تقریباً 7 ماہ پہلے کی بات ہے
روز مرہ کی ڈاک میں ایک شادی کارڈ موصول ہوا۔ کھولا تو خوشی ہوئی۔ ایک
دیرینہ دوست کا شادی کارڈ تھا۔ خوشی اس لیے ہوئی شادی میں بہت تاخیر ہوچکی
تھی کئی بار اصرار کیا لیکن موصوف کو رشتہ پسند نہیں آتا تھا اگر کوئی پسند
آتا بھی تو لڑکی مالدار نہیں کیونکہ لڑکی کے ساتھ مال و دولت بھرپور جہیز
اور بھرپور حسن موصوف کی اشد ضرورت تھی۔ شادی کارڈ دیکھتے ہی محسوس ہوا کہ
من اور تن کی خواہشیں پوری ہوگئی ہیں اس لیے شادی کا اعلان ہوگیا۔ اپنی شب
و روز مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکا اب کوئی سات ماہ کے بعد ایک ہدیہ
کے مبارک باد کیلئے جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حیرت انگیز طور پر وہاں
ماحول نہایت برعکس پایا۔ موصوف کی اہلیہ ایک بڑے گریڈ کی گورنمنٹ ملازمہ
تھیں۔ درد بھرے انداز میں جب اپنی درد بھری کہانی سنائی تو اس کا پہلا کلمہ
یہی کہا چونکہ میں خبیث تھا اس لیے میرے لیے خبیث بیوی کا انتخاب ہوا اور
وہ خبیث نہیں بلکہ خود خباثتیں بھی وہاں آکر پناہ مانگیں۔ مجھے تھپڑ مارے
گھر میں کتے کی کوئی حیثیت ہو میں کتے سے بھی بدتر حیثیت رکھتا ہوں۔ بس اس
گھر میں زندگی کے دن پورے کررہا ہوں۔ نفسیاتی ڈاکٹروں کو دکھا دکھا کر تھک
گیا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اگر تو نے اس عورت کو نہ چھوڑا نیم پاگل تو
توہوچکا ہے مکمل ہونے کے قریب ہے۔ موصوف نے نشست بدلی بھرپور ٹھنڈی سانس لی
اور روہانسی آواز میں بیڈ کے درازسے ہاتھوں میں مٹھی بھر گولیوں کے پیکٹ جو
کہ سب کے سب اینٹی ڈیپریشن تھے لیکر کہنے لگے کہ بس دن رات یہ گولیاں کھاتا
ہوں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ اس کو طلاق کیسے دوں؟
میں یہ ساری باتیں دیکھتے ہوئے اپنے دوست کے پہلے فقرے کو کہ چونکہ میں
خبیث تھا قرآنی فیصلہ ہے کہ خبیث کیلئے خبیث کا انتخاب ہوگا۔ میرا ذہن اس
شخص کی زندگی کے دن رات کو سوچنے لگا کیونکہ میں اسے گزشتہ 30 سال سے بہت
قریب سے جانتا ہوں۔ شاید ہی کوئی دوست ایسا ہو جو اس کی مکاری عیاری فریب
اور داغے سے محفوظ رہا ہو۔ جھوٹ بولنا اس کیلئے ایسے ہے جیسے پیاسا ٹھنڈا
پانی پیتا ہے۔ہر وہ شخص چاہے اس نے اس کو ستایا ہو یا نہ ہو خاص طور پروہ
لوگ جن لوگوں نے اس کے ساتھ بھلا کیا‘ بھلے کا صلہ دینا میرے اس دوست کے
ذمہ ہے کسی بھی تدبیر سے اس کو نقصان ضرور پہنچایا جائے۔ اس کا ذرخیز ذہن
ہر وقت یہی سوچتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی اس
کے اندر احساس نام کی چیز نہیں تھی۔ کیونکہ احساس اور ضمیر کا جنازہ وہ
سالہا سال پہلے پڑھ چکا تھا اب تو احساس اور ضمیر کی قبر بھی بوسیدہ ہوگئی
ہے شاید اس قبر کا نشان بھی مٹ گیا ہو۔ مجھے چونکہ جلدی تھی میں نے اور بہت
سے کام نمٹانے سے لیکن وہ مجھے بار بار اپنی درد بھری کہانی سنانے پر مصر
تھا میں نے اجازت چاہی تو کہنے لگا اچھا چونکہ آپ سفر میں ہیں کل کا دن
تھوڑا سا وقت مجھے ضرور دیں شاید میرے غم کا کوئی علاج آپ کے پاس ہو کیونکہ
آپ کا سارا دن انہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ میں نے انہیں اعمال اور اچھے
اخلاق کی تلقین کی اور کثرت سے استغفار کا عرض کیا۔ واپسی پر میں سوچتا رہا
کہ ہم کسی کو دکھ دے کر یا کسی کا مذاق اڑا کر اور اس کی غائبانہ تذلیل
کرکے آخر اپنے انجام کو کیوں بھول جاتے ہیں ہاں اب بھی توبہ کے دروازے کھلے
ہیں اللہ سے استغفار کرکے توبہ کرلیں۔ وہ کریم بھی ہے اور رحیم بھی۔ |