بہت دن بیت چکے تھے میں نے کالے
پتھر کے سات پھیرے نہیں لگائے تھے۔ دل اداس تھا، من مچل رہا تھا اور آنکھیں
اس کی دید کی مشتاق تھیں۔ بالآخر کفن باندھا اور کالے پتھریلے پہاڑوں کے
بیچوں بیچ میں روانہ ہو گیا۔ شہر میں شدید ہجوم تھا، ہر اٹھتا ہوا قدم اس
پتھر اور کالی دیواروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ طلوعِ آفتاب کا وقت قریب تھا
مگر اس کے باوجود دھوپ کی طمازت بھی قائم اور کالے پتھریلے پہاڑوں کی
چوٹیوں سے گرمی بھی برس رہی تھی۔
مغرب کی اذان سے چند لمحات قبل اس کالے پتھر کے اردگرد موجود در و دیوار نے
ٹھنڈی ہوائیں چلا دیں اور قلب و جان کو فرحت محسوس ہوئی۔ مؤذن نے فلاح و
کامرانی کا بلاوا دیا اور میں نے آمنہ کے دلارے ﷺ کی جائے ولادت کے پاس سے
گزرتے ہوئے سلامِ عقیدت پیش کیا اور داخلِ حرم ہو گیا۔
یہ کالا پتھر کعبۃ اللہ میں موجود ہے اور یہ کعبۃ اللہ بیت المقدس سے چالیس
سال قبل جد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔
صاحبِ روح البیان نے اس کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ تخلیقِ آدم سے
دو ہزار سال قبل اس کی تعمیر ہوئی۔ اللہ نے مٹی، گارے اور پتھر سے بنے ہوئے
اس گھر کو برکات و فضائل کا منبع بنا دیا اور پھر یہاں تک کہہ دیا کہ یہ
میرا گھر ہے۔ جس نے اس کے راز کو پا لیا اللہ نے اسے دین و دنیا میں کامیاب
فرما دیا اور خشک ذہن، نقاد بے سبب اور بغض و حسد سے بھرپور قلوب و عیون آج
تک اس کی اصلیت کو پہچاننے کی بجائے مبتلائے کفر و عناد ہیں۔ شخصیات و
اسلاف کی عظمت کے منکرین، دین میں ہر قدم پر کفر و شرک، بدعت و گمراہی کے
فتووں کی لوٹ سیل لگانے والوں نے امت کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ بھولے
بھالے مسلمان اس قدر گمراہی کا شکار ہو گئے کہ ذات رسول ﷺ کو بھی متنازعہ
بنا دیا گیا۔ افضل البشر، نور من نور اللہ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات تک پہنچنا
بہت بعید ہے، ہم اس چار دیواری میں موجود مصطفوی نشانیوں کو پہچان پائیں تو
بغض و عناد اور کفر و شرک کی توپوں سے مسلح دماغوں کو راہِ نجات مل جائے۔
کالی دیواروں کا طواف کرتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیالات آرہے تھے کہ اے
پتھروں کے گھر تجھ میں ایسی کیا خوبی ہے کہ انسان تو انسان پرندے بھی تیرا
احترام کرتے ہیں، اگر پرندوں کا کوئی گروہ ہوا میں گزرتا ہوا تیرے قریب آ
جائے تو وہ منتشر ہو جاتے ہیں اور تیرے اوپر سے نہیں گزرتے، اگر کوئی پرندہ
بیمار ہو جائے تو وہ حصولِ شفاء کے لئیے تیری ہواؤں میں پرواز کر کے شفاء
پاتا ہے، تیری سر زمین پر کتے ہرن کا شکار نہیں کرتے اور جانور بھی کسی کو
ایذا نہیں دیتے۔ دنیا کے عین وسط میں واقع اس گھر میں ہر شب جمعہ کو ارواح
اولیاء حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی کا قصد کرے وہ تباہ و
برباد ہو جاتا ہے۔ تیرے اندر ایسی کون سے خصوصیت ہے کہ اس شہر میں انسانوں
کا بہتا ہو دریا جوق در جوق تیری طرف بہہ رہا ہے اور قدرتِ خداوندی کی
وسعتیں انہیں خود میں سمو رہی ہیں۔
پانچ پہاڑوں کے مٹی اور پتھروں سے بنایا جانے والا یہ گھر امتِ محمدی کے ہر
ہر گناہ گار کو دعوت دیتا ہے کہ تو گناہوں کہ پہاڑ اٹھا کر لا اور میرے
دامانِ کرم میں ڈال، میں ان گناہوں کو نیکیوں کی شکل میں لوٹاؤں گا۔
اذانِ مغرب کے بعد کفن پوش مرد و خواتین رک گئے اور نمازِ مغرب ادا کی گئی۔
بظاہر بہت بلند نظر آنے والا کعبہ اور کالا پتھر چہار اطراف سے پہاڑوں میں
گرا ہوا ہے اور بہت گہرائی میں واقع ہے۔ جونہی نماز ختم ہوئی تو پھیرے
لگانے کا یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ دنیا ومافیہا سے بے نیاز بچے بوڑھے اور
جوان اپنی اپنی زبانوں میں اپنے رب کو پکار رہے تھے، فارسی، ترکی، عربی،
