بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اہمیت: قرآن مجید اس روئے زمین پر پوری انسانیت کے لیے اﷲ کی طرف سے نازل کردہ
ہدایت نامہ ہے، جس کی ہدایت پر چلے بغیر اسے نہ تو دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں
کامیابی مل سکتی ہے۔اﷲ کی طرف سے نازل کردہ یہ واحد کتاب ہے جو آج بھی محفوظ ہے اور
رہتی دنیا تک بالکل اسی طرح محفوظ رہے گی۔ لہٰذا اس کو پڑھنا ،سمجھنا اور اس کی
دعوت اورتعلیمات کو عام کرنا ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے۔ دعوت وتبلیغ اور اقامت
دین کے پیغمبرانہ مشن پر چلنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے
اﷲ کی نازل کردہ اس کتاب اور رسول ﷺ کی تعلیمات کا خود گہرا علم حاصل کرے اور اس
مشن کی انجام دہی کے ہر مرحلہ اور موڑ پر ان کا استعمال کرے۔
ضروری امور: اس کتاب کا درس دینے کے لیے درج ذیل امور کا درس سے پہلے اور درس دینے
کے دوران خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔
٭ نیت کی درستگی
٭ دل سوزی
٭ تسلسل
٭ سامعین کی تعداد کی بجائے درس کی اہمیت پر نظر
اہداف: درس ِقرآن کا مقصد اور ہدف بالکل واضح اور متعین ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ درس
کا مقصد:
٭ذمہ داری کا احساس: درس دینے والے چا ہیے کہ سب سے پہلے اپنی حیثیت کا اسے احساس
ہو اور خود کو بھی اس درس کا مخاطب سمجھے۔
٭ تعلق باﷲ پیدا کرنا: اﷲ کے بندوں کو اﷲ کے کلام کے ذریعہ اﷲ سے جوڑنا ہے۔
٭تبلیغ رسالت: انبیاء کرام اور بالخصوص آخری رسول ﷺ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا
ہے۔
٭تزکیۂ نفس: فکر آخرت کے ذریعہ نفوس کا تزکیہ،اسلامی احکام کے ذریعہ معاشرے کی
اصلاح اورایمانیات کے ذریعہ انسانیت کی نجات ہے۔
٭صالح جماعت کی تیاری: صالح افراد کو جمع کرنا اور انہیں نیکی کے کاموں کے لیے تیار
کرنا ہے۔
ملاحظہ: تیاری کے بغیر کبھی درس نہ دیں ورنہ ناقص اورناتمام معلومات اور غیر مربوط
انداز ِبیان کی وجہ سے درس غیر مؤثر ہوگا اور اس کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
آداب:
درس سے پہلے جن امور کا لحاظ ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں۔
ٓ٭بغورتلاوت: درس دی جانے والی آیات کی پوری توجہ سے تلاوت کریں۔ دوران ِتلاوت ہر
لفظ پر غور کریں اور آیات کے باہمی ربط کے ساتھ ساتھ الفاظ کے باہمی ربط پر بھی غور
کریں۔ اس لیے کہ قرآن بار بار اپنے مخاطب کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔
٭ربط کلام کا لحاظ: نظم ِکلام قرآن کا اہم ترین حصہ ہے ، اسے کبھی نظر انداز نہ
کریں۔ سورت کے مرکزی عنوان کا پتا لگانے کے ساتھ آیات میں مذکور مفاہیم کو بھی
معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن عوام الناس کو اس کی باریکی میں الجھانے سے گریز
کریں۔
٭انذار وتبشیر پر نظر: قرآن کے انذار وتبشیر(ڈراوا اور خوشخبری) کو کبھی نظرانداز
نہ کریں بلکہ اس پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور ان پہلووں کو ذہن نشین کرلیں،اس لیے
کہ اصلاح نفس کا یہی مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
٭طریقۂ تفسیر: آیات کی تفسیر میں پہلے آیات، پھر احادیث، پھر سیرت اور اقوال ِ
صحابہ اور آخر میں علماء کے اقوال سے مدد لیں، تاکہ قرآن کی تشریح مقصدِقرآن کے
دائرہ میں ہو۔
٭خلاصہ تیار کرنا: دوران ِ مطالعہ اپنے درس کو نکات میں تقسیم کر لیں تاکہ اپنے درس
کو مربوط اور منظم انداز میں پیش کر سکیں۔
دوران ِدرس قابلِ لحاظ امور درج ذیل ہیں۔
٭انشراح صدر کی دعا: سب سے پہلے اﷲ سے انشراح صدر اور زبان کی سلاست کے لیے دعا
کریں جیسا کہ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ رب اشرح لی صدری ویسر لی أمری واحلل عقدۃ من
