از:آل رسو ل حضرت مولاناالحاج
سیّد محمد امین القادری صاحب(نگراں سنّی دعوت اسلامی
اللہ کوجوانوں کی جوانی بھی پسند ہے اور جوانی کی عبادت بھی پسند ہے۔ اللہ
رب العزت کو جوانی اس لیے پسند ہے کہ اللہ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو بڑھاپے کے عیب سے بچا لیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ
کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ترسٹھ سال کی عمر میں بھی چونتیس سال کے
جوان نظر آتے تھے ۔ جب جنتی جنت میں جائیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی
جوانی انہیں لوٹا دے گا۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد
فرماتے ہیں کہ اگر کوئی جوان ایک رکعت نماز پڑھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ
بوڑھوں کی سو رکعت کی برابر اسے ثواب عطا فرماتا ہے ۔ اللہ کے پیارے محبوب
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جب کوئی جوان رات کی تاریکی
میں نماز فجر کے لیے پیدل چل کرمسجد جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ہر
قدم کے بدلے ایک سال کی عبادت کا ثواب عطا فرماتا ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو خوش خبری دے دو جنہوں
نے اپنی جوانی گناہوں سے بچا کر گزاری ۔ اللہ ایسے جوانوں کو قیامت کے دن
عرش کا تاج عطا فرمائے گا ۔آج جوانی کا صحیح استعمال کرنے والے کتنے ہیں؟
آج جوانی کو داؤں پر لگایا جارہا ہے عیاشیوں کی نذر کیا جارہا ہے۔ آج کا
نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ میری جوانی تو شراب کے لیے ہے شباب کے لیے ہے ،
کھیل کود کے لیے ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب صلیبی جنگ میں عیسائیوں کو
شکست دی گئی تواس کے بعد انہوں نے طے کیا کہ مسلمانوں سے اب میدان میں نہیں
لڑناہے بلکہ ان کو زیر زمین ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے تخریب کاریوں کے
ایسے جال پھیلا دیے جائیں کہ مسلم نوجوان ہلاک ہوکر رہ جائے ۔اسی لیے ان کے
کسی دانشور نے کہا تھا کہ شراب کا ایک پیالہ اور شباب کی ایک نگاہ مسلم
نوجوانوں کو اتنا ہلاک کرتی ہے کہ ایک ہزار توپوں سے انہیںاتنا ہلاک نہیں
کیا جاسکتا ۔ آج قوم مسلم کے نوجوانوں کو خاص طور پر شراب وشباب میں مبتلا
کردیا گیا ہے برائیوں میں مبتلا کردیاگیا ہے ۔وہ جوان جو کبھی فاتح اندلس
کہلایا کرتا تھے جو کبھی مذہب کے لیے ہند کا سفر کیا کرتے تھے آج اسی قوم
کے جوانوں کو عیاشیوں کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے ۔وہ نوجوان جو کل تک کے
دوسروں کی بچیوں کی حفاظت کرتا تھا وہی نوجوان اپنے ہی محلوں کی بہو بیٹیوں
پر غلط نگاہ اٹھاتا ہے ۔ اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے جو بندے اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں وہ
ایمان کی لذت پاتے ہیں۔ حضرت شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک
بہت بڑے بزرگ ہیںان کی زندگی کا عالم یہ تھاکہ ان کی راتیں مصلے پر گزرتی
تھیں۔یہ اتنے عظیم ترین بزرگ ہیں کہ تصوف پر اولین زمانے میں لکھی جانے
والی کتاب رسالۂ قشیریہ میں جا بجا بڑے بڑے القابات سے ان کا ذکر کیاگیاہے۔
شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو تقریباً
ستر سال کے بعد کسی نے انہیں خواب دیکھا اوران سے پوچھا: شیخ! یہ بتائیں کہ
اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ فرماتے ہیں کہ جس دن سے میری روح کا رشتہ میرے جسم سے ٹوٹا ہے اس دن
سے لے کر آج تک دھوپ میں کھڑا کیاگیا ہوں اور اب تک دھوپ میں کھڑا ہوں ۔
نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی رحمت سے امید لگائے منتظر ہوں ۔ساری زندگی
کی عبادت ،رات کی تاریکیوں کی عبادت اوردن کے وقت عبادت دھری کی دھری رہ
گئی۔ایک گناہ پر پکڑ ہوگئی اس کی وجہ سے میں ستر سال سے دھوپ میں کھڑا ہوں۔
پوچھنے والے نے سوال کیا کہ حضور! آپ جیسے بڑے بزرگ سے آخر و ہ کون سا گناہ
ہوگیا جس کی بنیاد پر ستر سال سے آپ دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں۔ شیخ ابو علی
دقاق فرماتے ہیں کہ بچپن کازمانہ تھا میں مدرسے جارہا تھا مدرسہ جاتے ہوئے
میں نے ایک خوب صورت لڑکے کو دیکھا اور اس پر بُری نظر ڈالی اسی ایک جرم پر
پکڑ ہوگئی ۔ آپ مجھے بتائیں کہ شیخ ابو علی دقاق جیسا بزرگ اگر بچپن میں
ایک نظر کسی لڑکے پر غلط ڈالیں تو وہ اس آزمائش میں مبتلا کیے جائیں۔ آج
ہماری نگاہیں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں پر اٹھ رہی ہیں۔ ہم نے اپنا وہ اثاثۂ
عشق رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)گم کردیاہے جو اگر بلال کے دل میں
پیدا ہوجائے تو کعبہ بلال کے قدموں کے نیچے نظر آئے ،خالد بن ولید کو
میسرہوجائے تو وہ سیف اللہ بن جائیں اور ابو عبیدہ ابن جراح کو میسر آجائے
تو وہ امین الامہ بن جائیں۔ نگاہوں کو آوارہ کرکے اوراپنی جوانی داؤں پر
لگا کر ہم عشق مصطفی کے اس عظیم اثاثے سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ |