سوویت یونین کی تمام ترتگ وتاز
کا خلاصہ یہ تھاکہ کسی طرح گرم پانی تک رسائی ہو ،تاکہ اس کے سمندری حمل
ونقل کے جہازوں ،بیڑوں اور آبدوزوں کو عالمی بحری شاہراہوں میں کُھل کھیلنے
کا موقع ملے ،اس کا جغرافیاالاسکا میں امریکہ ،یوکرائن میں یورپ ،انتہائی
شمال میں قطب شمالی اور جنوب میں چین ،افغانستان ،ایران اور ترکی سے مل
رہاتھا، مغربی اتحادیوں نے ترکی کو نیٹو کا ممبر بناکر اور ایران میں
اسلامی انقلاب کا راستہ نہ روک کر ان دونوں ملکوں کو غیر محسوس انداز میں
مستحکم کیا ، غازی امان اﷲ خان کو مسٹر بنا کر ہم نوا بنانے کی کوشش کی ،
مگر ’’سرخ ریچھ ‘‘وہاں تب تک پنجے گاڑچکاتھا، چنانچہ ظاہرشاہ کے دور میں
بھی ان کا خاصا اثر ورسوخ رہا، برصغیر کی تقسیم سے افغانستان کو ایک دھچکا
یہ لگا کہ ڈیورنڈلائن کے سوسالہ معاھدے کے تحت آنے والی زمین پاکستان کا
حصہ بن گئی ، ریکارڈ درست رکھنے کے لئے اقوام متحدہ میں انہیں مجبورا ًپاکستان
کے خلاف ووٹ دینا پڑا ،جواِن دونوں برادر ملکوں کے درمیان بداعتمادی کاازلی
سبب بنا ، اس سے فائدہ اٹھاکر روس اُن کو اپنے قریب کرتے کرتے مداخلت کر
بیٹھا ، مقصود افغانستان کی سنگلاخ پہاڑ یاں ہرگز نہ تھیں ، بلکہ بحر
اسودسے بحر ابیض متوسط تک ان کا راستہ گرم پانی تک بذریعہ ترکی نیٹو کی وجہ
سے ناممکن ہوگیاتھا، خلیج عرب ،آبنائے ہرمز اور بحرِ عرب تک ان کا راستہ
ایران کے اسلامی انقلاب نے پورے عالم اسلام میں اپنی پذیرائی سے روک
رکھاتھا،اب درۂ خیبر اور اسپین بولدک کے راستوں سے وہ سندھ سے متصل بحرعرب
تک آس لگائے بیٹھاتھا۔
چنانچہ مغربی قوتیں روس کی اس نیت کو بھانپ چکی تھیں، انہوں نے لابنگ کر کے
تمام مسلمانوں سے یہاں جہاد کرانے کا فیصلہ کرلیا، یہ ان کے درمیان پہلی
اوردوسری عالمی جنگوں کے بعد ایک تیسری مگر سردجنگ تھی ، امت نے ایک اسلامی
ملک پر جارحیت کی وجہ سے یہاں ویسے بھی جہاد کو ضروری سمجھاتھا،اب ان کو
عالمی کولیشن بھی میسر آگیا،پھر پاکستان کو اپنی بقاکا مسئلہ بھی در پیش
تھا، اس لئے اسلامی ممالک نے کارزارمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، نتیجۃً سوویت
یونین کا شیرازہ بکھر گیا، سرخ ریچھ مختلف بحرانوں میں گِھرکر اپنے ہی زخم
چاٹنے لگا ، کئی اسلامی وغیر اسلامی ممالک کو روس کے شکنجے سے خلاصی بھی
ملی ،کچھ نے آزاد ہونے کی تحریکیں چلائیں ، جنگین لڑیں ، مگر پوٹن کے پہلے
دور ہی میں بش کے تعاون سے وہ ناکام ہوگئیں ۔
اس تمام ترصورت ِاحوال میں امریکہ نے فیصلہ کیاکہ افغانستان اور سینڑل
