کبڈی برِ صغیر پاک و ہند کا بڑا
ہی پرانا کھیل ہے جو صدیوں سے پاک و ہند کے باسیوں کا انتہائی مقبول کھیل
رہا ہے۔موجودہ دور میں پنجاب کی دھرتی ا س کھیل کا سب سے بڑا مرکز ہے۔پنجاب
کا موسم،اس کی مٹی،اس کی آب و ہوا اور پھر اس کے پنج دریاؤں کے پانی کا
زورو شور اور اثر اس کھیل میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک وقت
تھا کہ یہ کھیل پنجاب کے ہر گاؤں میں بڑے ذوق شوق سے کھیلا جاتا تھا۔گھبرو
جوان اس کھیل سے اپنی منہ زور جوانی کی دھاک بٹھاتے تھے اور خوبصورت ا لہڑ
مٹیاروں کے دلوں میں ہلچل مچاتے تھے۔ ان کے کسرتی بدن اور پھر ان آہنی
بدنوں میں مچلتی مچھلیاں ان کے شہ زور ہونے کی گواہی دیتی تھیں جو ان
نازنینوں کے دلوں کو خوب بھاتی تھیں اور وہ ان پر اپنا دل ہار جاتی تھیں ۔کبڈی
کا کھیل ایسا کھیل ہے جس میں بڑی محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ
جسم کو کسرتی اور پھرتیلا بنانے کیلئے بڑے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا
ہے۔اس کھیل کا پہلوانی سے مواز نہ بھی کیا جاتا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے
کیونکہ کبڈی اور پہلوانی میں بڑا ہی بنیادی فرق ہے۔کبڈی میں چیتے جیسی
پھرتی بنیادی شرط ہوتی ہے جو کہ پہلوانی کے فن میں مفقود ہوتی ہے۔کبڈی کے
ہر بہتر ین کھلاڑی میں ایک اٹھلیٹ بھی پنہاں ہوتا ہے اور اس جوہر کے بغیر
کبڈی کے فن میں طاق ہونا ممکن نہیں ہو تا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کبڈی زور
آزمائی کا ایک خوبصورت اظہار ہے لیکن اس میں پھرتی ،تیزی ،چالاکی اور حاضر
دماغی اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ کبڈی میں شہ زوری کو نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا لیکن کمان کی طرح کسے ہوئے کسرتی جسم اپنی پھرتی سے
مخالفین کو جس طرح سے جل دیتے ہیں اس سے دیکھنے والے دم بخود ہو جاتے
ہیں۔کبڈی کے کھلاڑیوں میں پھرتی اور بلا کی تیزی ہی کبڈی کا اصلی حسن ہے۔۔
شارجہ کا کرکٹ سٹیڈیم کرکٹ کے میچوں کے انعقاد کی وجہ سے پوری دنیا میں
اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔اس سٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑے
بڑے مقابلے منعقد ہو چکے ہیں۔۱۹۸۵ میں جاوید میاں داد نے اسی سٹیڈیم میں
وہ یادگار چھکا مارا تھا جسکی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔اسی سٹیڈیم میں ۱۲
اپریل کو کبڈی پریمئر لیگ کا انعقاد ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کر کے
کبڈی سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔اس لیگ میں چار ٹیموں (پاکستان۔بھارت
۔ایران۔یو اے ای۔)نے حصہ لیا۔ متحدہ امارات میں پاکستانیوں اور بھارتیوں کی
کثیر تعداد سکونت پذیر ہے لہذابنیادی طور پر کبڈ ی کا یہ ٹو رنامنٹ دو
روائتی حریفوں (پاکستا نی اور بھارتی ٹیموں) کی وجہ سے پر کشش بنا ہوا تھا۔
پاکستانی اور بھارتی ٹیمیں کسی بھی کھیل اور کسی بھی مقام پر مدِ مقابل ہو
جائیں تو عوام کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں اور یہی کچھ اس پریمئر لیگ میں
