پاکستانی ثقافت اپنے اندربہت
وسعت رکھتی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ پاکستان کے تہوارہیں جس نے لوگوں کوایک
دوسرے کے بہت قریب کررکھا ہے۔ پاکستان میں بہت سے تہوار منائے جاتے ہیں جن
میں عیدالفطر ، عیدالاضحی، عیدمیلادالنبی ، شبِ برات قابل ذکرہیں۔
عیدالفطر رمضان کے آخر میں یعنی یکم شوال کومنائی جاتی ہے۔ اس تہوار
پرحکومت کی طرف سے پورے ملک میں چھٹیاں دی جاتی ہیں تاکہ لوگ اِس خوشی کو
جوش وخروش سے مناسکیں۔
عیدالاضحی اسے بڑی عیدیابقرعید بھی کہاجاتا ہے۔ ےہ دس ذی الحج کومنائی جاتی
ہے یہ عید حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کی یاد دِلاتی ہے۔
عیدمیلادالنبی یہ آپ کی ولادت کادن ہے جو 12ربیع الاول کومذہبی جوش وخروش
سے منایاجاتا ہے۔ اس دن ملک کی تمام مساجد میں محافل ومیلادکاانعقادکیاجاتا
ہے۔
شبِ برات یہ 14 شعبان کومنائی جاتی ہے ۔ اِس رات تمام لوگ اللہ تعالیٰ کے
حضور سجدہ ریز ہوکر اپنے تمام پچھلے گناہوں کی بخشش و مغفرت مانگتے ہیں۔اِن
کے علاوہ پاکستان میں اوربھی بہت سے تہوارمنائے جاتے ہیں جوکہ پاکستانی
ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔
شندورپولوفیسٹیول: اِس تہوارکومنانے کےلئے کوئی قومی چھٹی نہیں دی جاتی
لیکن پھر بھی ہزاروں کی تعداد سیاح اس تہوارکومنانے پاکستان اور دوسرے
ممالک سے آتے ہیں۔
ہارس اینڈکیٹل شو: یہ تہوار مارچ کے آخری ہفتے میں شروع ہوتا ہے اور اپریل
کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔ یہ تہوارعموماً ڈیرہ اسماعیل خان اور اِس کے
گردونواح میں منایاجاتا ہے۔ جس میں مقامی کھیلوں ، فوک، ڈانسرزموسیقی،
اُونٹوں کی دوڑ اورمقامی دستکاریوں کی نمائش کی جاتی ہے۔
نوروزفیسٹیول: جو محض ہنزہ، گلگت، سکردو، چترال میں منایاجاتا ہے۔ نوروز
فنکشن اپنے لحاظ کاایک منفردفنکشن ہے جس میں اِن علاقوں کے لوگ فٹبال، والی
بال، پولواورہاکی میچز کے اِنعقاد کے ساتھ فوک اورعلاقائی موسیقی کابھی
انتظام کرتے ہیں۔
کبڈی: یہ بہت سستاتہوار ہے یہ تہوار زیادہ ترگاؤں میں منایاجاتا ہے۔ شہروں
میں بھی اِس کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ تہوارشہر، گاؤں دونوں میں مشہور ہے۔
بسنت کوموسمی تہواروں میں شاہی تہوار کی حیثیت حاصل ہے۔ اِس تہوار کی آمد
سے دوہفتے قبل ہی پتنگوں کی دوکانوں کوبناسنوار کر تیار کرلیا جاتا ہے۔
بسنت کے دن سے قبل کی رات کوبھی روشن پتنگوں کو فضا میں اُڑانے کاعمل رات
رات بھرجاری رہتاہے۔ یہ ایساجشن ہوتا ہے جس کی مثال لاہور کے علاوہ دنیا
میں اورکہیں نہیں ملتی ۔اندرون شہر سے باہرحقیقت رائے کی سمادھی بھی پتنگ
بازی کابڑامرکز ہے جہاں اِردگرد کے دیہات کے رہنے والے دن بھرجمع رہتے
اوراِس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جشن آزادی یہ 14 اگست کوپورے پاکستان میں جوش وخروش سے منائی جاتی ہے ۔مساجد