لسانی یفقہوا قولی۔
٭ترتیل ولحن: درس دی جانے والی آیات کی خوش الحانی اور ترتیل کے ساتھ تلاوت کریں اس
لیے کہ قرآن اپنے اندر خود ایک تاثیر رکھتا ہے جس کا بار بار مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
رسول ﷺ کا فرمان ہے:ـ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خوش الحانی سے قرآن نہیں پڑھتا۔‘‘
(بخاری)
٭سلیس ترجمہ: آیات کا ترجمہ معیاری ادبی اور سلیس زبان میں ہو تاکہ سامعین دل چسپی
اور پوری توجہ سے سن کر سمجھ سکیں۔ لفظی ترجمہ سے بچیں ، اس لیے کہ ہر زبان کا اپنا
اسلوب ہوتا ہے جس کے اختیار کرنے میں ہی تاثیر ہوتی ہے۔
٭عبارت آرائی سے پرہیز: مشکل الفاظ ، طول بیانی اورپرُ تکلف عبارت سازی سے پرہیز
کریں اس لیے کہ اﷲ کا کلام انسانوں کی سمجھ سے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح اﷲ کے لیے اس
کے شایان شان الفاظ، رسولوں کے لیے ان کے شایان شان،ایمان والوں کے لیے ان کے مناسب
ِ حال اور کفار و مشرکین کے لیے انہی کے مناسب الفاظ استعمال کیے جائیں۔
٭پس منظر اورخلاصہ : سورہ اور آیات کا پس منظر اور خلاصہ نہایت مختصر الفاظ میں
بیان کردیں۔
٭مشکل الفاظ کی وضاحت: سامعین کے معیار کا خیال رکھتے ہوئے مشکل الفاظ کی وضاحت
کردیں۔
٭تزکیہ نفس پر نظر: انذار وتبشیر کے اسلوب پر نظر رکھیں اور دوران ِ درس اس سے بھر
پور مدد لیں۔ اسی طرح آیت میں بیان کردہ صفات ِالٰہی کا ربط بھی بیان کریں کہ اﷲ کی
ان صفات کا یہاں کیوں ذکر ہوا ہے۔ واقعات بیانی کی بجائے سامعین کے تزکیہ کو اپنے
پیش نظر رکھیں۔
٭مرتب ترجمہ وتشریح: آیات کی ترتیب وار تشریح کرتے جائیں اور قرآنی نظائر و مستند
احادیث و سیرت کے واقعات سے مدد لیں۔ غیر مستند واقعات بیان نہ کریں اس لیے کہ
’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔‘‘
(مسلم)
٭غیرضروری تفصیل سے احتراز: قرآن حصولِ مقصد کے لیے غیر ضروری تفصیلات میں جانے سے
گریز کرتا ہے ۔ لہذاموضوع سے ہٹ کر جزئیات میں نہ الجھیں کہ درس کا مقصد ہی فوت ہو
کر رہ جائے۔ مثلاً کسی لفظ کی تشریح کرتے ہوئے درس کا اکثر وقت اسی میں نہ گزار
دیں۔
٭مقصد درس پر نظر: درس دیتے ہوئے کبھی بھی مقاصد درس نگاہ سے اوجھل نہ ہوں۔
٭موجودہ حالات سے ربط پیدا کرنا: ممکن حد تک درس کی تعلیمات کو حالات ِ حاضرہ سے
جوڑیں اور متعلق لوگوں اور حالات کے درمیان مناسبت بیان کریں تاکہ پورا منظر سامعین
کی نگاہوں میں آجائے اور ان کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ قرآن آج بھی حالات
پراتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا نزول کے وقت تھا۔
٭خلاصۂ درس: آخر میں ایک بار پھر خلاصہ بیان کردیں تاکہ پوری بات سامعین کے ذہن
نشین ہوجائے۔
٭دعا: دعا پر اپنے درس کو ختم کریں اور اﷲ سے توفیق مانگیں کہ اس کی توفیق کے بغیر
کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا من الأولیٰ
،ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علیناا نک انت التواب الرحیم وآخر دعوانا
ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
٭سوال وجواب: درس کے بعد سوال وجواب کے لیے بھی موقع دیں تاکہ سامعین کے اندر اگر
کوئی خلش رہ گئی ہو تو اس کو دور کرسکیں۔ اگر فوری طور پر جواب نہ دے سکتے ہوں تو
خوش اسلوبی سے آئندہ کے لیے وعدہ کرلیں اور اس کو اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنائیں اس
لیے کہ اسلاف کا یہی طریقہ تھا۔
اللھم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا من الأولیٰ ،ربنا تقبل منا انک انت
السمیع العلیم وتب علیناا نک انت التواب الرحیم وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب
العالمین۔ |