آجکل دینی مدارس وجامعات کے طلبہ وطالبات ہوں،یا
اسکول،کالج اور یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس، سب ہی کے بارے میں یہ شکایت زبان زد
ِخاص وعام ہے کہ ان میں مطلوبہ ٹیلنٹ، استعداد وقابلیت پیدا نہیں ہورہی،
ماضی کی طرح رجال ِکار اور علوم وفنون کے ماہرین پیدا نہیں ہورہے، کسی علم
و فن کا ماہر چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، قحط الرجال کا دور
ہے۔طلبہ تحصیل علم کے لیے محنت کرتے ہیں اورنہ ہی دلچسپی لیتے ہیں روز بروز
انحطاط بڑھ رہاہے،طلبہ کو اس کا احساس ہی نہیں، بلکہ بسااوقات ان کا توکوئی
ہدف ہی نہیں ہوتا۔۔۔
اس علمی انحطاط وزوال کا سارا ملبہ طلبہ وطالبات پرہی گرایا جاتاہے،اور
انہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے،اساتذہ،انتظامیہ اور والدین کی جانب
سے طعن وتشنیع کا نشانہ بھی یہی مخلوق بنتی ہے، یہ بات ایک حد تک تسلیم کی
جاسکتی ہے کہ طلبہ میں ماضی کی طرح علم کی محبت وحرص،بلند ہمتی اور
مستعدی،تحصیل علم میں اخلاص،اساتذہ کی تعظیم اور تحصیل علم کیلئے سفر،
ماہرین فنون کی تلا ش، استفادے کا شوق، اور ہدف کا فقدان ہے ،لیکن اس حقیقت
کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، جس کی طرف میں قارئین کو دعوتِ فکر دے رہاہوں، وہ
یہ کہ ہم نے کبھی سوچاہے ، یہ کمزور طلبہ (جو بعد میں کمزور اساتذہ بنتے
ہیں )کہاں سے پیداہورہے ہیں ؟ان کو پڑھانے والے اساتذہ کون ہیں؟ کن صفات کے
حامل ہیں ؟کیا وہ تدریس کا پوراحق اداکرتے ہیں ؟کیا وہ علمی امانت کو طلبہ
میں سپرد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ کیا وہ ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہیں ؟وہ
محترم ضرور ہیں، لیکن کیا تنقید سے بالاتر ہیں؟ کیاوہ طلبہ کی کمزوری کے
ذمہ دار نہیں ؟کیا وہ اس سے مبرا ہیں ؟
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ، اساتذہ قابل ہوں تو شاگرد بھی قابل، اساتذہ
کمزور تو شاگرد بھی نالائق ہوتے ہیں۔ دنیا میں یہ بات مسلّم ہے کہ جب بھی
کوئی انسان کسی عبقری اور قابل وماہر شخصیت سے متأثر ہوتاہے تو اس سے کوئی
یہ نہیں پوچھتا ، جناب آپ نے کونسی کتاب پڑھی ہے؟ بلکہ اس سے یہ سوال ضرور
کر تے ہیں’’تیرا استاد کون ہے ؟‘‘ کیوں کہ انسان کے اندر کمال استاد سے
پیدا ہوتاہے ،محض کتاب سے نہیں، لہذا طلبہ کی کمزوری اور انحطاط کا ذمہ صرف
انہی کو ٹھہرانااور معلمین کو اس سے بریٔ الذمہ کرنا کسی طرح قرین انصاف
نہیں،اگر ہم طلبہ سے یہ گلہ کرتے ہیں کہ ان میں ماضی کے طلبہ جیسے اوصاف
نہیں تو ہم اس کہنے میں بھی حق بجانب ہونگے کہ اس دور کے اکثر اساتذہ بھی
دور سابق کے اساتذہ جیسے اوصاف سے متصف نہیں۔
معلم تعلیم دینے میں انبیا ء علیہم السلام کا نائب اوروارث ہے، معلم سب سے
پہلے پختہ عقیدہ رکھے گا کہ تعلیم ایک ربانی عمل ہے، حق تعالیٰ نے حضرت آدم
علیہ السلام کو اسماء کی تعلیم دی اور قلم کے ذریعے سے انسان کو وہ کچھ
سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا، معلم اس بات کا استحضار کرے کہ درس وتدریس
بڑامقدس مشغلہ ہے کیونکہ یہ تمام انبیاء علیہم السلام کامشغلہ رہا ہے، رسول
اﷲ ﷺ کو معلم بنا کر بھیجا گیاہے، معلمین انبیاء علیہم السلام کے وارث
ہیں،تو تعلیم بہترین مؤرثین کی اعلیٰ میراث ہے،جب معلم اپنے عظیم منصب
کااحساس کریگا تو اپنے اعمال واخلاق بھی اس جیسے اپنا ئے گا،اور اس کے اندر