انگریزی، اردو اور حتٰی کے اپنی علاقائی زبانوں میں حق تعالٰی جل شانہ سے
ہم کلامی کے عملی مظاہرے ہو رہے تھے۔ کوئی آنکھوں سے دریا بہا بہا کر اپنے
گناہوں پر نادم و شرمندہ تھا تو کوئی اپنے خالق کی عظمت کی تسبیحات بیان کر
رہا تھا۔
انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے، بغیر کسی نسلی امتیاز، قوم و نسل، رنگ و
ذات اور عرب و عجم کا فرق کئیے بغیر ہر کوئی اس طرح محوِ طواف تھا کہ شاید
دنیا کا ہر کام ایک لمحہ کے لئیے رک گیا ہو۔ کالے غلاف میں لپٹے ہوئے کعبے
اور کالے رنگ کے اس پتھر کے اردگرد لوگ اس طرح سے رواں تھے جیسے کوئی بہتا
ہوا دریا۔ کالے پتھر کے مقابل پہنچے تو اچانک میرے پیچھے سے ایک آواز آئی
"السلام علیکم یا حجر الاسود"، (اے کالے پتھر تجھے سلام)۔ طویل القامت
افریقی النسل باشندے کے چہرے کی ظاہری سیاہی دیکھ کر مجھے اس کے دل کی سفید
ی اور منہ سے نکلنے والے ان مبارک الفاظ پر رشک آیا ۔
اللہ کریم تیرا منہ سلامت رکھے۔
خدا تجھے آباد رکھے۔
میری آنکھیں ایک لمحہ کے لئیے نم ہو گئیں اور پھر دل و دماغ کئی صدیاں
پیچھے چلے گئے کہ "اے کالے پتھر تجھے کیوں سلام"؟؟؟
پھر دل بولا ۔۔۔ ہاں تجھے سلام، اے کالے پتھر تجھے سلام۔۔۔۔ کہ تجھے میرے
مصطفٰی ﷺ نے چوما ہے۔۔۔ تجھے وہ سعادت حاصل ہے جو جہاں میں کسی اور کے پاس
نہیں کہ تجھے میرے کریم ﷺ نے اس جگہ پر رکھا تھا۔۔۔ اے کالے پتھر تجھے
سلام۔۔۔ تجھے میرے کریم نے ایک نہیں بلکہ سولہ بار چوما تھا۔ تو کتنا عظیم
ہے۔۔۔ تو کتنا سعید ہے۔۔۔ تیرے اندر برکات و رحمت کا دریا رواں ہے۔۔۔ تیرے
اندر رحمت الٰہی کا سمندر ہے۔۔۔ تجھےتو گلِ قدس کی ان پتیوں سے نسبت ہے جن
کی برکت سے اللہ رزق و طعام میں برکت عطا فرما دیتا ہے۔
مگر۔۔۔
ہم تیری عزت کیوں کریں؟ ہم تجھے کیوں چومیں؟ اس حبشی النسل دیوانے نے تجھے
حرفِ ندا سے پکار کر شرک نہیں کیا؟ تو ایک پتھر ہے اور یہ تجھ "یا" کہہ کر
پکار رہا تھا کہ " اے کالے پتھر تجھے سلام"۔ یہاں تو فتوے دئیے جا رہے ہیں
کہ جس نے تجھے عزت بخشی اس کو بھی "یا رسول اللہ" نا کہا جائے کہ یہ شرک
اور بدعت ہے۔ کیا اس افریقی حبشی کو بھی امام احمد رضا نے "یا" کہنا سکھایا
تھا؟ یا پھر کیا تو کوئی جاندار ہے؟ کیا تو زندہ ہے؟
واہ میرے مالک۔۔۔ تیری قدرت ہماری سوچوں سے بالا تر ہے۔ عشق کا کوئی قانون
نہیں، محبت پیمانوں اور اوزانوں میں مقید نہیں ۔ عشق و محبت اپنے راستے خود
بناتے ہیں۔
اب میں نے بھی انہیں الفاظ میں کالے پتھر کو مخاطب کیا اور سلام کہا۔۔۔ اس
ترمیم کے ساتھ کہ اے کالے پتھر تجھے سلام مگر۔۔۔ یاد رکھ۔۔۔ تجھے سلام اس
لئیے کہ تجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ تجھے ہم غریبوں کے آقاﷺ نے چوما تھا۔۔۔
بس۔۔۔ اس کے سوا تیری کوئی عزت نہیں۔ اور یہ عقیدہ ہمیں مرادِ رسول سیدنا
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عطا فرمایا ہے۔۔۔
اے کالے پتھر تجھے سلام۔۔۔ تجھے لاکھوں سلام۔۔۔ تو قیامت تک چوما جاتا رہے
گا۔۔۔ لوگ تیرے وسیلے سے دعائیں کریں گے۔۔۔ چومیں گے تجھے مگر ملیں گے خدا
کو۔۔۔ بوسے تیرے لیں گے گناہ اپنے بخشوائیں گے۔
اے کاش ان عقل کے اندھوں کو سمجھ آ جائے جو کالے پتھر سے تو برکت حاصل کرتے
ہیں مگر جس نے اس پتھر کو برکت دی اس کے دربار سے برکت کے حصول کو شرک کہتے
ہیں۔
تجھے سلام۔۔۔ کالے پتھر تجھ پر لاکھوں سلام۔۔۔ میرے سوہنے مکی مدنی ﷺ کے
زندہ معجزے تجھے سلام۔
پتلی پتلی گل ِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
حجر اسود و کعبہ جان و دل
یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام
کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون
ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
رابطہ:
ہمارا فیس بک پیج: https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi |