نائلہ جوزف دیال
اقبال کا انسان دوستی کا نظریہ آفاقی ہے۔ وہ فرد کے جذبات و احساسات کے قدردان اور
ترجمان ہیں چاہے اُس کا کسی خطے، کسی مذہب اور کسی زمانے سے تعلق ہو۔ فرد کی قدر و
قیمت اقبال کے فلسفہ زندگی کا رکن اول ہے۔ وہ فرد کو یہ سبق دیتے ہیں کہ وہ عظیم ہے۔
تخلیق قدرت کا شاہکار ہے۔ اس میں صلاحیتوں اور توانائیوں کی لامحدود وسعتیں اور
گہرائیاں پنہاں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فرد اپنی ذات کو پہچانے۔ اپنی ذات پر
اعتماد رکھے۔ اپنی شخصیت کو مضبوط کرے اور اندرونی صلاحیتوں کو بیدار کرکے اپنی
روزمرہ کی اجتماعی زندگی میں فعال کردار ادا کرے۔ اقبال کا نظریہ خودی ہر انسان اور
ہر قوم کے لئے ہے۔
اقبال کے کلام میں خدمت انسانیت کا درس ہے۔ غریبوں، بے کسوں کی امدا دکرنا ہی اصل
انسانیت ہے۔ اس میں علم کے حصول کی بھی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ انسان کو مہذب بنانے
کے لئے علم اور تعلیم کی لازمی حیثیت ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان میں انسانیت اور
انسان دوستی علم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اقبال کی نظم ”بچے کی دُعا“ میں یہ بھی
تعلیم ہے کہ ہر انسان کو معاشرے کے لئے مفید ہونا چاہئے، چاہے وہ شمع کی طرح خود
جلے لیکن دوسروں کو اپنی روشنی سے راستہ دکھائے
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اقبال انسان دوست مفکر کی حیثیت سے غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کے پاسبان تھے۔ وہ
معاشرے کے ان محروم، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کو جگاتے ہیں۔ اُنہیں اعتماد اور
حوصلہ دیتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ وہ سرمایہ داروں کی چالوں سے ہوشیار رہیں
اور خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اقبال مزدور
اور نادار کو پروانے سے جگنو بننے کی تلقین کرتے ہیں۔ پروانہ شمع پر فدا ہو جاتا ہے
لیکن جگنو اپنی اندرونی روشنی میں راستہ دیکھتا ہے اور پرواز کرتا ہے۔
بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہاءسادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اقبال محکوم و مجبور انسانوں کی آواز تھے۔ وہ کمزور انسانوں کو مضبوط بنانا چاہتے
تھے تاکہ وہ اپنے حقوق حاصل کرسکیں لیکن وہ ایسی طاقت کے قائل نہ تھے جو آئین و
قانون کی پابند نہ ہو۔ وہ تو انسان کامل کے لئے بھی اخلاقی اقدار اور آئین کی
پابندی کو ضروری قرار دیتے تھے۔ اقبال انسان دوست ہونے کے لحاظ سے دنیا میں امن و
سکون اور عدل و انصاف کا قیام چاہتے تھے۔
اقبال کی نظم بعنوان ”فرمانِ خدا (فرشتوں سے)“ سرمایہ داری نظام کے خلاف شدید جذبات
کا اظہار ہے۔ اس اظہار میں انسان دوستی کے جذبات مضمر ہیں۔ اقبال عوام الناس کے
حقوق کے تحفظ کے لئے اُن میں اعتماد اور قوت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ اس قسم
کا نظام چاہتے ہیں جس میں انسان کی عزت ہو، احترام آدمیت ہو، وسیم ہدفِ زندگی نہ ہو
بلکہ اعلیٰ انسانی اخلاق کی ترویج اور کمال انسانیت کا حصول، زندگی کا نصب العین
ہو۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
آخر میں آپ کو وہ پیغام دینا چاہتی ہوں جو اُمید کا پیغام ہے، جو انسانیت کے روشن
مستقبل کا پیغام ہے، سب سے بڑھ کر یہ میرا نہیں اقبال کا پیغام ہے۔
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضاءدیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کا ذرا دیکھ |