ایشیامیں اپنے ایسے مضبوط اڈے بنائے کہ آئندہ کے لئے رشین فیڈریشن بھی اور
زور پکڑتا چائنا بھی دم نہ مارسکے، اس کیلئے افغانستان وعراق میں فوجیں
اتاری گئیں ،جواتفاق سے ناکام ہوگئیں ،ان کی ناکامی کی وجہ سے خود امریکہ
اور اتحادی بکھر کر تاریخ کا حصہ بننے لگے ، ہزاروں ارب ڈالروں سے بھی اُن
کاسنبھلنامشکل ہوگیا،ایسے میں اُن کے اقتصادی بزرچمہروں نے سرجوڑکرنیاپلان
تشکیل دیا، چائنا کے خلاف جہاد کا فتوی لیاجائے اور پورے عالم اسلام کو اس
میں دھکیلاجائے ، اسلحہ بیچاجائے ، چین کا سپر پاور بننے کا خواب بھی
شرمندۂ تعبیرنہ ہوگا اور امت مسلمہ کا خون چوس کر بڑی مقدار میں بھاری
اسلحہ بھی بِک جائے گا ، یوں دشمن بھی کمزور اور مالیاتی بحران سے اپنے آپ
کو نکال کراپنا گھر بھی مضبوط ،لیکن عالم ِاسلا م کے کچھ دوراندیش رہنماؤ ں
کی صائب فکری نے امت کو بچالیا(تفصیلات پھر کبھی)، ان ہی دنوں ایک یورپین
خاتون صحافی ہمارے دفتر بی بی سی کے ایک نمائندے کے ساتھ رات گیارہ بجے
تشریف لائی ، تین گھنٹے تک انہوں نے ہم سے انٹرویوکیا،ایک سوال کے جواب میں
راقم نے ان سے کہا، چین کی ترقی ہمارا گناہ ہے ؟یا اس ترقی کی راہ میں
سدّباب بن کر ایندھن نہ بننا ہمارا گناہ ہے ؟سرخ ریچھ کا مقابلہ ہم سے
کروایا اور پھر ہمیں بھی مارا ،اب مغرب پر بھروسہ بھی نہیں اور چین ویسے
بھی ہمارا پرامن اور معاون دوست ہے ،اسے ہم دشمن کیو بنائیں ؟ اس پروہ
تلملااٹھی ۔
بہرحال شکاری اپناجال پھینکتے رہے ،انہوں نے رشین فیڈرشن کے وہ پاکٹس جو
مڈل ایسٹ میں تھے کوعرب اسپرنگ سے چھیڑا، فیڈرشن شروع میں سمجھ نہ سکا،
لیکن یہ سلسلہ جب شام پہنچا، انہیں سمجھ میں بات آگئی کہ اب بحرابیض متوسط
سے انہیں نکالا جارہاہے ، چنانچہ انہوں نے مقابلے کی ٹھانی ،برادر اسلامی
ملک ایران کی بشارالاسد سے دیرینہ تعلقات اورمسلکی وابستگی سے فائدہ اٹھاکر
شام میں انہیں جنگ میں دھکیل دیا ،ان کا ایٹمی مسئلہ اس پر مستزادتھا،
بحرین میں ان کا اثرورسوخ خلیج کیلئے دردِ سر تھا ، اب ان شکاریوں نے ترکی
کو بھی الرٹ کردیا، عراق میں ایرانی تایید یافتہ نوری مالکی کی حکومت کے
خلاف بھی ان شکاریوں نے میڈیاوار شروع کردیا، اھواز جس پر ایران کی 85 فیصد
معیشت کا دار ومدار ہے میں انتشار پھیلایاگیا،2014 کو ایران میں عرب اسپرنگ
لانے کا منصوبہ بنایاگیا، اس پس منظر وپیش منظر میں ایران نے روس کے ساتھ
کچھ ایسے امن معاھدے کر دیئے ،جن کی روسے اُنہیں خلیج عرب آبنائے ہرمز اور
