احساسِ مروت کو کچل ديتے ہيں آلات

اس وقت بجلی بحران پر پورے زور پر ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے لوڈشیڈنگ کا عذاب پورے ملک پر چھایا ہوا ہے- گرمی کی وجہ سے عوام میں عدم برداشت اور چڑچڑا پن پیدا ہو رہا ہے اور طبیعت میں غصیلا پن بتدریج عود کر رہا ہے، طالب علموں کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دفاتر میں ملازمین کو کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور مزدور طبقہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بےروزگاری کا شکار ہے- بجلی کے اس بحران سے خاکسار کو اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد آگیا جب سرے سے بجلی کا وجود ہی نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی لوگ بڑی آسانی سے اپنے روزہ مرہ امور سر انجام دیتے تھے اور انکی معاشی حالت بھی آج کی نسبت بہت بہتر ہوتی تھی-

خاکسار نے اپنے ابتدائی پانچ سال مکمل اپنے پِنڈ ميں گزارے، اُس وقت ہمارے پِنڈ واقع سرگودہا روڈ سے بیس کلومیٹر دور لائلپور میں ابھی بجلی نہيں پہنچی تھی، جو پنڈ سڑک کے کنارے واقع ہوتے تھے وہيں پر بجلی پہلے مہيا کی جاتی تھی- ہمارا پنڈ تقسيم سے قبل سکھوں کا پِنڈ ہوا کرتا تھا، گھر کے تمام دروازے لکڑی کے تھے اور ان پر ايسی اعلیٰ ڈيزاننگ ہوتی تھی کہ سکھوں کو داد دیے بغير کوئی چارہ نہيں تھا، مين گيٹ اس قدر بڑا اور ايسی شکل کا تھا جيسے کسی قلعہ کا ہوتا ہے، گھر ميں ايک بڑا دالان ہوتا تھا جو آج بھی ہے اور اسکی چھت پر ہوا اور روشنی کيلیے ايک درميانہ سائز کا سوراخ بنايا گيا تھا، جب مينہ پڑتا تو راقم چھت پر جاتا اور سوراخ پر چٹنی بنانے والی کونڈی کو اوندھا رکھ ديتا تاکہ دالان کے اندر مينہ نہ پڑے-

چونکہ ميرے ابا جی لاہور ميں ملازمت کرتے تھے اور مہینہ میں ایک دو بار ہی پِنڈ آتے تھے، اسليے ميں خود کو کافی آزاد سمجھتا تھا اور کسی روک ٹوک کا سامنا نہ کرنا پڑتا- کھيتوں ميں پانی لگانے کي باری پير کی رات کو اکثر آتی تھی، بعض دفعہ آدھی رات کو اللہ بخشے دادا جی کے ساتھ کھيتوں کو پانی لگانے ڈيرے جاتا تھا جو کہ پنڈ سے پانچ کلوميٹر کے فاصلے پر تھا، اس دوران لالٹين ميرے پاس ہوتی تھی، آٹا بنانے کيلیے بجلی سے چلنے والی چکی کی بجائے”خراس” استعمال ہوتے تھے، خراس ميں آٹا پيسنے والے کے بيل اپنے ہوتے اور ان بيلوں کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے، اس دوران فدوی ان بيلوں کو ہانکنے کيلیے بنی کاٹھی پر بيٹھ جاتا اور گول دائرے ميں خوب جھولے ليتا- گرميوں کی دوپہر ميں خواتين کپڑے دھونے کھالے پر جايا کرتی تھيں جبکہ ميں وہاں کھالے ميں ڈُبکياں لگاتا اور کپڑے سوکھنے کيلیے اردگرد کے کھيتوں ميں گھاس پر ڈال کر اپنے کچھ ”ہونے” کا تاثر پيدا کرتا- سرديوں ميں کماد کی فصل ہونے پر گُڑ اور شکر بنانے کيلیے بيلنا ہوتا، ساری رات گُڑ نکالا جاتا اور گرم گرم گُڑ کھانے کے مزے ليتا- شام کو لوگ ايک جگہ اکٹھے ہوتے اور مختلف موضوعات پر باہم تبادلہ خيال کرتے، اس محفل ميں ”حقہ” ڈھول کا کام ديتا تھا اور اکثر کسان محض حقہ کے دو چار سُوٹے لگانے کيلیے آ بيٹھتے، فدوی کو يہ شرف بھی حاصل ہے کہ اللہ بخشے دادا جی کو بعض دفعہ حقہ دھر کر ديا کرتا تھا جبکہ حقہ ميں پانی ڈالنا تو گویا ميری ڈيوٹی ہوتی تھی- بعد ازاں ہمارے پنڈ ميں بھی بجلی آگئی اور جس نے کسانوں کو آرام پرست اور سست بنا ديا، صوتی آلودگی کا آغاز ہوگيا اور پرسکون ماحول کا جنازہ نکل گيا، لوک گيتوں، ماھيوں، ٹپوں، ککلي، وغيرہ کی جگہ پاپ ميوزک اور فلمی گانوں نے قبضہ کرليا-

