سی این جی سٹیشنز کی بندش ........ایک اور ریلیف ختم

مون سون بارشوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں فلڈ وارننگ بھی دے دی گئی ہے کچھ علاقوں سے رہائشیوں اور مکینوں کو علاقے چھوڑنے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیںاور ملک میں کہیں کہیں سیلاب سے نمٹنے کی تیاریوں کا سلسلہ بھی شروع سنائی دیتا ہے۔ لیکن عملی کام کہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ تقریبا دو سے تین ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے شدید بارشوں کی پیشن گو ئی کردی تھی کہ جس کے نتیجے میںشدید ترین اور خوفناک ترین سیلاب سے واسطہ پڑنے کا عندیہ بھی دے دیا گیا تھا لیکن پھر بھی کوئی پیش رفت محسوس نہیں ہوتی۔شاید ہماری حکومت اپنی ”سنہری روایات“ کو چھوڑنے پر تیار نہیں کہ جب تک (خدانخواستہ)پانی سر سے نہ گزر جائے حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرنی۔ حالانکہ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں کہ سابقہ سال کے سیلاب کے نقصانات سے متاثرین ابھی تک سنبھل نہیں سکے ہیں اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کمر ابھی تک ٹوٹی ہوئی ہے کہ وہی عذاب دوبارہ نازل ہونے کی پیشین گوئی ہے اور اتنے شدید خطرے کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں بس شور شرابہ ہے اور look busy do nothing کے مترادف بھاگم دوڑ زیادہ ہے لیکن عملی اقدامات ندارد۔نشیبی علاقوں کے مکین صرف اور صرف توکل علی اللہ پر اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں حکومت سے کوئی توقع عبث معلوم ہوتی ہے اور شاید کہ شاید کی امید پر زندگی کی بقا اور ڈو ر سے بندھے ہوئے ہیں۔

قارئین کرام! یہ ہمیشہ سے ہماری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کو کوئی بھی کام کوئی بھی اقدام وقت سے پہلے یا وقت مقررہ پر نہیں کیا جاتا۔ کوئی بھی معاملہ یا مسئلہ ہو ہمیشہ کھیت کے چگنے کے بعد چڑیاں اڑانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور جب تک چڑیاں اڑتی ہیں بچا کچا کھیت بھی چٹ ہو چکا ہوتا ہے۔mismanagemnet کی انتہا دیکھئے کہ سڑکیں پہلے بناد ی جاتی ہیں اس کے بعد سیوریج کا نظام بچھایاجاتا ہے جس سے لاکھوں روپے کی مالیت سے بنائی گئی سٹرکیں ہماری ناقص پالیسیوں کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ سیوریج کے بعدمحکمہ ٹیلی فون کی آنکھ کھلتی ہے اور رہی سہی کسر وہ پوری کردیتے ہیں اور روڈز کو بری طرح سے ادھیڑ کر رکھ دیا جاتا ہے اور سیوریج کا ”غیر معیاری نظام گٹراں“ لیکج کا شکار ہوکر سٹرکوں کے ساتھ ساتھ گلی محلوں کو ”معطر و مطہر“کرنے کے علاوہ گھروں کا بٹھہ بٹھانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔

کسی بھی پروجیکٹ پر کام کرنا مقصود ہوتو چند”ماہرین“کی ”ماہرانہ رائے“ پر عمل درآمد کرادیا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر ”قابل و اہل “عزیز و اقربا یا چہیتے ہوتے ہیں کہ عام طور پر جنہیں پروجیکٹ کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی۔اور یہی وجہ ہے کہ بلڈنگز اور پلوں کے بنتے ہی یا دوران تعمیر گرنے کے واقعات کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیںاور نہ جانے کتنی قیمتی اور بے گناہ جانوں کی بھینٹ لے لیتے ہیں لیکن ان پر کبھی قتل یا اقدام قتل کے مقدمات تو دور کجا کہ ان کے نقصانات کو پورا کرانے کیلئے چاچے تائے بابے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیںاور مختلف نام نہاد کمیٹییاںکو نام نہاد انکوائریاں دے دی جاتی ہیں جن میں سے یہ قاتل دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیئے جاتے ہیںاور پھر کسی دوسرے پروجیکٹ کو مختلف نام کی کمپنی بنواکر نوازدیا جاتا ہے۔

رہی سہی کسر ملک میں مہنگائی کے عفریت نے پوری کردی ہے جوکہ منہ پھاڑے غریب اور معصوم عوام کو نگلتا جارہا ہے اور منہ ہے کہ بند ہونے کی بجائے مزید کھلتا ہی جارہا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی گرانی نے زندگی کی بقا اور جینے کی خواہش تک چھین لی ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک باپ اپنے دو بچوں سے خود کو مار لیتا ہے جبکہ ایک ماں اپنے تین بچوں سے پل سے کود کر خود کشی کرلیتی ہے ایک باپ اپنے دو ماہ کی بچی کو زندہ درگور کردیتاہے کہیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔ پٹرولیم کی قیمتوں کا آسمانوں سے باتیں کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ایک لمبے عرصے کے بعد پٹرولیم اور ڈیزل کی قیمتوں کی کمی کا تحفہ دیا گیا تھا لیکن عوام کی خوشی کچھ دن بھی نہ بھائی اور پھر سے قیمتوں میں اضافہ شروع ہوگیا۔

تو بات ہورہی تھی بے حسی اور مس مینجمنٹ کی کہ قلم کی روکسی اور طرف بہہ نکلی۔ بہرحال حکومت کی بدانتظامی اور غیر مربوط پلاننگ یہ حال ہے کہ کسی کو نوازنے کی خاطر یا کمیشن کے چکر میں نئی نئی بے سروپا سکیمیں متعارف کرادیتی ہے اور اگر کوئی سکیم بائی چانس عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کامیاب ہوجائے توپھر اس کو maintain رکھنا اور قابل عمل رکھنا حکومت و انتظامیہ کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے۔ سی این جی کی ہی مثال لے لیجئے حکومت نے ملک میںگیس کی قلت کا رونا روتے ہوئے سی این جی سٹیشنز کو مرحلہ وار بند کرنے کا پژمردہ سنادیا ہے کہ عوام کو کسی بھی طرح ریلیف نہیں دینا۔ پہلے سوچے سمجھے بنادھڑا دھڑ لائسنسز جاری فرمادئیے اور گیس جب استعمال میں آئی تو اس کی قلت کا ڈھنڈورا پیٹ دیا بالکل بجلی کی مانند۔ حالانکہ ملک میں گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیںلیکن چونکہ کمیشن ملنا محال نظر آتا ہے اس لئے اس سے استفادہ نہیں کیا جارہا ہے کمیشن کی مار کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کرنے سے کتراتی ہیں عالمی مالیاتی ادارے کے قرضے بھی ریلیف کی راہ میں رکاوٹ کی بڑی وجہ ہیں۔لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ اب سی این جی سے فیول کی مد میں جو ریلیف ملا تھا وہ بھی اب چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ۔صرف دعا کی جاسکتی ہے کہ یہ اونٹ کسی اچھی کروٹ بیٹھ جائے ورنہ........
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211669 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More