فکری بلندی پیدا ہوگی،سچاجذبہ پیداہوگا، محض تنخواہ وملازمت اس کا ہد ف
وترجیح نہ ہوگی۔ معلم کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ جوکتاب وفن اسے پڑھانے کے
لئے سپرد کیا جائے، اس فن کی متعلقہ تمام معلومات طلبہ کو فراہم کرے اوریہ
تب ہوسکتاہے کہ وہ پہلے خود اس سے مالا مال ہواگر وہ خود اس سے تہی دست
ومحروم ہے تو طلبہ کو کیا دیگا؟ کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ انسان کے پاس جو
چیز خود موجود نہ ہو وہ دوسرے کو نہیں دے سکتا۔تخصصات اور اسپیشلائزیشن کا
رجحان واہمیت اسی نکتے سے پیداہواہے کیونکہ کسی فن میں تخصص کرنے سے انسان
اس فن کی معتدبہ معلومات کا حامل بن جاتاہے، اس فن کے نشیب وفراز سے خوب
واقف ہوجاتاہے، اس سے وہ قابو میں آجاتاہے، پھر وہ ماہرِ فن جس اسلوب
وپیرائے میں چاہے اپنا فن پڑھا، سمجھا سکتاہے، علم کے حریص طلبہ کو اسی طرح
کی شخصیات کی تلاش ہوتی ہے، اور وہ اسی کا رخ کرتے ہیں۔
فن کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ تربیت کے طریقے جانتاہو،
کیونکہ طالبِ علم کسی آلہ کا نام نہیں کہ جسے آپ اپنے سامنے رکھ کرتمام
معلومات اس میں بھر دیں، بلکہ وہ انسان ہے، اس کے اندر روح ہے، عقل ہے، اس
کے جذبات و نفسیات ہیں، اس لیے معلم ان تمام پہلووں پر نظر رکھتے ہوئے
ہرطالبِ علم سے مناسب برتاؤبرتے، اس کے لیے طرقِ تربیت سے آگاہی لازمی ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سمجھانے کا گُر جانتاہو، اس کے کلام میں فصاحت و
بلاغت ہو تاکہ اس کی مدد سے وہ طلبہ تک اپنی معلومات، افکار، توجہات اور
مہارتیں بآسانی پہنچاسکے، اس کی چند بنیادیں ہیں:
معلم کی زبان صاف ہو، گفتگو واضح ہو، جسے تمام طلبہ آسانی سے سمجھ سکیں،
کلام میں وقفہ ہو،لگاتار نہ ہو، آواز بقدرِ ضرورت بلند ہو، نہ زیادہ
بلندہوکہ باعثِ تکلیف بنے اور نہ زیادہ پست ہوکہ نہ سنی جائے، کلمات کی
نوعیت، جملوں کی بناوٹ عقلی معیار و استعداد کے موافق ہو، تفہیم ِ درس کے
لیے مختلف اسالیب کی قدرت رکھتاہو، مشکل الفاظ استعمال کرنے سے احتراز
کرتاہو، بسااوقات ایک معلم ایک لفظ کو آسان سمجھ کر اس خیال سے استعمال
کرتاہے کہ سب طلبہ اس کا معنی سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا، سیدا
لمعلین رسول اﷲ ﷺ جب گفتگو فرماتے تو اہم بات کو تین مرتبہ ارشاد فرماتے ،تاکہ
اچھی طرح سمجھی جائے۔ معلم کی کامیابی کا اولین راز اس کا تدریسی شوق اور
اشاعت ِ علوم کا جذبہ صادقہ ہے، معلم میں جب تک پڑھانے کاشوق و جذبہ اور
علمی امانت کو بحسنِ وخوبی آگے پہنچانے کا عزمِ مصمم نہ ہو، تووہ اپنے اس
مقدس مشغلے میں مخلص نہیں ہوسکتا، بالفاظ دیگر وہ تدریس میں کبھی کامیاب
نہیں ہوسکتا۔
طلبہ میں جو نقصِ عام پایاجارہاہے کہ وہ کام کے آدمی ثابت نہیں ہوتے، اس کا
اولیں سبب یہ ہے کہ ماہرینِ فن کا قحط ہے، اور پھر کوئی ماہربھی ہوتو اسے
اشاعتِ علوم کا جذبہ نہیں، اور یہ کام ہمیشہ سچے جذبے سے ہوتاہے، محض
مشاہرہ وملازمت سے نہیں۔ معلم اس عظیم اجروثواب کی طرف دیکھیں جو اس کو اﷲ
کی طرف سے ملتاہے بشرطیکہ نیت درست ہو،نیز اس بات کا دھیان رکھے کہ یہ طلبہ
مستقبل میں معاشرے کے معمار اور قائدین ہیں۔ گویا ٹیچرز اور اساتذہ مستقبل
کے معاشرے کی بنیادیں رکھ رہے ہیں ۔ جس میں خشتِ اول کا صحیح و مستقیم ہونا
ازحد ضروری ہے۔ورنہ:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج۔۔تاثریا می رود دیوارکج۔ |