بد نظمی ہم پاکستانیوں کا بلکہ
جنوبی ایشیائی باشندوں کا طرہ امتیاز ہے یہ بدنظمی عین ٹورنٹو ایر پورٹ پر
پی آئی اے کے گیٹ سے شروع ہو جاتی ہے- پی آئی اے پاکستان انٹرنیشنل ایر
لاینز پاکستان کا قومی ایرلاین پاکستان کا نشان امتیاز جسکا نعرہ ہے
Great people to fly with
پی آئی اے کی داستان اور ہم پاکستانیوں کی داستان کا چولی دامن کا ساتھ
ہےیہ ایر لاین جو ایک زمانے میں اسقدر بام عروج پر تھی کہ بڑے بڑے لوگ اس
سے سفر کرنا باعث فخر سمجھتے تھے اسکی میزبانی اور عملہ لاجواب تھا، اسکی
خوراک دنیا بھر میں بہترین سمجھی جاتی تھی ،پچھلے دنوں فیسبک پر جیکولین
کینیڈی کی پرانی تصاویر تھیں جب اسنے پی آئی اے سے لندن سے نیویارک تک سفر
کیا تھا- - یہ جنہوں نے امارات ایر لاینز کی نشو ونما کی- اب ایمریٹس کہاں
جا پہنچی ہے کہ سب سے زیادہ یعنی آٹھ عدد ایر بس 380 جو اسوقت دنیا کا سب
سے عظیم الجسہ جہاز ہے وہ انہوں نے خرید لئے ہیں اور فرسٹ کلاس کے غسل خانے
واقعی غسل خانے ہونگے کیونکہ ان میں شاور لگائے جاینگے-پی آئی اے کو
اندرونی سازشوں اور اقرباء پروری نے الجھادیا اگرچہ یہ اب بھی ایک بہترین
ایر لاین ہے- ہمارے لئے اسکی ٹورنٹو سے بہترین سہولت اسکی اسلام اباد کی
براہ راست پرواز ہے جو ساڑھے 13، 14 گھنٹے میں پہنچ جاتی ہے اور سفر بغیر
کہیں اترے کافی آسان اور خوشگوار ہو جاتا ہے- آنے جانے کے اوقات بھی کافی
مناسب ہیں - پی آئی اے کے گیٹ پر جیسے ہی داخل ہوں یوں محسوس ہوتا ہے کہ
مادر وطن پہنچ ہی گئے ہیں اپنے جیسے لوگ، اپنی جیسی زبانیں ، ڈھیروں سامان
، پوٹلیاں ، حالانکہ بڑا سامان تو پہلے جاچکا ہوتا ہے - بھاگتے ، دوڑتے ،
روتے کرلاتے بچے -باہر ٹارمک پر کھڑا بوٰئنگ 777 پی آئی اے کے لوگو کے ساتھ
ہمارا منتظر ہے -اسے دیکھ کر یوں یک گونہ خوشی ہوتی ہے- بورڈنگ کے اعلان کے
ساتھ ہی ایک ہڑبونگ مچتی ہے سارے مسافر ایک ساتھ کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے
آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں ایسی ہڑبونگ اور بد نظمی کی عادت ان ممالک میں
ختم ہو جاتی ہے - مجھ سے یہ منظر برداشت نہیں ہوتا - کاؤنٹر پر کھڑے عملے
کے ایک اہل کار سے میں نے کہا" آپکو نشستوں کے حساب سے مسافروں کو بلانا
چاہئے یہ افرا تفری آپ دیکھ رہے ہیں؟ وہ عربی یا مقامی تھا کہنےلگا،" اس سے
کوئی فرق نہیں پڑیگا ہم پہلے اس طریقے کو آزما چکے ہیں لیکن اس سے کوئی
فایدہ نہیں ہوا"کیسے ہوسکتا ہے یہ لوگ ان ممالک میں رہتے ہیں اور یہاں کا
قاعدہ قانون جانتے ہیں" وہ جوابا خاموش رہا لیکن مجھے خود ہی جواب ملا کہ
ہم اپنی قومی ایر لاین کے ساتھ کتنے بے تکلف ہو جاتے ہیں یوں لگتا ہے ہم
تمام پابندیوں سے آزاد ہو گئے ہیں- اور ان مسافروں میں بہت سے ایسے لوگ نظر
آئے جو واقعی صرف پی آئی اے سے ہی سفر کر سکتے ہیں یعنی ہمارے سیدھے سادھے
پاکستانی النسل عوام -!