بھی دیکھنے کو ملا۔شارجہ میں کبڈی کا میلہ واقعی ایک حیران کن منظر تھا ۔یو
اے ای کے لوگ فٹ بال کے شیدائی ہیں جب کہ برِ صغیر کے لوگ کرکٹ کے دیوانے
ہیں لہذا ایسی صورت میں کبڈی کے میچ کے انعقاد کا فیصلہ کرنا بڑا ہی باجرات
فیصلہ تھا لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ انتظامیہ نے کبڈی
کے انعقاد کا جو تاریخ ساز فیصلہ کیا وہ انتہائی کامیا بی سے ہمکنار ہوا ہے۔
عوام کی کبڈی کے کھیل میں دلچسپی نے اس خطے میں اس نئے کھیل کے روشن مستقبل
کی نو ید دے دی ہے۔اگر اس میں اور زیادہ محنت کی جائے تو یہ کھیل یو اے ای
کا انتہائی مقبول کھیل بن سکتا ہے۔۔
۱۰ اپریل کو مجھے کرنل قیصر مصطفے بٹ کا فون آیا کہ میں پاکستان کی کبڈی
ٹیم لے کر یو اے ای آرہا ہوں اور ہمارا مقابلہ اپنے روائیتی حریف بھارت سے
ہو گا لہذا آپ اپنا وقت ریزرو کر لیں۔ کرنل قیصر مصطفے بٹ بنیادی طور پر
والی بال کے کھلاڑی ہیں اور والی بال کی دنیا میں ان کا نام کسی تعارف کا
محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے خوبصورت کھیل سے نہ صرف پاکستان کا نام پوری دنیا
میں روشن کرتے رہے ہیں بلکہ شائقینِ والی بال کے دلوں کو بھی گرماتے رہے
ہیں ۔ایک دنیا ان کے کھیل کی معترف تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی شاندار خدمات
کے صلے میں انھیں آرمی سیکرٹری سپورٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا اور آجکل وہ
اسی عہدے پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔وہ کبڈی فیڈریشن کے بھی نائب
صدر ہیں اس لئے کبڈی کی ٹیم سے ان کی وابستگی کو بآسانی سمجھا جا سکتاہے۔
کرنل قیصر مصطفے بٹ گیارہ اپریل کی صبح یو اے ای پہنچے اور میں بارہ اپریل
بروز جمعہ ابو ظبی سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ انھیں ملنے کیلئے ہوٹل پہنچا
ا اور ان سے ایک طویل نشست ہوئی جس میں کھیل کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی
جائزہ لیا گیا۔اس ٹورنا منٹ کے منتظمین نے اپنی شبانہ روز محنت سے اس ٹو
رنامنٹ کو کامیاب کروانے کا عہد کر رکھا تھا۔میں اس سلسلے میں پاکستانی
کبڈی فیڈ رشن اور ایشین کبڈ ی ٰ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری رانا سرور کی
خدمات کا ذکر نہ کرنا نا ا نصا فی ہو گی ۔میری ذاتی رائے ہے کہ ان کی
کاوشوں کے بغیر اس ٹورنامنٹ کا نعقاد ناممکن تھا۔ انھوں نے جسطرح سے اس ٹو
رنامنٹ کیلئے اپنی خد مات پیش کیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا وہ دوسروں
کیلئے مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ یو اے ای کے عقابِ پاکستان نے اس ٹورنا منٹ
کیلئے جسطرح محنت کی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔وہ دو دن لگا تار
پاکستانی جھنڈا اٹھائے عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرتے رہے ۔ حا فظ ظفر نے
جسطرح سے خوبصورت اشعار اور نظموں میں میچ کی رننگ کمینٹری کی اور کبڈی کی
تاریخ بیان کی اسے مدتوں یاد رکھا جائیگا۔پچھلے سال کبڈی کا عالمی کپ بھارت
میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لہذا پاکستان
کی خواہش تھی کہ اگلے ٹورنامنٹ کیلئے کسی غیر جانبدار ملک کا انتخاب کیا
جائے تاکہ پرانا حسا ب برابر کر دیا جائے۔اس حوالے سے یو اے ای ایک بہترین
انتخاب تھا ۔۔
اس ٹورنا منٹ کے دو راؤنڈز تھے جس میں ایک حصہ گیارہ اپریل کو تھا جبکہ اس
کادوسرا راؤنڈ بارہ اپریل کو تھا ۔ گیارہ اپریل کو پاکستان نے ایران کو
جبکہ بھارت نے یو اے ای کو بآسانی شکست دے دی۔با رہ اپریل کو چار میچز ہوئے
جس میں پہلے میچ میں بھارت نے ایران کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اور
پاکستان نے یک طرفہ مقابلے میں یو اے ای کو شکست سے ہمکنار کیا۔پہلے میچ (
بھارت بماقبلہ ایران ) کے مہمانِ خصوصی پی پی پی یو اے ای کے صدر اور
اوورسیز پاکستانی فیڈریشن(او پی ایف) کے بورڈ ممبر میاں منیر ہانس تھے ۔دوسرے
میچ (پاکستان بمقابلہ یو ے ای ا ) کے مہمانِ خصوصی کرنل قیصر مصطفے بٹ اور
پیپلز ادبی فورم کے چیرمین طارق حسین بٹ تھے۔ پاکستانی کھلاڑی فائنل میں
بھارت کو شکست دینے کیلئے بے تاب بھی تھے اورپر عزم بھی تھے۔وہ بھارت سے
اپنی پچھلی شکست کو بدلہ چکانا چاہتے تھے ۔پاکستانی شائقین بڑی تعداد میں
گراؤنڈ میں موجود تھے ۔سارے میچ کے دوران ان کا جو ش و جذبہ دیدنی تھا۔جیسے
ہی رات کو گیارہ بجے فائنل میچ کا آغاز ہوا تو پورا سیڈیم پاکستان زندہ باد
اور نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔جیسے ہی کوئی پاکستانی
کھلاڑی پوائنٹ سکور کرتا تو شائقین تالیوں اور نعروں سے دل کھول کر انھیں
داد دیتے ۔امید تھی کہ یہ میچ بڑا سخت ہو گا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کے
بہترین کھیل اور پر فارمنس نے بھارتی کھلاڑیوں کے اوسان خطا کر دئے ۔شفیق
چشتی اور کیپٹن مشرف نے بہت اعلی معیار کا کھیل پیش کر کے بھارت کے چھکے
چھڑوا دئے اور بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔شفیق چشتی کو کوئی بھی
بھارتی کھلاڑی روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔پوائنٹ سکور کرنے کے بعد اس کا
فاتحانہ انداز قابلِ دید تھا ۔ عبیدا ﷲ جنجوعہ اور بابرگجر نے دلکش کھیل کا
مظاہرہ کر کے سب کو مسحور کر دیا ۔ سجاد گجر نے بھارت کے سب سے اہم کھلاڑی
اور کپتان سکھی سنگھ کی کلائی مروڑ کر اسے جسطرح بے بس اور لاچار کیا اس نے
بھارتی کھلاڑیوں کے حوصلوں کو بالکل پست کر کے رکھ دیا۔پاکستانی دفاعی لائن
کے جھا پھیوں نے اگر اعلی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تو ا ن کے اٹیکرز (سائیوں)نے
بھی ا علی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ بھا رتی دفاعی لائن کو جسطرح پاکستانی
اٹیکرز (سائیوں)نے تہس نہس کر کے رکھ دیا وہ قابلِ دید تھا یہی وجہ ہے کہ
پاکستان نے کبڈی پریمئر لیگ کا یہ کپ ۷ ۲۔۔ ۴۹ کے سکور سے بڑی آسانی سے جیت
کر دیارِ غیر میں پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا جس پر کبڈی فیڈریشن
کے تمام عہدیدار مبارک باد کے مستحق ہیں۔۔ |