یہ درست ہے کہ شکست کے بعد اس
اسباب پر بات کرنا اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کرنا آسان ہوتا ہے لیکن بظاہر
آسان کہلانے والا کام درحقیقت خاصا مشکل ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں
کہ پاکستان میں کرکٹ کا ٹیلنٹ بے پناہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم عالمی کرکٹ
میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ نہ کرنے کے باوجود بھی دوسرے ان کئی
ممالک سے بہتر ہیں کہ جو عالمی رینکنگ کی بنیاد پر ہم سے کافی آگے ہیں لیکن
انہیں ہمارے جیسے مسائل درپیش نہیں جو ان دنوں ہماری کرکٹ جھیل رہی ہے جس
میں ایک یہ بھی ہے کہ آج امن و امان کی خراب صورتحال کی بناءپر کسی بھی ملک
کی ٹیم کا پاکستان میں کھیلنے کے لئے نہ آنا ہی بہت بنیادی مسئلہ ہے۔اس
صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر دورہ جنوبی افریقہ کی بات کی جائے تو
پہلے ٹیسٹ سے قبل راحت علی اور تنویر احمد کو جنوبی افریقہ بھیجنے کے فیصلہ
سے ہی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زدہ
عام ہوگئیں تھیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ کپتان مصباح الحق کی حارث سہیل کو لے
جانے کی ضد کی وجہ سے ابتدائی اسکواڈ میں ایک فاسٹ بولر کو کم شامل کیا گیا
اور بعد میں ٹیم مینجمنٹ کی درخواست پر دو اضافی فاسٹ بولر جنوبی افریقہ
بھیجے گئے جس کے نتیجہ میں دو اضافی کھلاڑیوں کے خرچے کا بوجھ پاکستان کرکٹ
بورڈ کے کمزور خزانے پر پڑا۔ ٹیم مینجمنٹ کی درخواست پر طلب کئے گئے اضافی
کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو پہلے ٹیسٹ میچ میں ڈیبیو کرنے والے
راحت علی کی گیند وکٹوں میں نہیں آئی جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے
تنویر احمد کی گیند وکٹوں تک نہیں پہنچی۔ دوسری جانب بظاہر مضبوط دکھنے
والی بیٹنگ لائن اپ ایک بار پھر ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور قومی ٹیم کا سب
سے کمزور شبہ یعنی قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ ایک بار پھر ہمارے لئے دیارِغیر
میں شرمندگی کا سبب بن گیا۔قومی ٹیم کی مسلسل ناکامی یہ ظاہر کررہی ہے کہ
ہمارے بیٹسمینوں کو ماضی کی طرح جنوبی افریقہ کی تیز اور اونچے اچھال والی
پچز کے خوف نے اندھیری راہ کی جانب دھکیل دیا ہے اور شاید اسی وجہ سے انہوں
نے پوری سیریز میں صرف دفاعی حکمت عملی اختیار کئے رکھی۔ باوجود اس کے کہ
قومی ٹیم کے ٹیسٹ اسکواڈ میں قومی ٹیم کے T-20 کپتان محمد حفیظ،بھارت کے
خلاف یکے بعد دیگرے سنچریز کے ہیٹریک اسکور کرنے والے ناصر جمشید،سری لنکا
کے خلاف 2009میں شاندار 300رنز اسکور کرنے والے یونس خان،قومی ٹیم کے ٹیسٹ
اور ون ڈے کپتان اور ٹیسٹ اسپیشلسٹ بیٹسمین کہلانے والے مصباح الحق سمیت
گذشتہ دو برسوں میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ دنیائے کرکٹ میں اپنا لوہا
منوانے والے اظہر علی اور اسد شفیق اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتر کھیل پیش
کرکے قومی ٹیم میں واپسی کرنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد شامل ہیں
جو جنوبی افریقہ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے اگر ان بیٹسمینوں ہی
کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محمد حفیظ 3ٹیسٹ میچوں کی چھ اننگز میں
صرف 43رنز بنا پائے ہیں ان کے علاوہ دورہ بھارت میں اپنی دلکش بلّے بازی کے
ذریعہ ہر کسی سے داد پانے والے ناصر جمشید بھی اس سریز میں کوئی خاطر خواہ
کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں،اظہر علی نے چھ اننگز میں ایک