اسلام آباد ایر پورٹ پر وہی بےتکلفی اور بد نظمی امیگریشن کاؤنٹر پر بیرونی
ممالک میں کسی کی سرخ لکیر عبور کرنیکی ہمت نہیں ہوتی - یہاں بھی مجھ سے
آگے بڑھتے ہوئے ایک حضرت سے میں نے کہا " کیا آپ ٹورنٹو میں ایسا اکر سکتے
ہیں " اوہ نہیں جی میں تو بس ایسا ہی ذرا آگے ہوگیا"
سب سے برا تو یہاں کا بے ہنگم ٹریفک ہے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش
لینیں ہوتے ہوئے بھی لین کا کوئی تصور نہیں ہے اگر کوئی ٹریفک قوانین کی
پابندی کرے تو اللہ ہی حافظ وہ تو پھر منزل پر پہنچنا بھول ہی جائے- اسلام
آباد میں سیٹ بیلٹ کی پابندی ہے جسکو عموما لوگ حفاظت کم ، مصیبت زیادہ
سمجھتے ہیں- ایک مرتبہ لاہور جانا ہوا، میری دوست کی گاڑی مستقل ٹن ٹن
بولتی رہی کہ سیٹ بیلٹ لگالو لیکن انہوں نے بے اعتنائی برتی اور اسکی ایک
نہ سنی- اور راہگیر جہاں سے جی چاہے بے دھڑک سڑک عبور کر ڈالیں - حقیقتا
ایک بے خوف اور نڈراور بے صبری قوم ہیں ہارنوں کا شور گاڑیوں کا دھواں کیا
مجال ہے جو کوئی دوسرے کو آگے بڑھنے کا موقع دیدیں ؟ شمالی امریکہ میں ہارن
اسوقت بجایا جاتا ہے جب کوئی دوسرا ڈرائیور غلطی کرتا ہے بسا اوقت اسکو
کافی برا سمجھا جاتا ہے اور اکثر تو ہارن بجانے والے کو گولی کا نشانہ بنا
دیا جاتا ہے- یہاں پر ہارن اطلاع عام کے لئے ہے-
پھر کوڑے کرکٹ اورغلاظتوں کے ڈھیر کتنی دیر دو کاغذ سمیٹے سمیٹے پھرتی رہی
کہ شاید کوئی کوڑا دان ملے، پھر سوچا کہ یہ دو کاغذ اس کوڑے کے ڈھیروں میں
کتنا اضافہ کر سکتے ہیں - کاغذ تو ویسے بھی گل سڑ جاتا ہے - ہر طرف صفائی
کا عملہ جھاڑو لئے ہوئے ٹوکریاں پکڑے ہوئے پھرتا ہے لیکن صفائی، وہ کہیں
نظر نہیں آتی -" صفائی نصف ایمان ہے" کے بورڈ البتہ جگہ جگہ نظر آتے ہیںاور
عین اسکے نیچے کوڑے کا ڈھیر-- اور پھر جا بجا عماراتی ملبہ-- دور کیوں
جائیں ہمارے قریبی خلیجی ممالک نے اس کوڑے کرکٹ پر اتنی خوبصورتی سے قابو
پایا ہواہے جب ہر شعبے میں ہم ترقی یافتہ ممالک کی تقلید کرتے ہیں تو اسمیں
کیا امر مانع ہے اور یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہو پاتا ؟کراچی میں ایک زمانے
میں فاروق ڈی کمپوسٹ کے نام سے جدید ترین طریقے سے ایک کمپنی نے کام شروع
کیا ہمیں کالے بڑے والے پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے لئے دئے تھے - کافی اچھا
محسوس ہونے لگا تھا لیکن دو سال میں انکا جو حشر ہوا کہ بیچارے وہیں بھاگنے
پر مجبور ہوئے جہاں سے آئے تھے--گھر کا کوڑا باہر بھینک کر ہم مطمئن کیوں
ہوجاتے ہیں جبکہ یہاں روز کوڑا اٹھانے والے آتے ہیں لیکن وہ اٹھتا دکھائی
نہیں دیتا - اسوقت مجھے وہ ممالک بری طرح یاد آتے ہیں جہاں ہفتے میں ایک
روز کوڑے والی گاڑیاں آتی ہیں اور صفائی بھی ہفتے میں ایک مرتبہ ہوتی ہے
لیکن انکی صفائی کا معیار کتنا بلند ہے- انکے ویسٹ منیجمنٹ کا پورا ایک
شعبہ ہوتا ہے-
بہترین بازاروں اور عمارتوں میں اسقدر خوشنما اور پائیدار تعمیرات ہوئی ہیں
کنکریٹ اور ماربل کی ٹائیلیں لگی ہوئی ہیں لیکن جب اکھڑنا شروع ہوئیں یا
ٹوٹ پھوٹ کا شکار، تو کسی کو مرمت کا ہوش نہیںٹوٹی پھوٹی اکھڑی ٹائیلیں
اکھڑے فرش ٹوٹے گٹر ،بد بودار نالیاں اسکے حسن کو کسقدر داغدارکرتےا ہیں -
عوامی بیت الخلاء کا نام بھی مت لیجئے شرفاء خاصکر خواتین کے استعمال کی
جگہ تو ہر گز نہیں ہے بہترین ریسٹورنٹ میں چلے جایئے اور پھر اسکےغسلخانے
میں جاکر دیکھئے سارا پول کھل جائیگا اور عوام کے لئے اللہ کی زمین کشادہ
ہے- الحمدللہ کہ بیرونی فرنچائز میں ان لوگوں نے پھر بھی صفائی کا قدرے
معیار برقرار رکھا ہے -
ان عوامل کو نظر انداز کردیں تو پھر بھی ترقی جاری ہے ، ترقی ہو رہی ہے نئے
پل تعمیر ہورہے ہیں ،نیئ سڑکیں شاہراہیں بن رہی ہیں اور اعلی قسم کے مال،
تمام مشہور دوکانوںکے ساتھ بن رہے ہیں-ان تمام دہشت گردی کے ماحول اور
واقعات کا یہ قوم جس بہادری اور دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے وہ اپنی مثال آپ
ہے - دور سے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ تباہ و برباد ہے-لیکن اس ملک کو اللہ کی
ذات ہی چلا رہی ہے ورنہ سنا ہے کہ حکومت جاتے جاتے اربوں روپے نکال کر لے
گئی اسکے لئے خاص طور سے بنک کھولے گئے تھے - بے شمار ڈیوٹی فری گاڑیا ں
منگوائی گئی ہیں جو اونے پونے بک رہی ہیں-
اب انتخابات کی گھن گرج ہے --قوم کو" فاطمہ گل میرا قصور کیا" سے فرصت ملتی
ہے تو ہر طرف ایک بحثا بحثی چل رہی ہے اب یہ ترکی ڈراموں کی کیا دھن سوار
ہوئی ہے ساری قوم اسمیں الجھ گئی ہے جسکویہ سوجھی ہے خوب سوجھی ہے- کئی ایک
بڑے بڑوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں ، کئی ایک کو چیلنج کر دیا گیا
ہے ، اور جعلی ڈگریاں ،پرویز مشرف نے قوم کو یہ کس نئے عذاب میں مبتلا
کردیا ہے - بڑے آرام سے انگوٹھا چھاپ بھی وزیر بن جایا کرتے تھے اب بیچارے
ڈگریوں کے چکر میں الجھ کر رہ گئےاور نت نئی تد بیروں سے ڈگریاں حاصل کی
گئی ہیں - بھئی سیاست اپنی جگہ ، ڈگری اپنی جگہ -- ہمارے علاقے کے ایک
انگوٹھا چھاپ وزیر کا پرانا لطیفہ ہے کچھ منچلوں نے لکھ دیا " جناب والا
چاند تک سڑک کی منظوری دے دیں" انہوں ازراہ شفقت دستخط کرکے بقلم خود لکھ
ڈالا-
بجلی کی وہ صورتحال کہ بازاروں میں جنریٹروں کا اتنا شور کہ کان پڑی آواز
سنائی نہیں دیتی- یہی حال رہائشی مکا نات کا ہے ، جہاں یو پی ایس ہیں
تو خاموشی سے تبدیلی ہو جاتی ہے لیکن آدھے گھنٹۓ ہی میں ٹیں بول جاتے ہیں
اور ابھی پوری طرح گرمیاں بھی شروع نہیں ہوئیں اسلام آباد میں فی الحال تین
گھنٹے پر ایک گھنٹہ جاتی ہے لیکن ہر سیکٹر میں صورتحال مختلف ہے ابھی ابھی
لاہور کی خبر سنی ہے کہ سولہ گھنٹے بجلی غائب ہے یہاں کا تھنک ٹینک کہتاہے
کہ توانائی کا یہ بحران مصنوعی اور نا اہلی کا سبب ہے بجلی والے کہتے ہیں
کہ پاور ہاؤس کے پاس تیل کے پیسے نہیں ہیں - لیکن اللہ سے دعا ہے کہ سب سے
پہلے اس قوم مین نطم وضبط کی صلاحئیت اور سلیقہ آیے- اور ایک مخلص،
دیانتدار اور صادق حکمران آور حکومت آئے یہ تو ایک دعا ہے- حالانکہ ہم اسپر
بھی راضی ہیں کہ ایک کمتر درجے کی برائی بھی برا انتخاب نہیں ہے- |