میں خاص طور پر ملک و قوم کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
ضروری یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں تہوار کس حد تک ذوق وشوق سے منائے جاتے
ہیں اور انہیں منانے والوں کی کیاتعداد ہے؟ ضروری یہ ہے کہ پاکستان آخر
اپنے قومی تہوارمنانے میں اِس قدرپیچھے کیوں چلاگیا ہے۔
ساری دنیا اپنے جشن وآزادی کوبڑے اہتمام سے ناصرف مناتی ہے بلکہ اِن
تہواروں کے ذریعے لوگوں کے ٹیلنٹ کو بھی آگے لایا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ
سالوں میں آنے والی حکومت کی کرم نوازی کی وہ اِن تہواروں پر توجہ ہی نہیں
دے رہی۔
پاکستان ثقافتی تہوارحکومت کی نظراندازی کاباعث بن رہی ہے۔ لیکن جن تہواروں
کو منایاجارہاہے اِنہیں بھی بے حدمحدودپیمانے تک اپنایا جارہاہے اور اُن کی
جگہ آہستہ آہستہ اُن مغربی تہواروں نے لے لی ہے۔ ہماری ثقافت کونظرانداز
کرکے جدید رحجانات کی طرف بڑھاجارہاہے جو بے فائدہ ہے جوہماری ثقافت کاحصہ
بن چکاہے۔
ایک وقت تھا جب برصغیر میں مسلمانوں اورہندوؤں کاکوئی تنازعہ نہ تھا۔ عید
ہویاہولی ،دیوالی ہو یاشبِ برات۔ ہرایک جشن خوب منایاجاتا تھا اور نہ صرف
منایاجاتاتھا بلکہ ہرطرف رنگ ہی بکھرجایاکرتے تھے لوگوں کے پاس کھانے کوکچھ
ہویا نہیں لیکن تہوار آتے ہی تہواروں کے رواج اور شکن سجنے لگتے تھے پھر نہ
جانے کیاہوا کہ عید مسلمانوں کی ہوگئی اورہولی ہندوؤں کی ہوکررہ گئی۔ ملک
تقسیم ہوئے تودل بھی تقسیم ہوگئے۔ لہراتاجھومتا آسمان بھی نفرتوں میں بٹ
گیا۔ مشرقی بنگال اورمغربی بنگال ایک دوسرے کے رواجوں کومناتے رہے لیکن یہ
سماں بھی قدرت کومنظورنہ آیا کہ 1971کی جنگ ہوئی اور شیرازہ پھر سے بکھرگیا
اوریہ تقسیم توتقسیم تھی کہ جس نے دل ہی نہیں سب کچھ ہی الگ کرڈالا۔ لوگ
تہذیب رواج سب ہی اپنے اپنے ہو کر رہ گئے۔
مسلمان، مسلمان نہ رہا سندھی بلوچی پشتون بن کر رہ گیا۔ اب ہرجگہ اپنے رواج
ہیں اپنی تہذیبیں ہیں۔ سندھ کاملک سندھ ہے سندھ کا مسئلہ بھی سندھ کا ہے۔
پنجاب اپنے رونے روتا ہے پھر کیسی عید کیساتہوار جہاں ہرسال عید کے چاند پر
جھگڑا ہوجہاں آدھے مسلمان ایک دن عیدمناتے ہیں اورباقی آدھے اگلے دن۔
حکومت کو اِس طرز پردوبارہ سے اہمیت دینی چاہیے تاکہ لوگ اِس طرف متوجہ
ہوسکیں اورہم اورآنے والی نسلیں ہماری ثقات کو سمجھ سکیں۔ ایسے کئی علاقے
ہیں جہاں مقامی تہوار تومنائے جاتے ہیں لیکن وہاں تہواروں کی بجائے تہواروں
کی اہمیت وافادیت کی بجائے توہم پرستی بڑھ رہی ہے حکومت کوچاہیے کہ اپنے
علاقوں کے تہواروں کو نہ صرف محدودپیمانے پر کرنے کی اجازت دے بلکہ لوگوں
میں حدسے بڑھتی توہم پرستی کوختم کردے۔
ایسے کئی تہوارہیں جنہیں اگرحکومت اپنی سرپرستی میں لے اوراِن کے لئے
بہترین انتظام کرے تو ناصرف ہم اپنی صحیح ثقافت کو پروموٹ کرپائیں گے بلکہ
اِس کے ساتھ ساتھ یہ تہوار سیاحوں کےلئے بھی دلچسپی کاباعث بنیں گے جواَب
تک صرف حکومتی غفلت کاشکار بنے بیٹھے ہیں۔ |