ملک محمد پرویز
ترقی بلوچستان پاک فوج کا قابل ذکر ہدف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں پاک
فوج بلوچ عوام کی پسماندگی دور کرنے کے حوالے سے متعدد کام کر رہی ہے۔ یہاں
پر سکول، ٹیکنیکل تربیت کے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ لوگوں کو روزگار سے
وابستہ کیا گیا۔ پاک فوج کی کوشش ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنا
کر روزگار سے وابستہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ پاک فوج بلوچستان میں بہت سے
بڑے پراجیکٹس جیسا کہ کوسٹل ہائی وے، گوادر کی بندرگاہ، بلوچ نوجوانوں کی
فوج میں بھرتی، تعلیمی ادارے اور صحت کی سہولیات مہیا کرنے جیسے اقدامات کر
رہی ہے۔ پاک فوج بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہے اور چاہتی ہے کہ یہاں کے لوگ
خوشحال ہوں، ترقی کریں اور ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ترقی میں شانہ بشانہ
شامل ہوں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بلوچستان کے معاملات میں خصوصی
دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ بلوچ عوام کو معاشی طور پر بہتر مواقع فراہم کیے جا
سکیں۔ اس مقصد کےلئے پاک فوج میں 2009ءسے 2011ءکےلئے بلوچستان کے نوجوانوں
کےلئے 10ہزار آسامیاں اور پھر 2012ءمیں 5ہزار مزید اضافی آسامیوں کا اعلان
کیا گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر 10082 بلوچستان کے نوجوانوں نے پچھلے تین
سال کے دوران پاک فوج میں افسروں اور جوانوں کے طور پر شمولیت اختیار کی۔
بلوچستان میں پاک فوج کے تعلیمی اداروں کے قیام کے سلسلے میں 9اقدامات قابل
فخر ہیں جن میں ملٹری کالج سوئی بلوچستان کا قیام، بلوچستان پبلک سکول سوئی،
کوئٹہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، چمالنگ
بنیفیشری ایجوکیشن پروگرام، پاکستان آرمی ایجوکیشنل کنٹری بیوشن بلوچستان،
بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، آرمی انسٹیٹیوٹ آف
مائینرالوجی(AIM)اور وزارت تعلیم بلوچستان کی معاونت شامل ہیں۔ 2008ءکے
زلزلے میں پاک فوج کی امداد و بحالی کی کاوشیں تاریخ کا روشن باب ہیں۔ سوئی
میں پاک فوج کی طرف سے گیس پانی کی مفت فراہمی اور 50بیڈ کے ہسپتال کی
تعمیر بھی قابل ذکر ہے۔ اسی طرح قائد اعظم کی ریذیڈنسی کی تزین و آرائش بھی
کی گئی ہے جبکہ 2010ءکے سیلاب میں بھی پاک فوج نے امداد اور بحالی کی
کامیاب کاوشوں کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ چمل لنگ، موسیٰ خیل اور ڈوکی کی کول
مائنز کو فعال کرنا، کاسہ ہل ماربل پراجیکٹ، پنجگور میں کھجوروں کے باغات،
گریژن اینڈ موسیٰ سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر پاک فوج کی طرف سے بلوچستان کی
ترقی میں فعال کردار کا اہم ثبوت ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاک فوج کی طرف سے
عوام کو صحت کی مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے بڑے پیمانے پر فری میڈیکل
کیمپوں کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع
کیے گئے ہیں۔ کولہو اور نصیر آباد ڈویژن میں بھی کئی ترقیاتی منصوبے شروع
کیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں روڈ نیٹ ورکس کی ترقی کےلئے بھی پاک فوج معاونت
کررہی ہے جبکہ یوم پاکستان بلوچستان میلہ کا انعقاد اور بلوچ نوجوانوں کی
پاک فوج میں شمولیت لائق ستائش ہیں۔
صوبہ بلوچستان کا کل رقبہ 34.72 ملین ہیکٹر ہے جبکہ آبپاش زیر کاشت رقبہ
580695 ہیکٹر ہے جس پر مختلف اقسام کی فصلیں اور پھلدار درخت لگائے گئے ہیں۔
اس کا کل رقبہ کا 58843 ہیکٹر رقبہ مختلف اقسام کے سرمائی پھلوں کے زیر
کاشت ہے۔ اس رقبہ سے پھلوں کی پیداوار فی ہیکٹر 9982 کلو گرام ہے جو کہ
دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں یہ پیداوار بہت ہی کم ہے۔
صوبہ بلوچستان کی زرعی زمینیں بنیادی طور پر تیزابیت کی حامل ہیں۔ نصر زرعی
مرکز مسلم آباد کے انچارج عنایت اللہ کاکڑ کے مطابق بلوچستان کی زمینوں میں
تیزابیت یعنی پی ایچ سات اعشاریہ آٹھ فیصد سے زیادہ ہوتی ہے جس کی بنیادی
وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی زمینوں میں چونے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس
کے نتیجے میں پھلدار پودے ضروری غذائی عناصر کبیرہ اور عناصر صغیرہ اچھی
طرح حاصل نہیں کرپاتے جس کے نتیجے میں سیب اور آرڑو میں عناصر صغیرہ کی کمی
واضح طور پر دیکھنے میں آتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ سیب اور آرڑو
کے درختوں کی ٹہنیوں پر پیلاہٹ دیکھ کر کیا جاسکتاہے۔
بلوچستان کی پختون پٹی باغات میں اپنا ثانی نہیں رکھتی جبکہ بلوچ پٹی کا
فصلات کے حوالے سے جواب نہیں ہے۔ نصیر آباد ڈویژن بلوچستان کا اناج گھر ہے
جوکہ صوبہ بلوچستان کی 48 فیصد گندم، 17 فیصد جو، 100 فیصد چنا، 97فیصد
مٹر، 97فیصد چاول، 72 فیصد جوار، 56 فیصد تل، 36فیصد گنا اور 95 فیصد کپاس
پیدا کرتا ہے۔ یہ ڈویژن چار ضلعوں پر مشتمل ہے جعفر آباد، نصیر آباد، جھل
مگسی اور بولان۔ جغرافیائی طور پر نصیر آباد ڈویژن 1.695 ملین ہیکٹرز پر
مشتمل ہے جس میں سے 0.695 ملین ہیکٹرز کاشت شدہ رقبہ ہے۔ ہر سال اندازاً 4
لاکھ ہیکٹرز رقبہ پر کاشت ہوتی ہے اس کے علاوہ تین لاکھ 77 ہزار ہیکٹرز
رقبہ ایسا ہے جسے ضروری سہولتیں فراہم کرنے اور ٹھیک کرنے سے قابل کاشت
بنایا جاسکتا ہے۔ نہری پانی میں اس وقت 4.22 لاکھ ہیکٹرز رقبہ کاشت کرنے کی
گنجائش ہے۔ نصیر آباد ڈویژن میں ذریعہ آب پاشی دو نہروں پٹ فیڈر اور کیرتھر
نہر کے ذریعے ہے یہ دونوں نہریں دریائے سندھ سے نکلتی ہیں اور پورے نصیر
آباد ڈویژن کو آباد کرتی ہیں۔ |