بے کار لوگ جب کو ئی عام و خاص
شغل فرماتے ہیں تو اُسے بے کاری کہا جاتا ہے لگتا ہے اب ہمارے پاکستان میں
بے کاری اتنی عام ہو چُکی ہے کہ ہر شہر کی گلی محلوں میں اسے عام دیکھا جا
سکتا ہے بے کاری کی کو ئی خاص تنظیم نہیں ہے مگر اس بے کاری کے شغل میں
شامل ہونے کے لیے بے روزگار ہونا ضروری ہے ۔کہتے ہیں کہ اگر بیوقوف نہ ہوتے
تو عقلمند کہاں سے کھاتے مگر اب تو بڑے سے بڑے عقلمندوں کو بے روزگاری نے
ناکوں چنے چبوا دیا ہے ۔دن بدن بڑھتے ہوئے جرائم لوٹ مار ڈاکہ زنی ،قتل
وغارت ،دہشت گردی کے پیچھے زیادہ وہی لوگ شامل ہیں جہنوں نے اس بدنام ،برائی
کی راہ پر چلنا اس لیے قبول کیا کیونکہ معاشرے نے انھیں قبول کرنے سے انکار
کر دیا کیونکہ وہ بے روزگار تھے بڑی بڑی نامور ڈگریاں لینے کے باوجود جگہ
جگہ عرضیا ں بھیج بھیج کر مختلف شہروں میں دھکے دھکے کھا کھا کر تنگ ا ٓکر
بے روزگار نوجوان جرم کے رستے پر چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ماں باپ کیا
کیا اُمیدیں لے کر اپنی اُولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں مگر
اُس تعلیم کی قدر جوتوں کو گھسا گھسا کر بھی نہیں ملتی ۔دنیا میں غربت اور
مُفلسی سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں ۔پیٹ جب بھرا ہوتا ہے تو دنیا بڑی حسین
لگتی ہے مگر جب یہ خالی ہوتا ہے تو آنکھوں کی رونق معدوم ہو جاتی ہے زندگی
ایک پل میں مُرجھا جاتی ہے وقت سانپ بن کر ڈستا ہے دنیا کی رنگینی زہر کی
طرح لگتی ہے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور انسان کا ایمان بھی ڈگمگا جاتا ہے ۔ماں
باپ یہی سوچ کر اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اُولاد کو پڑھاتے ہیں کہ ایک دن وہ
اپنے ماں باپ کو سُکھ دیں گئے مگر شاید سُکھ تو نصیب والوں کا ساتھی بن گیا
ہے کیونکہ دُکھ تو بے روزگاروں کا ساتھی ہے اور یہی دُکھ نا چاہتے ہوئے بھی
اپنے والدین کو دینا پڑتا ہے ۔بہنوں کی شادی ،جہیز اور ماں کی بیماری کا
علاج بے روزگار نوجوان کہاں سے کرے گا اس لیے سوائے وہ خودکشی کے اور جُرم
کے راستے کے سوا کو ئی راستہ چُنتا ہی نہیں کیونکہ وہ خود کو ایک بند گلی
میں دیکھتا ہے کہتے ہیں انسان کو اُمید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے
دینا چاہیے مگر ہمار ے نوجوان کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے مُجھے ڈر ہے
کہیں وہ دن نہ ا ٓجا ئے کہ یہی بے روزگار نوجوان ایک لاوا بن جائے اور جب
یہ لاوا پھٹے گا تو کچھ بھی نہیں بچے گا اس لیے اے حکومت کرنے والوں خدا سے
ڈرو ااور اس مُلک کے بے روزگار نوجوانوں کا سوچوں میں کہتا ہوں آدھے جرم
ختم ہو جائئں گئے جب نوجوان بے روزگار ہونا بند ہو جائیں گئے ہمارے نوجوان
برے نہیں انھیں حالات نے بددل اور دلبرداشتہ کر دیا ہے ۔ہمارے پڑھے لکھے
نوجوان ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں مگر ہم اس اثاثے کی قدر اسے جگہ جگہ پامال
کر کرکے دے رہے ہیں اگر یہ حکومت کرنے والوں کی آج ہی نیت ٹھیک ہو جائے تو
ان کے لیے بے روزگاری پر قابو پانا کچھ مُشکل نہیں مگر افسوس مسلۂ تو نیت
خرابی کا ہے صرف اپنے پیٹ کی فکر لگی ہوئی ہے اب تو میرا میرے ہم عمر
نوجوانوں کو مشورہ یہ ہے کہ بجائے جگہ جگہ رُسوا ہونے کے کوئی ہنر سیکھ لو
اور پھر کچھ پیسے مل جایئں تو اُس سے کاروبار کر لو کیونکہ یہی اب ہمارے بے
روزگار نوجوانوں کے لیے بہتر ہے کیونکہ اب کوئی ایسے جھوٹی موٹی اُمید
دلائی نہیں جا سکتی کہ جس سے ہمارے نوجوان اپنے وقت کا ضیاع کریں اور اپنی
اُمید یں اُن لوگوں سے لگا لیں جو صرف سیاسی بیان دینے کے سوا کچھ نہیں کر
سکتے تعلیم اور علم کبھی رائیگا ٰں نہیں جاتے جہالت کی ذلت سے با علم ہونا
اﷲکی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کو کو کچل کر بُرے رستوں کو انتخاب کبھی
نہیں کرنا چاہیے جس خدا نے پیدا کیا ہے اُس خدا نے ہر ایک کا رزق بھی لکھ
دیا ہے اور خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہو نا چاہیے اقبال نے نوجوان کو
ایسے ہی تو شاھین نہیں کہ دیا اور شاھین کی پرواز بلند ہوتی ہے اس لے ہمارے
وطن کے پڑھے لکھے اچھے نوجوانوں کو خاطر جمع رکھنی چاہیے اور نیک شگون
اُمید پر اپنی محنت کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ ہر ایک تاریک رات کے بعد
صبح کا خوبصورت اُجالا ضرور منتظر ہوتا ہے ۔ |