قطر عالم عر بی کا بظاہر ایک
چھوٹا ساملک ہے ، دنیا کے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ وہ کچھ اور نہیں ، نہ
ہی کوئی بڑی فوج اور دیوھیکل کا ر خانوں ،ملوں اور فیکٹریوں کا وہاں کوئی
وجود ہے ، ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لئے اس کا اتنا رقبہ ہی نہیں کہ اس پر
اس کا بنیادی سٹر کچر قائم کیا جائے ، لیکن پھر بھی اپنی قیادت کی بدولت نہ
صر ف عرب دنیا میں بلکہ مشرق ومغرب میں اپنا ایک شایانِ شان مقام رکھتاہے،
فلسطین ہو یا شام ،مصر ہویا لیبیا، تونس ہو یا یمن ،جہاں بھی بحران آئے ،حکومتیں
اور عوام مشکلات میں آگئیں ،امیر قطر نے وہاں ایسا تعمیری اور اصلاحی کردار
ادا کیا ، جس کی وجہ سے ان کے قد میں خاصا اضافہ ہوا، اسپین ،یونان ، اور
امریکہ تک کے ساتھ بعض مالیاتی گمبیھر مسائل میں تعاون کیا ،۔
پچھلے مہینوں امیر قطر نے شام کے انقلابی رہنماؤں کویکجا کرکے تمام اکائیوں
کا اتحاد بنایا ، اسی کے نتیجے میں وہاں ایک عبوری حکومت قائم ہو رہی ہے،
غسان ھیتو بطور وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں ، عرب لیگ میں شام کی معلق رکنیت
بحال ہوئی ہے،بروز منگل 26مارچ کوانقلابی اتحاد کے سربراہ احمد معاذ الخطیب
نے شام کی طرف سے اس سربراہ کانفرنس میں شرکت کی اور ایک تاریخی خطاب بھی
کیا۔
امیر قطر عرب دنیا کے وہ پہلے حکمراں تھے، جنہوں نے غزہ کے محاصر ے کو توڑ
کر وہاں کا تفصیلی دورہ کیا، اس کے بعد ملائشیا کے وزیر اعظم ،عرب وزرائے
خارجہ اور مصری وزیر اعظم ھشام قندیل قدم رنجا ہوئے۔
منگل کوہونے والے اس چوبیسویں عرب سربراہ کانفرنس میں عرب لیگ کی صدارت بھی
عراق سے قطر منتقل ہوگئی ہے ،گویا اب شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی امیر قطر کے
پاس عرب لیگ کے توسط سے پوری عرب دنیا کی قیادت بھی آگئی ہے۔
بالکل بجا امید کی جاسکتی ہے کہ وطن عربی موجودہ حالات میں مسائل کے جس آتش
فشاں پر کھڑاہے ،امیر قطر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار
لاکر ایک نجات دھندہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئینگے، عراق ،شام ،لبنان،
اردن ،فلسطین ، یمن ، مصر ،الجزائر اور صومالیہ سب ہی اندرونی بیرونی خانہ
جنگیوں ،لڑائیوں اور سیاسی بحرانوں کے زد میں ہیں،اسرائیل موجودہ حالات سے
بھر پور غلط فائدہ اٹھارہاہے، فلسطینیوں کی آبادیاں مسمار کرکے جدید یہودی
کالونیاں رات دن تعمیر کررہاہے، فلسطین جو حال ہی میں اقوام متحدہ کا مبصر
رکن بناہے، اسرائیل کو اقوام متحدہ کایہ فیصلہ منظور نہیں ہے ،گووہ ہمیشہ
سے بین الاقوامی برادری کے قرار داروں کو جوتی کے نوک پر رکھتا رہاہے، لیکن
حالیہ دنوں اس میں کچھ زیادہ ہی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
عرب لیگ بطور تنظیم بھی اصلاحات کا محتاج ہے، اس کی تشکیل نو اور فعالیت کی
ضرورت جتنی آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی ، یہ اس لئے بھی کہ او آئی سی ایک
مردہ گھوڑے کی طرح ہوگئی ہے ،اب اگر عرب لیگ کابھی یہی حال ہو تواہل اسلام
کھلے آسمان تلے رہ جائینگے ، او آئی سی کا خیمہ اگرنہ سہی تو عرب لیگ کی
چھتری تلے کم از کم عرب دنیا ایک میز پر بیٹھنے اور اپنے مسائل اور وسائل
شیئر کرنے کے تو اہل ہوں گے، لیکن جب عالم اسلام اور عالم عربی خود سے اپنی
قوت نہیں بنائینگے اور اپنے مسائل اور وسائل پر کنٹرول حاصل نہیں کرینگے ،
باہمی مربوط اور متحد نہیں ہوں گے ،تواقوام متحدہ اور اس کا سیکورٹی کونسل
’’مدعی سست گواہ چست‘‘ کیسے بنیں گے ، مدعی کوچست ہونا پڑیگا، گواہ بھی کچھ
نہ کچھ چستی دکھائے گا۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے: کہ وہ کسی کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ
اپنے آپ تقدیر کی تبدیلی کیلئے کوشاں نہیں ہوں گے۔
کیا خوب کہا ہے:
تواپنی سرنوشت اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ تقدیر نے تیری جبیں |