حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت حمید بن عبدالرحمن
حمیری کہتے ہیں کہ جس وقت حضور ﷺ کا انتقال ہوا اس وقت ابوبکر ؓ مدینہ کے
آخری کنارے میں (اپنے گھر گئے ہوئے) تھے۔ چنانچہ وہ آئے اور حضور اکرم ﷺ کے
چہرہ انور سے چادر ہٹا کر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ زندگی میں
بھی اور وفات کے بعدبھی کیا ہی عمدہ اور پاکیزہ ہیں۔ رب کعبہ کی قسم! محمد
ﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے(انصار کے سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے بارے میں
مشورہ کے لیے جمع ہونے کی اطلاع ملنے پر) حضرت ابو بکرؓاور عمر ؓ تیزی سے
چلے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو بکر ؓ نے گفتگو فرمائی انصار کے بارے میں قرآن
میں جو کچھ نازل ہوا تھا اور حضور ﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا
وہ سب حضرت ابو بکر ؓ نے ذکر کر دیا اور یہ بھی فرمایا کہ مجھے اچھی طرح
معلوم ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ ایک
وادی میں چلیں اور انصارؓ دوسری وادی میں چلیں تو میں انصارؓ کی وادی میں
چلوں گا اور اسے سعدؓ! تمھیں بھی یہ معلوم ہے کہ ایک دفعہ تم بیٹھے ہوئے
تھے اور تمھاری موجودگی میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ قریش اس امر (خلافت)
کے والی ہوں گے۔ نیک لوگ قریش کے نیک آدمیوں کے تابع ہوں گے اور برے لوگ
قریش کے برے آدمیوں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعد ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا
آپ نے سچ فرمایا لہذا ہم لوگ وزیر (یعنی آپ لوگوں کے مددگار) ہوں گے۔اور آپ
حضرات امیر۔
قارئین یہ ایک عام محاورہ ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے نیک
لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے گناہ گار بھی نیک تصور کیے جاتے ہیں اور برے
لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے نیک لوگ بھی گناہ گار تصور کیے جاتے ہیں۔
ملامتی صوفیوں کے طبقے کو چھوڑ کر عام معاشرے کے اندر عام انسانوں کے متعلق
یہی ایک پیمانہ ہے جس سے لوگوں کی نیکی اور برائی کو ناپا جاتا ہے۔ ہم نے
آج کے کالم میں جو باتیں آپ کے گوش گزار کرنا ہیں ان کا تعلق اپنے ہی طبقے
کے ساتھ ہے۔ صحافی حضرات کے بارے میں عام معاشرے کے اندر متنوع قسم کی
باتیں مشہور ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صحافی ایک طاقتور قسم کا
مافیا ہے اور ان کا دائرہ اختیار اس حد تک وسیع و پر اثر ہے کہ حکومتی
مشینری سے لے کر فرشتوں تک ان کی پہنچ ہے اور ایک صحافی اس حدتک طاقت رکھتا
ہے کہ سپر مین، سپائڈر مین، بیٹ مین سے لے کر دیگر سپر ہیروز بھی اس کی
طاقتوں کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری ان باتوں کو بے شک آپ
تمام دوست شاعرانہ مبالغہ آرائی سے تعبیر کریں لیکن غلط فہمیاں جو عام
لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ انہی باتوں سے ملتی جلتی ہیں اسی طریقے سے
معاشرے میں وہ دوست بھی موجود ہیں جو صحافیوں کو بلیک میلر یا بھکاری سمجھ
کر انہیں معاشرے کے لیے ایک ناسور سمجھتے ہیں اور ان دوستوں کایہ خیال ہے
کہ صحافت اور صحافی پاکستان میں ”انڈ ر ورلڈ ڈان اور آن دا لینڈبیگرز“ جیسی
کوئی چیزیں ہیں اسی طریقے سے ایک طبقہ دوستوں کا ایسا بھی ہے کہ جو انتہائی
قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود یہ تصور رکھتا ہے کہ صحافت اور صحافی حضرات
نے گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان کے عوام کو سیاستدانوں کی منافقت سے اس
حد تک روشناس کرایا ہے کہ اب ایک عام ووٹر بھی سیاسی طور پر شعور یافتہ ہو
چکا ہے۔ یہ تمام درج بالا طبقات اپنی جگہ پر لیکن آج ہم پورے پاکستانی
معاشرے سے چند سوالات پوچھیں گے جن کا تعلق صحافیوں کے ساتھ ہے اور اس کے
بعد چند سوالات ہم صحافیوں اور نشریاتی و اشاعتی اداروں سے بھی پوچھنے کی
جسارت کریں گے جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
بقول چچا غالب اگر درج بالا تمہید کو ہم شاعرانہ نظر میں دیکھیں تو شاید
کچھ یوں ہو گا۔
تیرے توسن کو صبابا ندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہواباندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل ا ے عمر !
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
قید ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپاباندھتے ہیں
نشہ رنگ سے ہے واشدِ گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رساباندھتے ہیں
اہل تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پر کار ہیں خوباں غالب
ہم سے پیمانِ و فاباندھتے ہیں
قارئین ہم نے آزاد کشمیر محکمہ اطلاعات کے انتہائی پڑھے لکھے دیانتدار اور
معزز بیوروکریٹ سیکرٹری شوکت مجید ملک کی پریس کانفرنس جو انہوں نے میرپور
کشمیر پریس کلب میں کی اس کا احوال اور اپنے درد دل کی داستان آپ کی خدمت
میں ”صحافت ایک کھُرک ۔۔۔سیکرٹری اطلاعات “ کے عنوان سے گزشتہ کالم میں پیش
کی تھی۔ ویج بورڈ کیا ہوتا ہے،ایک صحافی کے حقوق کیا ہیں،اس کے فرائض میں
کیا کیا آتا ہے، ریاست کی صحافیوں اور صحافت کے حوالے سے کیا کیا ذمہ
داریاں بنتی ہیں اور نشریاتی و اشاعتی اداروں کی اپنے کارکن صحافیوں کے
متعلق کیا پالیسیاں ہیں اور آئیڈیل طور پر کسی بھی ملک اور معاشرے میں ایک
صحافی اور صحافت کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہے ہم نے اس موضوع پر گفتگو کرنے
کے لیے ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیرکے مقبول ترین پروگرام”لائیو ٹاک ود جنید
انصاری“ میں ایک مذاکرہ رکھا ۔ حسب سابق استاد محترم اور آزاد کشمیر میں
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی شان راجہ حبیب اللہ خان صورت رہبر ایکسپرٹ کی
حیثیت سے پروگرام میں موجود تھے۔ ہم نے پوری دنیا میں صحافت کی معراج کی
منزل چھونے والے جناب مجید نظامی صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس موضوع پرگفتگو
کرنے کے لیے کچھ وقت نکالیں مجید نظامی سے ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو میں
ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ موضوع اتنا سنجیدہ اور اہم ہے کہ ٹیلیفون پر ریڈیو
پروگرام کرنے کی بجائے ہم ان کے پاس بالمشافہ ملاقات کے لیے آئیں اور لاہور
ان کی رہائش گاہ پر اس حوالے سے انٹرویو ریکارڈ کریں تاکہ پر مغز بحث بھی
ہو سکے اور نتائج بھی مرتب کیے جا سکیں اور تمام گفتگو انتہائی واضح طور پر
ریکارڈ ہو تاکہ ایک ریفرنس کے طور پر اسے محفوظ رکھا جا سکے۔ ہم نے صحافت
کے سرتاج اور نوائے وقت گروپ کے چیئرمین جناب مجید نظامی صاحب سے اس شفقت
کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ان سے وعدہ کیا کہ انشاءاللہ جلد ہی ان کی خدمت
میں حاضری دے کر ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو
ٹاک ود جنید انصاری “کے لیے اس تاریخی موضوع پر ان کی تاریخی گفتگو ریکارڈ
کریں گے یہ جناب مجید نظامی کی شفقت ہے کہ انہوں نے ہم جیسے ایک انتہائی
ناقص العقل اور خام صحافی کو اس عزت کے قابل سمجھا کہ ان کے قدموں میں بیٹھ
کر ہم ان کے قیمتی خیالات جان سکیں اللہ مجید نظامی صاحب کو صحت کاملہ عطا
فرمائے اور انہیں نظر بد سے محفوظ فرمائے آمین۔
