گزشتہ دنوں ایک تحریر میری نظر
سے گزری جس میں ایک چھوٹی سی رپورٹ نے مجھے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی ہمت
بندھائی۔ اس رپورٹ کا متن کچھ اس طرح ہے کہ:”:فرانس کی سپر مارکیٹ کے ایک
سٹور میں خریداری کے دوران ایک نقاب پوش خاتون اپنا ضروری سامان لے کر کیش
کاؤنٹر پر رقم کی ادائیگی کی غرض سے کھڑی ہوتی ہے تو قریب ہی کھڑی ایک
دوسری خاتون جو نین نقش اور وضع قطع کے اعتبار سے ”عرب“ لگ رہی تھی،
ناراضگی کے انداز میں اپنا پرس پٹخ کر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے حقارت سے نقاب
پوش خاتون کی جانب بڑبڑا تے ہوئے متوجہ ہوئی۔ اس کی اس غیر شائستہ حرکت کے
باوجود تقاب پوش خاتون خاموشی سے اِ سے سنتی رہی اور کوئی جواب نہ دیا مگر
اس کی خاموشی عرب خاتون کے لیئے مزید تلملاہٹ کا باعث بن رہی تھی۔ عرب
خاتون نے نقاب پوش خاتون کو حقارت سے دیکھتے ہوئے یہ کہا کہ فرانس میں ہم
مسلمانوں کے لیئے پہلے ہی مسائل کیا کم ہیں کہ تمھارے جیسی خواتین نقاب پہن
کر آئے روز ایک نہ ایک نئی مصیبت کھڑی کر دیتی ہیں اور پھر یہ کہ یہاں
ہمارے لیئے یہ نقاب ہی تو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ہم یہاں روزگار یا سیر و
سیاحت کی غرض سے آتے ہیں نہ کہ دین کی اشاعت اور اپنے اسلاف کی تاریخ بیان
کرنے کے لیے۔ بالآخر نقاب پوش خاتون اپنے چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے عرب
خاتون سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ میں ایک نو مسلم خاتون ہوں، فرانس میرا
وطن ہے اور میں یہاں کی باسی ہوں۔ مجھ میں اور آپ لوگوں میں فرق صرف اتنا
ہے کہ آپ نے اپنا دین بیچ دیا اور ہم لوگوں نے اسے خرید کر صدق دل سے اپنا
لیا“۔
موجودہ حالات میں اسلامی معاشرے کو صرف پردے یا نقاب کا ہی مسئلہ درپیش
نہیں جس پر تنقیدسے دل آزاری ہوتی ہے بلکہ ہمیں تو ایسے کئی خودساختہ بے
شمار مسائل کا سامنا ہے جن کے باعث ہم تقریباً عملی میدان میں ایسی کئی لا
تعداد کمزوریوں کے باوجود اپنی اصلاح و احوال کے حوالہ سے مثبت پیش رفت میں
ہر گز کوشاں نظر نہیں آتے۔ شاید ہمارے اپنے ہی افعال کی وجہ سے اسلام کا
چہرہ مسخ کرنے والوں کے لیئے مزید آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ معاشرے میں
ایسی کئی مثالیں آئے روز دیکھنے سننے کو ملتی ہیں جو ہمارے سوئے ہوئے ضمیر
کو جھنجھوڑنے کے لیئے کافی ہیں مگر شاید ہم مصلحتاً یوں ہی چشم پوشی برتنے
میں عافیت سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کوئی ہمیں
بنیاد پرست مسلمان ہونے کا طعنہ نہ دے ڈالے، ہمیں نبیﷺ کا حقیقی پیروکار
ہونے کا خطاب نہ مل جائے، کہیں بیرون ملک آنے جانے میں سفری سہولتی رکاوٹوں
اور پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے، دنیا کے جدت پسند حلقے ہمیں کہیں
دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دیتے ہوئے ہمارے کردار پر انگلی نہ اٹھائیں۔
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اسلامی نظریات کے دعویدار ہونے کے باوجود اسلامی
نظریات و روایات کو اپنانے میں ہچکچاہٹ اور چشم پوشی کا مظاہرہ کہیں کسی
بڑی گرفت و سرزنش کا موجب نہ بن جائے ۔ ستم ظریفی تویہ کہ بعض مقام پر تو