بغور دیکھا جائے تو ملک ميں صاف پانی کی بتدريج ناپيدگی ہو، لوڈ شیڈنگ ہو، مہنگائی ہو، بیروزگاری ہو، صحت ہو، اخلاقیاتی و نفسی بیماریاں ہوں بلکہ تمام برائيوں کی جڑ صرف اور صرف سرمايہ دارانہ نظام ہے- ايک زرعی زمين پر صنعتوں کا جال بچھانا سوٹ کرتا ہی نہيں ہے- اس سرمايہ دار نے ديہاتوں کا بيڑہ غرق کرکے رکھ ديا ہے، سارا حُسن خاک ميں ملا ديا ہے- پرسکون ماحول ہوتا تھا، ٹائلٹ کھيتوں ميں ہوتے تھے جسکا ڈبل فائدہ کہ ایک تو بندہ خود ہلکا ہوجاتا اور دوسرا اسطرح کھيتوں کو روڑی بھی مل جاتی تھي- نہانے کيلیے نہر، کھالہ يا پھر مسجد سے ملحقہ کھوہ استعمال کيۓ جاتے تھے اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ نہانے والے کو کھوہ ميں سے پانی خود نکالنا ہوتا تھا- کھيتوں ميں بجائے کيميکلز سے بنی کھاد کے رُوڑی ڈالی جاتی تھی جسکے نتيجہ ميں اجناس غذائيت سے بھرپور ہوتی تھيں اور لوگوں کی صحت بہت خالص ہوتی تھی- آج بھی ميں اپنے پِنڈ جاتا ہوں ليکن تب جب کوئی غمی خوشی کا موقع ہو يا پھر زمينوں کے معاملات دیکھنے کيلیے دورہ کرتا ہوں- سچ بات تو یہ ہے کہ اب تو پنڈ، پنڈ رہا ہی نہيں ہے يہی وجہ ہے کہ زيادہ جی نہيں کرتا جانے کا- بہرحال چونکہ ہر عروج کو زوال ہے لہذا اميد ہے کہ ہميں نہ سہی ہماری آنے والی نسليں ايک بار پھر پِنڈ کی طرف لوٹ آئيں گی-

المختصر، مسائل نفسياتی ہوں، صحت کے ہوں، اخلاقی ہوں، روحانی ہوں يا معاشرتی ہوں، ان سب کا سبب بلاواسطہ یا بلواسطہ سرمايہ داری نظام ہی ہے- صنعتی دور نے انسان کو جہاں مشين بنا کے رکھ ديا ہے وہيں پر انسان کی انسانيت کو بھی بری طرح متاثر کيا ہے، سماجی ڈھانچے بدل ديۓ ہيں- اگرچہ مشينوں کی ايجاد واستعمال نے مادی ترقی خوب کرلی ہے مگر انسان کو بے حس بھی بنا ديا ہے، اسکی روحانی و نفسیاتی صحت پر سخت برا اثر ڈالا ہے، اس کے دل ميں اب وہ سوز، وہ محبت، وہ دل گدازی، وہ درد نہيں رہا جو آج سے چار دھائی قبل ہوتا تھا- سرمايہ داری نظام سے چھٹکارا ہی ان سب مسائل کا حل ہے اور اسکے لیے صرف انقلاب درکار ہے جو کہ نامحسوس طریقہ سے خاموشی سے زیرِزمین پنپ رہا ہے-

‘ہے دل کيلیے موت مشينوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل ديتے ہيں آلات‘
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.