قارئین ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری“میں گفتگو کرنے کے لیے ہم نے الیکٹرانک
میڈیا کے مقبول ترین اینکرز میں سے ایک اینکر جناب معید پیر زادہ سے بات
کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے کہا کہ یہ موضوع اتنا اہم اور سنجیدہ ہے کہ
وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر گفتگو کرنے کے لیے معروف نشریاتی ادارے کے ڈائریکٹر
مظہر عباس جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق جنرل سیکرٹری
ہیںانہیں رضا مند کیا جائے اور اسی طرح موجودہ صدر پی ایف یو جے جناب پرویز
شوکت سے اس موضوع پر بات کی جائے۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ کے ریفرنس سے ہم نے
ان دونوں معزز شخصیات سے موضوع پر بات کرنے کے لیے درخواست کی تو انہوں نے
کمال مہربانی کرتے ہوئے وقت دے دیا مظہر عباس نے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے
بتایا کہ اس و قت پاکستان میں صحافت اور صحافی انتہائی کٹھن حالات سے گزر
رہے ہیں پاکستان کو صحافت کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں
شامل کیا جا چکا ہے اور اسی طرح پاکستانی صحافی انتہائی مشکل حالات میں
صحافت جیسے پیشے میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں خود کش دھماکوں کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے اس وقت سے لےکر اب
تک متعدد صحافی بم دھماکوں میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ حفاظتی اقدامات
اس حد تک کم ہیں کہ جب بھی کہیں پر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو نشریاتی
اداروں سے تعلق رکھنے والے کیمرہ مین عکس بندی کے لیے جب جائے حادثہ پر
پہنچتے ہیں تو وہاں پر دوسرا بم دھماکہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کئی صحافیوں
نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ مظہر عباس نے بتایا کہ ساتواں ویج بورڈ ایوارڈ
انتہائی مشکلوں اور کاوشوں کے بعد منظور ہوا تھا لیکن اس پر بھی ابھی تک
عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا۔ نشریاتی اور اشاعتی اداروں کی اپنی مشکلات
ہیں لیکن صحافیوں کی مشکلات سب سے بڑھ کر ہیں کہ جنہیں اپنی زندگی میں اپنے
بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن پوری تب بھی
نہیں پڑتی اور اگر وہ صحافی جان کی بازی ہار جاتا ہے تو اس کے اہل خانہ کی
کفالت کرنے کے لیے نہ تو ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے اور نہ ہی
ارباب صحافت اس حوالے سے کوئی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ استاد محترم راجہ
حبیب اللہ خان نے مظہر عباس سے سوال کیا کہ آزاد کشمیر میں بھی ویج بورڈ کے
نفاذ کی بات کی جا رہی ہے آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں کہ کیا پی ایف یو جے
کی مرکزی تنظیم آزاد کشمیر کے صحافیوں کی مشکلات کے حل کے حوالے سے کوئی
پالیسی یا تجویز رکھتی ہے اس پر مظہر عباس کہنے لگے کہ آزاد کشمیر میں