ہم اسلام کا اصل چہرہ مسخ کرنے والوں کا دست و بازو بننے میں بھی گریز نہیں
کرتے اور ایسی حرکات کر گزرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ ہماری اس روش سے اسلام
کو بجائے فائدہ کے نقصان ہی پہنچ رہاہے۔ اگر رواداری اور اعتدال کا پہلو
ہمہ وقت پیش نظر رہے تو ایسے خود ساختہ مسائل سے دوری ممکن ہو سکتی ہے۔
اسلامی نظریات و اقدار کی عملاً تعظیم و تکریم سے پہلو تہی کا رواج شاید اس
لیئے بھی عام ہو رہا ہے کہ ہم میں اسلامی نظریات و اقدار اپنے آباؤ اجداد
سے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ ان کے حصول کے لیئے ہمیں کوئی
زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، تپتی ریت اور انگاروں پر گھسیٹے جانے کی محض
داستانیں ہی سنیں، اپنے اسلاف کی قربانیوں کو محض فخر یہ کارنامہ ہی سمجھنے
پر اکتفا کیا، آباؤ اجداد کو نماز روزہ کرتے دیکھ کر ہم نے بھی عادتاً اور
رواجاً اِس کو اپنا لیا۔ ہماری اکثریت کے کردار و عمل پر ایک بڑا سوالیہ
نشان موجود ہے شاید ذاتی پسند و نا پسند کو اسلامی نظریات و اقدار پر فوقیت
دی جا رہی ہے اور اسی کو اسلام سمجھا جا رہا ہے یا پھر عدم برداشت کاعنصر
ہماری تمام خوبیوں پر غالب آ چکا ہے اور ممکن ہے کہ یہی ہماری تنزلی کا بھی
باعث بن رہا ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمیں
اغیار کے سامنے یوں سر تسلیم خم کرنے کی نوبت کیوں پیش آتی ہے؟۔ جہاں آج ہم
مغرب کی اندھی تقلید میں جدت پسند کہلوانے کے لیئے ہوا کے گھوڑے پر سوار
ہیں وہاں مغربی معاشرہ غیر محسوس انداز میں خاموش اسلامی انقلاب کے زیر اثر
آ چکا ہے۔ مغرب میں اس مثبت تبدیلی سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ
دین اسلام میں تحقیق و غور و فکر کے عمل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جس کی جانب
توجہ مرکوز کرنا وقت کا بھی تقاضا ہے اور ہماری دینی ضرورت بھی۔ اس موقع پر
ہم شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت میں اس پر
کام کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہم اپنی
اپنی سطح پر انتہا پسندی اور جدت پسندی کی تشریحات کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے بغیر کسی مصلحت کے اسلام کا اصل چہرہ واضح کرنے میں اپنا حقیقی کردار
ادا کرتے رہیں نہ کہ ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کے تعین میں ساری توانائیاں
صرف کر دیں۔ ایسی صورت میں خدشہ ہے کہ کہیں ہم بھی قرآن کریم کی اس آیت کی
روشنی میں اللہ تعالیٰ کی گرفت میں نہ آ جائیں جس میں ارشاد ہے کہ: (ترجمہ):
اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے
لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں
کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، اللہ کی راہ میں جہاد
کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ
جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ بڑی کشائش والا (اور) جاننے والا ہے“۔(سورة
المائدہ، آیت 54 ) ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جدت پسندی کی آڑ میں اسلامی نظریات و
اقدار سے راہِ فرار اختیار کرنے کی اس ناکام کوشش میں اپنی عاقبت ہی خراب
کر بیٹھیں اور ہمیں احساس تک بھی نہ ہو پائے۔ |