مرد کی شان گالی کیوں؟

معاشرہ جہاں مختلف اخلاقی برائیوں کا شکار ہے وہیں روز مرہ زندگی میں گالیوں کی بہتات ہوتی جا رہی ہے جسے دیکھو اپنا غم و غصہ گالی کے ذریعے نکالنے کی کوشش کرتاہے اس غلیظ گالیوں کا سلسلہ صرف ان پڑھ طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں پڑھے لکھے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں انتہائی افسوسناک امر ہے ہم کلمہ گو ہو کر اتنے غلیظ بن کر اپنے ہی مسلمان بھائی یا بہن یا کسی بھی رشتے یا کوئی بھی انسانی رشتے کو سر عام گالی نکال رہے ہوتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں اس گالی کا اثر کسی پر نہیں بلکہ اپنی ہی ذات پر ہو گا حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ کسی کے ماں باپ کو گالی نکالنا دراصل اپنے ہی ماں باپ کو گالی نکالنا ہے -

یہ ہماری اخلاقی پستی صرف ہمیں ہی برباد نہیں کرتی بلکہ ہماری نسل کو بھی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس طرح ہمارے بچے گھر میں گالی گلوچ دیکھ کر وہ بھی گالی گلوچ بولنا شروع کر دیتے ہیں ہماری خواتین کو بھی اس معاملے میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ بچوں کو ڈانٹنے کے لیے کبھی گالی کا سہارا نہ لیں ورنہ وہی گالی آپ کا بچہ بن جائے گا ۔حد سے زیادہ ظلم تو یہ ہے کہ غصے میں ہم اتنی گالیاں نہیں نکالتے جتنی ہم مذاق میں نکال جاتے ہیں جیسے مرد حضرات جو اپنے دوست و احباب کے ساتھ کافی بے تکلف ہوتے ہیں ایک دوسرے سے مذاقا گالیاں نکالنے میں بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیاد ہ تر گالیاں بسوں کے ڈرائیور حضرات یا پھر کنڈیکٹر اور مزدور لوگ زیادہ نکالتے ہیں اور سر عام گالی گلوچ کرتے ہیں چاہے اُن کے آس پاس جتنی ہی خواتین کیوں نہ ہوں آخر مرد کیوں گالی نکالنا اپنی شان سمجھتا ہے کیوں وہ بھول جاتا ہے کہ گالی نکالنا دراصل اُس کی اخلاقیات کی موت ہے -

آج تک اس معاملے میں عوام کو شعو ردلانے کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا یہاں تو پھر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ہم کس کس کو دوش دیں گئے ہم سب ہی قصور وار ہیں کیونکہ اگر ہم گالی نہیں بھی نکالتے تو مزے مزے سے سن کر ضرور اپنا شوق ضرور پورا کرتے ہیں خدارا اس مکروہ اور قبیح قسم کی شرمناک اور ذلت آمیز حرکت سے ہم جتنا بچ سکیں اُتنا ہی ہمارے لیے اور ہمارے خاندان اور معاشرے کے لیے ضروری ہے -

انسان اگر انسان بن کر ہی رہے تو زیادہ اچھا گالی نکالنا دراصل ہمیں جانوروں سے بھی زیادہ بڑ ا جانور بنا دیتا ہے اور اس میں مرد کی شان نہیں بلکہ رُسوائی اور شرمندگی ہے اور یہی کہ معاشرے میں ہمار ا اس سے بڑھ کر کوئی احسان نہ ہو گا کہ ہم خود کو ہی سنوار لیں-
BabarNayab
About the Author: BabarNayab Read More Articles by BabarNayab: 26 Articles with 24413 views Babar Nayab cell no +9203007584427...My aim therefore is to develop this approach to life and to share it with others through everything I do. In term.. View More