نصف سنچری کے مدد سے 133،کپتان مصباح الحق نے چھ اننگز میں 135رنز تو بنائے
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جب بھی کبھی ٹیم اور ملک کو ان کی ایک بہترین
اننگ کی ضرورت پڑی اور جب بھی ان سے توقعات وابستہ ہوئی تو ان کی وکٹ گرگئی
ان کے علاوہ سابق کپتان اور قومی ٹیم میں موجود سب سے سینئر کھلاڑی یونس
خان نے چھ اننگز میں ایک سنچری کی مدد سے 184بنائے ہیں جبکہ قومی ٹیم کے سب
سے کامیاب بیٹسمین اسد شفیق نے چھ اننگز میں 199بناتے ہوئے جواں مردی سے
افریقی بولرز کا مقابلہ کیا ۔اس کے بر عکس ٹیسٹ سریزکے دوران جس انداز میں
ورنن فلینڈر (15) اور ڈیل اسٹین (20) نے مجموعی طور پر پاکستان کی 35وکٹوں
پر قبضہ جماتے ہوئے قومی ٹیم کے بیٹسمینوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا
۔اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی گیند کا سامنا کرنا پوری
سریز میں قومی ٹیم کے بیٹسمینوں کا سب سے بڑا مسئلہ رہا اور وہ افریقی فاسٹ
بولرز کی تیز رفتاری کے باعث خوف میں مبتلا ہوگئے تھے۔یہاں ہمیں قومی ٹیم
کی بالنگ کا جائزہ بھی ضرور لینا چاہئیے کہ قومی ٹیم کا سب سے مضبوط شعبہ
بولنگ بھی دورہ جنوبی افریقہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے سے قاصر رہا ۔دراز
قد، محمد عرفان کی دورئہ بھارت میں شاندار کارکردگی کے بعد اس دورے میں اُن
کی اہمیت ضرور بڑھ گئی تھی مگر وہ کوئی متاثر کن کھیل پیش نہ کر سکیں ،پاکستان
ٹیم میں موجود سب سے سینئر بولر عمر گُل کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی اور
وہ مسلسل گذشتہ دو برسوں سے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں
ناکام رہے ہیںاور قومی ٹیم کے آف اسپنر سعید اجمل ہی مرد میدان بنے رہے اور
تن تنہا مخالف ٹیم کی وکٹیں گرانے میں کامیاب ہوئے مگر کوئی دوسرا بولر ان
کا ساتھ دینے کو بھی تیار نظر نہیں آیا اسی وجہ سے دوسرے ٹیسٹ میچ میں
جادوگر آف اسپنر سعید اجمل کی میچ میں 10وکٹیں بھی قومی ٹیم کو شکست سے
نہیں بچا سکیں۔سریز میں قومی ٹیم نے مخالف ٹیم پر سبقت حاصل کرنے کے کئی
اہم مواقع ضائع کئے ،جوہانسبرگ ٹیسٹ میں پانچویں وکٹ پر مصباح الحق اور اسد
شفیق کے درمیان 127رنز کی شراکت کے بعد اگر یہ دونوں کھلاڑی اپنی نصف
سنچریاں بنا کر اننگز کو آگے بڑھانے کی کوشش جاری رکھتے تو قومی ٹیم کو
مزید استحکام دیا جاسکتا تھا لیکن دونوں کھلاڑی اوپر تلے آﺅٹ ہوگئے ،ٹھیک
اُسی طرح کیپ ٹاﺅن میں ہوا جہاں یونس خان اور اسد شفیق نے اپنی اپنی
سنچریاں مکمل کیں اور پانچویں وکٹ پر 219رنز کی بہترین شراکت قائم کرکے
ایسے ہتھیار ڈالے جیسے وہ دونوں اپنے لئے ہی کھیل رہے تھے۔شاید یہی وجہ ہے
کہ پاکستان کے سابق کھلاڑیوں کی جانب سے قومی ٹیم اور بالخصوص کپتان مصباح
الحق کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور قومی ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ
ناز وکٹ کیپرو بیٹسمین راشد لطیف نے تو پاکستان کرکٹ بورڈ سے یہ مطالبہ بھی
کردیا کہ دورئہ جنوبی افریقہ کے بعد کوچ ڈیو واٹمور کو فارغ کردیا جائے۔اُن
کے اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ڈریسنگ روم میں ہزاروں ڈالرز
لے کر بیٹھنے والے کوچ نے ٹیسٹ میچوں کے لئے آیا کوئی حکمت عملی بنائی بھی
تھی یا وہ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر کھیل کو صرف دیکھ رہے تھے چونکہ کوچ
کی منصوبہ بندی اس سریز میں کہیں نظر نہیں آئی ،اگر وہ اپنا کام صحیح طور
پر کرتے تو شاید قومی ٹیم کو اس عبرتناک شکست سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ |