کتاب کو دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں ایک بہتر ین ساتھی
قرار دیا جاتا ہے۔عصرحاضر میں ہماری نوجوان نسل نے خود کو کتاب اور اسکے
مطالعے سے کافی حد تک دور کر لیا ہے۔ کتابوں کو محض امتحانات میں کامیابی
اور اگلے درجے تک رسائی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ بیشتر دوستوں نے
کتابوں میں درج جوابات کا رٹا لگانے کی الجھن سے بھی خود کو آزاد کر لیا ہے۔
آج کے طالبعلموں کا کتابوں کے ساتھ سلوک کچھ عجیب اور منفرد انداز کا ہے،وہ
اہم سوالات کے جوابات کوعمدہ طریقے سے تراشنے کے بعد ان کی کتروں کو پڑیوں
کی صورت میں ڈھال کر انتہائی خفیہ ٹھکانوں میں پناہ دیتے ہوئےامتحانی مراکز
کا رخ کرتے ہیں۔ یوں ہم مطالعے کی چند روزہ زحمت سے بھی اپنی مجرمانہ
کاروائی کی بدولت چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں۔یوں کتاب اور مطالعے کی دوری نے
ہمارے اذہان کو غیر مللکی ایکشن اور شدت آمیز مناظرسے مزین فلموں کی جانج
راغب کر دیا ہے۔مطالعہ کتب اور کہانیاں سننے،سنانے کا رواج تقریبا ختم ہو
چکا ہے۔چند عشرے قبل عشا کی نماز کے بعد گھر کے تمام بچے اپنی نانی
اماں،دادی اماں کے پاس اکٹھے ہوتے اور ان سےمزے دار اورنصحیت آموزکہانیاں
سنا کرتےتھے۔دور حاضر میں مطالعے کے رواج کو معدم کرنے میں جہاں دیگر متعدد
امور اپنے اپنے انداز سے کارفرما ہیں،موبائل فون کے منفی استعمال نے بھی
انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے جس کے باعث گزشتہ چند برسوں کے دوران ھماری
نوجوان نسل میں کتاب اور مطالعے میں عد م دلچسپی کا رحجان بہت تیزی سے بڑھا
ہے۔ مطالعے سے دوری کے سبب ہم اردو ادب سے بھی خاصے غیر مانوس ہوتے جا رہے
ہیں۔اردو ادب اور قومی زبان کو فروغ دینا بحثیت پاکستانی ھماری زمےداری
ہے۔مندرجہ بالا عوامل کو مدنظررکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ اخبارات و رسائل
سمیت تمام مفیدومعلوماتی کتابوں کا نہ صرف خود مطالعہ کریں بلکہ اپنے دیگر
دوستوں اور ساتھیوں کی بھی توجہ اس جانب مبذول کروائیں ۔کسی نےسچ کہا ہے کہ
اچھی اور بامقصد کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہیں ۔علاوہ ازیں علم کے
سمندر سے ذہن کی پیاس بجھانے کا ایک بڑا ذریعہ مطالعے کی عادت ہے جسے ہر
عمر کا فرد اپنے ذوق کے مطابق استفادہ کر سکتا ہے -
سحرش جمال
گر یژن یونیورسٹی |