ دے ؟ ثو با ڑ ے
پہ جبہ کڑ ی تشے دعو ے دَ ا سلا م
زڑہ کہ یے غٹ منا فقت دے ربہ
د ازل لیک کے گنہگار لیکلی
بو سو مز غو تہ نصیحت دے ربہ
پہ رڑنا ورز کے پہ تیا روں ا مو ختہ
چر تہ پختو ن دے پہ غفلت دے ربہ
د مخکے تلو نہ دے پسما ند ہ ذہن
ز کہ خو دلتہ غٹ غربت دے ربہ
د جو ند کتا ب کے پہ ا ستر او نسی
د پختو ن دغہ ا صلیت دے ربہ

اور یہ شعر جو میں نے لکھا ہے ”د ازل لیک کخہ گنہگار لیکلی “”بو سو مز غو تہ نصیحت دے ربہ“

تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ابولہب کے موت سے10سال پہلے قرآن میں اس کی تباہی کے آیات نازل ہوئے تھے۔ کیونکہ ابولہب کو بھی معلوم تھی۔ لیکن وہ خدا کی رجوع کرنے والے نہ تھے۔ کیونکہ خدا نے رسول کو فرمایا تھا۔ کہ آپ دعوت دو۔ ہدایت دینا میرا کام ہے۔ بیگ صاحب نے لکھا ہے۔ کہ پاکیزہ اگر ایسی لکھتی کہ پختون رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ رہے ہیں۔ تو پھر بھی کوئی بات ہوتی۔ لیکن میں بیگ صاحب کو عرض کرتی چلو کہ میں ایسے کیوں لکھو کیونکہ پختون لوگ نہ پہلے ایسے تھے اور نہ اب کیا میں اپنے قلم پہ جھوٹ لکھو؟ خدانہ کریں! بیگ صاحب نے لکھا ہے۔ کہ غیر جانب دارانہ تبصرہ کرنا چاہئے تو میں نے تو غیر جانب دارانہ تبصرہ کی ہے۔ کیونکہ میں خود پٹھانوں کے بہت بڑی قبیلے یوسفزئی سے تعلق رکھتی ہو۔ لیکن میں حقیقت سے انحراف نہیں کرتی ہوں اور پٹھانوں میں جو خامیاں ہے وہ لکھے ہے۔ جو کہ میں اپنے قلم سے ہمیشہ حق کی آواز اٹھانا چاہتی ہوں۔ جو باتیں اپنی قوم میںہو،یا اور قو م میںتو وا ضح کر نا چا ہتی ہوں۔ کیونکہ اگر میں دوسری اقوام کی خامیاں اُجاگر کرتی رہتی ہوں۔ تو پہلے اپنے گریبان میں جانکنہا چاہئے۔ اگر پٹھانوں میں ایسا بندہ ہو جو تعریف کے قابل ہو۔ تو میں اس سے انکار نہیں کرتی ہو۔ جیسا کہ بیگ صاحب ہے لیکن ایسے لوگ تو پٹھانوں میں بہت کم ہونگے۔ جیسا کہ آپ! اور میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہو اور دل سے احترام کرتی ہو اور فخر کرتی ہو کہ پٹھانوں میں بھی کوئی ایسا بندہ ہے۔ جو ستائش کے قابل ہو۔ بیگ صاحب نے لکھا ہے کہ ذاتی رنجش کے بنا پر کسی کو سولی پہ نہیں چڑانا چاہئے۔ تو میں بیگ صاحب کو بتادو کہ میرے کیا ذاتی رنجش ہوسکتی ہے۔ کیونکہ میں خود پٹھان ہو۔ لیکن اس لئے پٹھانوں پہ لکھتی رہتی ہو۔ کہ اگرکل دوسری اقوام پہ ایسے باتیں لکھنی کی ضرورت پڑے تو مجھے اپنے ضمیر مُلامت نہ کریں۔ کہ میں نے اپنے قوم کے خامیاں چھپاکر حقیقت سے انحراف کیا ہے۔ میری عزیز برادر نے لکھا ہے۔ کہ اپنے دل کا بوجھ کم کرنے کے لیے نہیں لکھنا چاہئے۔ یہ صحافتی اقدار کے منافی ہے۔ لیکن محترم برادر کو گستاخانہ لہجے میں جواب دیتی ہو کہ صحافت صحیفے سے نکلا ہے۔اور صحیفے و صحافت میں جھوٹ کا گنجائش نہیں۔ صحافت ایک مقدس اور پاکیزہ پیشہ ہے اگر قلم سے ایک حرف بھی غلط لکھا گیا تو دونوں جہانوں پہ خدا کا مجرم ہوگا۔ اور میں بے ڈر اور بے خوف برادر کو یہ جواب دیتی ہوں کہ نہ میں نے جھوٹ لکھا ہے۔ نہ دل کا بھوج کم کی ہے۔ لیکن پٹھان قوم کی اصلیت لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ برادر نے لکھا ہے۔ کہ ہمیں معاشرے میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کیلئے کام کرنا چاہئے نہ کہ اس منتشر قوم کو مزید انتشار کی کھائی میں دکیل دیا جائے۔تو میرا جواب ہے کہ پشتون قوم اذل سے ایک منتشر قوم ہے۔ جو ابد تک منشتر رہے گا۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ کہ میرے قوم کی یہ حالت ہے۔ جو ہمیشہ دیگر اقوام سے پچھے ہے۔ کیونکہ مجھے اپنی قوم کے دکھ درد پہ بہت تکلیف پونچھتی ہے۔ کیونکہ خو ن کا درد اس دل سے پوچھنا چاہئے جن کو قوم کی درد کا احساس ہو۔ لیکن حقیقت لکھنا صحافت کی پہچان اور نشانی ہے۔ جو کہ خدا کی رسول نے سچ کا پیغام دیا ہے اور اس نے حق و باطل کے راہ میں اپنے قوم کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن ہر اس بندہ کا ساتھ دیا جس نے خدا کے حکم کی تعمیل کر کے لاالہ اللّہ تو پڑا اور دوسروں کو پیغام دیا۔ کیونکہ خدا کے رسول نے اپنے قوم قُریش کے خاطر اسلام کو نہیں ٹھکرایا تھا۔ اور اپنے ہی چچا ابولہب پہ جیسے ہی قرآن میں ان کی تباہی کی آیات نازل ہوئی آپ نے اس طرح دنیا کو پیش کی تھی اور کافروں کی مثال بھی سامنے ہے کیونکہ غزہ بدر میں جتنے کافر مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے گئے تھے اس میں قُریش کے بڑی بڑی سردار بھی تھے۔ جو آپ کے اپنے قوم کے لوگ تھے ا ن میں ابوجھل جو حضرت محمد کے رشتے کا چچا تھا عتبہ اور شہبہ وغیرہ بھی تھے۔ برادر نے لکھا ہے کہ میری عزیز بہن کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے قلم میں زور ہے اور میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ریکارڈ درست رکھے اور نوک قلم سے وہ کام لے جو شمشیرسے لینا ممکن نہیں۔ میرا جواب ہے کہ نہ میں برادر سے ناراض ہو اور نہ ناراض ہونے کا حق ہے۔ کیونکہ رائے کا اظہار کرنا ہر بندے کا اپنا حق ہے۔ لیکن خود ناراض ہونے کے بجائے برادر محترم سے معافی چاہتی ہوں۔ کہ میں نے آپ کے جُملوں کے جواب میں جو گستاخانہ جملیں لکھے ہے یہ میرا حق ہے اور برادر کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ جو لکھا ہے کہ اس کے قلم میں زور ہے تو میری جواب ہے کہ اگر میرے قلم میں زور ہے تو خدا سے دعاما نگتی ہو کہ میری یہ زور ہمیشہ قائم رکھے۔ امین! اور جو لکھا ہے کہ اپنے ریکارڈ کو درست رکھے تو جہاں تک میری سٹڈی کا تعلق ہے تو میرے سامنے سے جو سٹڈی گزری ہے اس سے سوچ سمجھ کر ریکارڈ لی ہے۔ برادرسے استدعا کرتی ہو کہ اگر میری سٹڈی میں غلطی ہے یا میں نے غلط تاریخ پڑھا ہو تو اس کی معافی چاہتی ہو اور برادر کو استدعا کرتی ہو کہ مجھے وہ تاریخ کے کتابوں کے نام بتا کر میری رہنمائی کریں۔ جو لکھا ہے کہ نوکِ قلم سے وہ کام لیں جو شمشیر سے لینا ممکن نہیں تو میری خیال میں برادر کی اس سوال کا جواب خود ہی ان کے یہ جملیں ہے۔

جو کہ میں نے نوک ِقلم سے یہی کام لیا ہے جو شمشیر سے لینا ممکن نہیں اور اپنے جملوں میں بھی ان سے سوال پوچھتی ہو ۔کوئی امریکن، برطانین، یا انڈین یعنی کوئی یہودی یا عیسائی یا ہندو پختون سے روپہ لے کر ان پہ اپنا قوم بیچھا ہے۔یا بیچھتا ہے؟ یہ تو پختون قوم ہے۔ جو ہر کسی سے روپیہ لے کر اپنا قوم بھیچتا ہے۔ میں اپنے عزیز اور محترم برادر سے دل شکنی کی معافی چاہتی ہوں۔ لیکن حقیقت اجاگر کرنا میرے قلم کی فرض ہے اور فرض کی فرضیت جان کر باطل کا ساتھ دینا انسانیت سے روگردانی ہے۔ اور میں نے ان پختونوں کے خلاف نہیں لکھا ہے جو پختون ہو کر پختونیت کا ثبوت دے۔ لیکن ان پختونوں کے خلاف لکھے ہے۔ جو پختون طبقے میں پیدا ہو لیکن ان کو احساس ہوتا ہی نہیں۔ کہ میں پختون ہو کہ نہیں جو کہ خود بیگ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ سرِے سے پختون ہی نہیں جن میں یہ خامیاں ہو۔ تو یہ مطلب نہیں کہ وہ اس قوم کا فرد نہیں ہوا لیکن وہ بندہ اس قوم میں ناہل بندہ ہوتا ہے۔ رسول پاک کے چچاؤں کی مثال لےجئے ایک طرف ابولہب جو آپ کا چچا تھا۔ جس نے ہماری نبی کو تکلیفیں دی تھی دوسری طرف ابوطالب یہ بھی اپ کا چچا تھا جس نے اپنے بتیجھے سے اچھا بر تا ﺅںکیا تھا ۔ تو میں بیگ صاحب سے استہسار کرتی ہوں کہ کیا ابولہب جس نے ہمارے پیغمبر کو بہت تکلیفیں دی تھی کیا ان کو قریش نہیں پکارا جاتاہے؟ کیونکہ ابولہب پر قرآن میں تباہی کے آیات نازل ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ حضرت محمد کے چچا اور قوم قریش کا فرد یاد کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ابوطالب!لیکن ا بو طالب کورسول پاک کا مہربان چچا یاد کیا جاتا ہے۔ اور ابو لھب کو بد بخت۔
Pakiza Yousuf Zai
About the Author: Pakiza Yousuf Zai Read More Articles by Pakiza Yousuf Zai: 21 Articles with 46179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.