چونکہ ایک علیحدہ حکومت موجود ہے اور قانون ساز اسمبلی بھی کام کر رہی ہے
اس لیے آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ تمام صحافی برادری ملکر
یہ قانون پاس کروائیں کہ صحافیوں کے حقوق وفرائض کیا کیا ہیں مظہر عباس سے
راقم نے یہ سوال کیا کہ آج سے چند قدم پہلے آزاد کشمیر کے ایک انتہائی
سینئر صحافی راجہ ظفر مظفرآباد میں وفات پا گئے تو حکومت آزاد کشمیر نے
حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ان کے اہلخانہ لواحقین کو 25000روپے کی
خطیر رقم عنائت کی اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔ اس پر مظہر عباس جذباتی ہو
گئے اور ان کی آواز بھرا گئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ انتہائی دکھ اور افسوس
کی بات ہے کہ مملکت اور ریاست کی نظر میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا
کرنے والے صحافیوں کی یہ قدر و منزلت ہے۔ مظہر عباس نے بتایا کہ سابق وفاقی
وزیر اطلاعات قمر الزمان قائرہ سے پی ایف یو جے کے مذاکرات جاری تھے اور اس
بات پر اتفاق رائے ہو چکا تھا کہ صحافیوں کی حادثاتی وفات کی صورت میںکم از
کم تیس لاکھ روپے کی انشورنس ہونی چاہیے اور قدرتی موت کی صورت میں پندرہ
سے بیس لاکھ روپے ایک صحافی کے اہل خانہ کو ملنے چاہئیں ابھی قانونی شکل
دینا باقی تھی کہ حکومت ختم ہو گئی۔ ہمارے پروگرام کے دوسرے مہمان پی ایف
یو جے کے موجودہ صدر جناب پرویز شوکت نے گفتگو کرتے ہوئے سب سے پہلے تو
انتہائی جذباتی اور دل جلے انداز میں حکومتوں کے لتے لیے کہ جن کے خیال میں
صحافیوں کی قدرتی ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں اور فرشتوں کی طرح شائد
صحافیوں کی بشری ضرورتیں نہیں ہیں پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں
جتنے بھی ویج بورڈ ایوارڈ منظور کیے گئے ان میں سے ایک بھی ایوارڈ ایسا نہ
تھا کہ جو افہام و تفہیم اور راضی نامے کے ساتھ منظور ہوا ہو تمام کے تمام
ویج بورڈ ایورڈز عدالتوں کے فیصلوں کے بعد نافذ ہوئے۔ پرویز شوکت نے انکشاف
کیا کہ ساتواں ویج بورڈ ایوارڈ بھی تقریباً سات سال مقدمہ لڑنے کے بعد سندھ
ہائی کورٹ کی مہربانی سے فیصلہ صادر ہونے کے بعد نافذ ہوا اور اس پر بھی
عمل ہونا باقی ہے۔ جب راقم نے پرویز شوکت سے راجہ ظفر مرحوم کی وفات پر
حکومت آزاد کشمیر کی پچیس ہزار کی سخاوت کا ذکر کیا تو غصے کے مارے صدر پی
ایف یو جے پرویز شوکت پھٹ پڑے اور وہ کہنے لگے کہ آزادکشمیر کے موجودہ
وزیراعظم اگر چہ ایک کارکن سے ہوتے ہوئے ترقی کرتے کرتے وزارت عظمیٰ تک
پہنچے لیکن وہ کارکن صحافیوں کا درد نہیں رکھتے اور انہیں بھول جانے کی
بیماری بھی ہے کہ اعلانات تو کر دیتے ہیں عمل کرنا یاد نہیں رکھتے۔ پرویز
شوکت نے اشارتاً یہ بھی بتایا کہ وزیراعظم چودھری عبدالمجید اور ان جیسے
دیگر انتہائی معزز لوگ تو ایک ایک رات میںکئی کئی لاکھ روپے ”خرچ “کر دیتے
ہیں لیکن ناجانے کیوں معاشرے میں احساس اور شعور کو اجاگر کرنے والے
