ہیلو ! ....جی .... آپ کے لئے
افسوس ناک خبر ہے....کیا....آپ کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے۔
ہیلو ! ....جی ....ایمر جنسی کا م ہے.... مجھے جلدی سے فلاں جگہ ملو....
ہیلو.... جی.... طلاق .... طلاق .... طلاق
اس سے ملتے جلتے جملے آپ کو یکم ” اپریل فول “ پر سننے کو ملیں گے۔ جب اس
خبر کی تحقیق کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ جی اپریل فول منا رہے تھے۔
حالانکہ کسی شخص کے مذا ق سے دوسرے پر مصیبت کا پہاڑ گر پڑتا ہے۔ بعض لوگ
اپریل فول مناتے ہوئے اولاد کو عاق کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کے کئی اپریل فول
لڑائیوں کا سبب بھی بن گئے۔ بعض نے تو اس مذاق سے کمزور دلافراد کی جان تک
لے لی۔ بعض لوگ اپریل فول مناتے ہوئے اپنے جیون ساتھی کو طلاق دے دیتے ہیں
۔ جب وہ پریشان ہوتی ہے تو پھر اقرار کرتے ہیں کہ میں تو اپریل فول منا رہا
تھا۔ مسلمانوں کی مت ہی ماری گئی ہے۔ یہ مغرب کی نقالی کو باعث فخر سمجھنے
لگے ہیں۔ ان کی رسومات پر جان فدا کرتے نظر آتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں
طلاق کے متعلق فرمان ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس طرح سے ہے۔”
تین چیزیں ایسی ہیں جو دل کے پختہ ارداہ سے جائیں یا مذاق سے وہ (ہر صورت )
واقع ہو جاتی ہیں (1) نکاح (2) طلاق (3)رجوع (ابو داﺅد)
آج ہم اس بات کو یکسر بھول چکے ہیں کہ احکام شریعت پر ہم نے عمل پیرا ہونا
ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب لفظ مسلمان کا ہم پر اطلاق بھی مشکوک نظر آنے
لگا ہے۔ آج کے نام نہاد روشن خیال مسلمان غیروں کے رسوم و رواج ، طور
طریقوں ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کو اپنا کرخوش ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے ان
کا رشتہ منقطع ہو چکا ہے۔ جب انہیں اللہ کا قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان سنایا جائے تو جواب ملتا ہے۔ جی! دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے
اور آپ وہی چودہ صدیاں پرانی باتیں لے کر بیٹھے ہیں۔ یہ آج کے نام
نہادمسلمان ہیں ۔ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تھا” ایک دن وہ بھی آئے گا کہ تم ضرور باالضرور سابقہ قوموں کے طریقوں پر
چل پڑو گے( جن پر اللہ کا غضب ہو) وہ اگر ایک ہاتھ بڑھیں گے تو تم ان کے
پیچھے بڑھو گے۔ا گر وہ سانڈے کی بل میں داخل ہوں گے تو تم بھی ان کے پیچھے
اس سوراخ میں داخل ہو جاﺅ گے(مشکوة) اسی سے ملتی جلتی صورت حال آج کے نام
نہاد مسلمانوں کی ہے۔ جن کے بارے میں شاعر کہتا ہے ۔
وضع میں انصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ٓآج ہم نے غیروں کے طور طریقوں پر چل کر اسلامی احکامات کو پاﺅں تلے روند
دیا ہے۔ اسلام سے بے وفائی کی ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر حقیقی
کامیابی کو بھلا دیا ہے وہ دین کہ جو سرچشمہ ہدایت بن کر نازل ہوا تھا ۔
اسے پس پشت ڈال دیا ۔ آج دین کی حالت یہ ہے ۔
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباءہے
نام نہاد روشن خیال مسلمانوں میں ویسے تو غیر مسلموں کی کئی رسومات سرایت
کر چکی ہیں۔ جن میں ایک اپریل فول (یعنی اپریل کو جھوٹ ) بھی ہے ۔ اس رسم
بد پر عمل کرکے جھوٹ کی تشہیر کی جاتی ہے۔ لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتاہے۔
بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پریشان
کیا جاتا ہے ۔ یکم اپریل کو جھوٹ بولنا تو گویا ان کے ہاں فرض ہے۔ جھوٹ کو