بحرعرب تک رسائی حاصل ہوگی، یمن کے حوثیین کے لئے بھاری ہتھیار بحری راستوں
سے روانہ کر دیئے ، جن میں سے کچھ بحری جہاز پکڑے بھی گئے ، عالمی میڈیا پر
اس کی تفصیلات بھی آگئیں، متحدہ عرب امارات کے متنازع جزائر میں فوجی
چھاؤنی قائم کردی ، ایران کی حمایت یافتہ حزب اﷲ تنظیم نے بھی کچھ اشتعال
انگیز حرکتیں کیں ، پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ ہولناک انداز میں
بھڑکایاگیا، ہزارہ گان کا تعلق بامیان سے ہونے کی وجہ سے طالبان اور افغان
اہل تشیع کو نفرت میں ڈھالنے کی منحوس کو ششیں ہوئیں ، جیسے پاکستان کے
ایٹمی ہتھیارکو اسلامی بم قرار دیاگیاتھا،اسی طرح ایران کی ایٹمی کا وشوں
کو عربوں کے سامنے فارسی بم ظاہر کیاگیا۔
ان چیرہ دست شکاریوں کومحنت بہت کرنی پڑی ،مگر بظاہروہ کامیاب نظر آرہے ہیں
،اس سینا ریومیں اب ان قوتوں کو دوفائدے گویا ایک تیر سے دوشکار یا ایک بال
سے دو وکٹیں گرانے کا موقع ملے گا ، اولاً:ان کاعالمی نمبروَن دشمن ’’روس‘‘
جنگ کی بھٹی میں ہوگا ،تقریبا 2000 ہزار ارب ڈالراقتصادی مشکلات سے نکلنے
کیلئے صرف امریکہ کو ضرورت ہے ، یہ ہدف اسلحہ ،ماہرین،فوجی جوان اور بحری
بیڑوں کی قیمت اور کرائے کی صورت میں عرب ملکوں سے وصول ہوگا، ایک نیا اور
خطرناک فائدہ ان کو اس طرح حاصل ہوجائے گا ، کہ عالم اسلام کو شیعہ سنی یا
عرب فارسی بلاکوں میں تقسیم کردیاجائے گا، جن میں نفرتیں تا قیامت راسخ
ہوجائینگی ، یوں انہیں مستقبل قریب وبعید میں امت مسلمہ سے بھی کوئی اندیشہ
نہیں ہوگا، جب چاہینگے ان کو آپس میں لڑائینگے ،مذکورہ تفصیلات میں کہیں
میدان جنگ ان کا علاقہ نہیں ہوگا ، تباہی ان سے دور ہوگی ، ہم پاکستانیوں
کو بھی وہ دانہ ڈال رہے ہیں ، انڈوپاک کے بجائے ’’اف پاک ‘‘کی نئی اصطلاح
وضع کی جاچکی ہے، پیش رفت کے کچھ اشارات میڈیا میں واضح نظر آرہے ہیں،ہماری
حالت کیا پورے عالم اسلام کی حالت دگر گوں ہے ، اکھاڑاتیار ہے، خون مسلم کی
ایک مرتبہ پھر ارزانی ہے ، کراچی اور ملک بھر میں شیعہ سنی فسادات یہی سب
کچھ ہے ،ہمارے یہاں جنگجو بہت ہیں ، حیلہ گر کے پاس برین واشنگ ناقابل یقین
مگر زمینی حقیقت ہے، ان حالات میں کیا شیعہ سنی علماء ،دانشور ،میڈیا
اینکر، حکمراں، مفکرین عقل کے ناخن لینگے ؟ بچ بچاؤ کا کوئی راستہ نکا
لینگے ؟ دشمن کی چالوں اورسازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ؟یہ علی خامنہ
ای ، حسن نصراﷲ ،ملاعمر،شاہ عبداﷲ ،ڈاکٹر مرسی ، طیب اردگان ، مہاتیر محمد
اور پاکستانی قیادت کا امتحان ہے ۔ |