صحافیوں کے متعلق نہیں سوچتے۔ ہمارے پروگرام کے تیسرے مہمان سیکرٹری
اطلاعات حکومت آزاد کشمیر شوکت مجید ملک نے انتہائی سنجیدہ اور ٹھوس انداز
میں بتایا کہ حکومت آزاد کشمیر صحافیوں کے مسائل کو سمجھتی ہے اور ان کے حل
کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔ ویج بورڈ ایوارڈ کا آزاد کشمیر میں
نفاذ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پریس فاﺅنڈیشن کے تحت ایکریڈیشن کارڈ ز
کا اجراءایک سنجیدہ کاوش ہے اور تمام ورکنگ جرنلسٹس کو اس کا حصہ بننا
چاہیے۔ شوکت مجید ملک نے کہا کہ وفات پا جانے والے صحافیوں کے لیے تین لاکھ
روپے سے لے کر پندرہ لاکھ روپے تک کی گروپ انشورنس بھی کروائی جا رہی ہے۔
راقم نے جب شوکت مجید ملک سے شرارتاًپوچھا کہ صحافت آپ کے خیال میں کیسا
پیشہ ہے تو ایک انتہائی ذہین بیوروکریٹ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وہ ہنستے
ہنستے کہنے لگے کہ ”صحافت واقعی ایک کھُرک“ ہے ۔ ہمارے پروگرام میں محترمہ
بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں
عبدالرشید نے پیغام دیا کہ صحافت ایک انتہائی مقدس و محترم پیشہ ہے اور اس
پیشے سے وابستہ تمام دیانتدار لوگ انتہائی قابل قدر ہیں اور معاشرے اور
حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کے مسائل حل کریں۔
پروفیسرڈاکٹرمیاں عبدالرشید نے یہ بھی بتایا کہ وہ بھی زمانہ طالبعلمی میں
صحافت کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور وہ اس پیشے کی مشکلات سے بڑی حد تک آگاہ
و آشنا ہیں۔ پروگرام میں ویب سائٹ پر کشمیرسے ایک اخبار شائع کرنے والے
معزز دوست ادریس چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے اس غم کا اظہار کیا کہ باوجود
بڑی بڑی باتیں کرنے کے تمام سیاسی شخصیات صحافیوں کو اشرف المخلوقات نہیں
سمجھتیں اور صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے کسی بھی قسم کا سنجیدہ کام نہیں
کیاجارہا ۔
قارئین آج کے اس کالم کو ہم ناتمام چھوڑ رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ اسے مکمل ہم
اس وقت کریں گے جب صحافت کی آن اور شان جناب مجید نظامی سے لاہور جاکر اُن
کی رہائش گاہ پر ان کی گفتگو ریکارڈ کریں گے تو تب اس موضوع کو ایک کالم کی
شکل میں مکمل کرکے ایک ریفرنس کے طور پر ضمیر کی عدالت میں رکھ دیاجائے گا
تب تک کیلئے آپ سے اجازت چاہیں گے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک دوست نے دوسرے دوست کو بتایا یار بڑے افسوس کی بات ہے میں کل بازار
جارہاتھا تو ڈاکوﺅں نے میری گاڑی روک لی اور نقدی گھڑی سمیت گاڑی بھی لے کر
فرار ہوگئے دوست نے حیران ہوکر پوچھا یار تمہارے پاس تو ریوالور بھی تھا اس
پر پہلے دوست نے کلمہ شکر اداکرتے ہوئے کہا ”ہاں یار شکر ہے ڈاکوﺅں کی نظر
اس پر نہیں پڑی “
قارئین صحافیوں کو بھکاری یا بلیک میلر سمجھنے والوں کو اس درد اور تکلیف
کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس سے اس صحافت کے پیشہ سے وابستہ لوگ گزر رہے ہیں- |