انہوں نے دل کی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا بھی سہی کہ ہم
کیسے مسلمان ہیں؟ واضح طور پر اسلام نے جن امور کو منافقین کی علامتوں میں
شمار کیا۔ جس سے اجتناب کرنے کی تلقین کی۔ ہم اسی میں پوری شدومد سے مگن
ہیں۔ بھلا کبھی ہم نے سوچا کہ آخر دینی تعلیمات کو ترک کرکے ہمارے دلوں کو
تسکین پہنچتی ہے؟ کبھی غور کیا کہ آخر کیوں ہمارے دل گناہوں میں لذت محسوس
کرنے لگے ہیں؟ ہم نے جھوٹ بولنا معمول بنا لیا ہے حالانکہ جھوٹ بولنا قبیح
صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے”جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔“ (آل
عمران :61)نا جانے ہم کیوں خوشی سے ملعون بننا پسند کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا
منافقین کی صفت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی علامتین
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ” جب بھی (منافق) بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا
ہے(متفق علیہ) اسلام میں جھوٹ بولنے کی اجازت تو درکنار اسلام نے جھوٹ کے
شبہ کوبھی نا پسند کیا ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ وعنہ
فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرما
تھے کہ اس دوران میری والدہ نے مجھے بلایا کہ ادھر آﺅ میں تمہیں کچھ دوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ اس
نے کہا میں اسے کھجور دوں گی۔ اس پر آپ نے فرمایا: خبر دار اگر تم اسے کچھ
نہ دے یتیں تو یہ بات تمہارے حق میں جھوٹ لکھی جاتی۔ ( ابو داﺅد) اور اسی
طرح ترمذی میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” مشکوک بات کو
ترک کرکے بغیر شک والی بات اختیار کرو۔ بے شک سچائی میں اطمینان اور جھوٹ
میں بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔“ جھوٹ کے بہت زیادہ نقصانات ہیں۔ دنیا
میں ” جھوٹ “ غلط بیانی دھوکہ دہی، امن و سکون کی تباہی ، اخلاق پامال ،
معاشرتی اختشار اور لڑائی کا باعث بنتا ہے۔ جب کہ آخرت میں جھوٹے کا انجام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح سے بیان کیا لمبی حدیث ہے۔ جس
میں ہے کہ ” میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے ۔ انہوں نے کہا
کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو دیکھا کہ اس کے باچھوں (
رخساروں) کو حیرا جا رہا تھا۔ وہ اتنا جھوٹ شخص تھا کہ جب وہ جھوٹ بولتا
تھا تو اس کاجھوٹ دور دور تک پھیل جاتا تھا ۔ اسی جرم کی پاداش میں اس کے
ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے ( بخاری) جب ہم نے جھوٹ کو سینے سے لگا کر واضح
احکام الٰہی کو پس پشت ڈالا تو پھر ہم پر ذلتوں کانزول شروع ہوگیا ۔ آج
بدامنی ، خوف ، مصائب ، پریشانیوں اور مختلف عذاب ہم پر کیوں نازل ہو رہے
ہیں۔
جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلا ہے
دیکھتے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کا انجام برا ہے
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جھوٹ بول کر اس حدیث کے مصداق جھنم میں ٹھکانہ بنا
رہے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اپنے آپ کو جھوٹ سے
بچاﺅ کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جا تاہے اور گناہ جھنم میں لے جانے کا
سبب بنتے ہیں۔( بخاری/مسلم) آج فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم نے جھوٹ
بول کر اپنی دنیا و آخرت کو برباد کرنا ہے یا سچ کو اپنا کر اپنی دنیا و
آخرت کو سنوارنا ہے۔ |