ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کی شادی اس کے ساتھ والے گاؤں میں طے پائی کہ فلاں
دن دولہا بارات لے کر آئے اور اپنی دلہن لے جائے لیکن ساتھ میں لڑکی والوں نے ایک
شرط بھی رکھ دی کہ دولہا اپنے ساتھ جو بارات لائے گا اس میں ایک سو نوجوان ہونے
چاہیں اور کوئی بھی بوڑھا شامل نہیں ہونا چاہیے،یہ عجیب شرط سن کر دولہے والے بڑے
حیران ہوئے پر پھر بھی شرط منظور کر لی۔ لیکن دل ہی دل میں وہ پریشان بھی تھے کہ
آخر ایسا کیا ماجرا ہے اور کیوں بوڑھوں کو ساتھ لانے سے منع کیا گیا ہے۔ دولہے کے
گاؤں کے نوجوان خوش تھے کہ اس بارات میں کوئی بڑا بوڑھا نہیں جائے گا اور وہ مزے
لوٹتے اور ہنستے کھیلتے بارات لے کر جائیں گئے۔ دوسری جانب گاؤں کے بڑے دانا بوڑھے
پریشا ن ہو رہے تھے کہ آیا انہیں کیوں روکا گیا ہے۔ خیر بارات کے جانے کا دن آن
پہنچا ،دولہے کا سہرا باندھا گیا ،جب بارات دوسرے گاؤں روانگی کے لیے تیار تھی تو
اسی لمحے گاؤں کے بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بارات کے ساتھ ایک بوڑھا تھوڑے فاصلہ
رکھ کر جائے گا اور سارے معا ملات پر نظر رکھے گا۔ نوجوانوں کو یہ بات بری لگی
انہوں نے کہا کہ ہم ایک سو نوجوان ہیں،ہم ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں،ہم اپنے بھائی کی دلہن لے کر لوٹیں گے چاہے جو مرضی ہو جائے،مگر بڑے بزرگ
نہیں مانے اور ایک بوڑھے کو بارات سے فاصلہ رکھ کر چلنے کو کہا،بارات جب روانہ ہوئی
تو راستے میں نوجوانوں نے دل میں بہت برا محسوس کیا کہ ہم ایک سو نوجوان جو بہادر
ہیں،طاقت رکھتے ہیں،توانا ہیں،بڑے بڑے پہاڑوں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو
ایسے میں ایک بوڑھے شخص کا جو مشکل سے چل رہا ہے ،ہاتھ میں اس کے لاٹھی ہے،آنکھوں
پر چشمہ لگایا ہوا ہے،کھانس کھانس کر اور بلغم تھوکتا ہوا ساتھ آ رہا ہے،اس کا کچھ
فائدہ نہیں،خیر دل میں برا بھلا کہتے ہوئے یہ نوجوان اپنے بھائی،دوست کی بارات لیے
دوسرے گاؤں میں دلہن کے گھر پہنچ گئے،دلہن کے عزیز و اقارب نے جب باراتیوں کو گننا
شروع کیا تو وہ پورے ایک سو صحت مند و توانا اور جوشیلے نوجوان ان کے سامنے موجود
تھے اور ان میں کوئی بھی بوڑھا موجود نہیں تھا،یہ دیکھ کر وہ دل ہی دل میں مسکرائے
اور کہا کہ دولہا کا نکاح اب اس وقت ہی ہو گا جب دوسری شرط بھی پوری کی جائے گی
اوردوسری شرط یہ ہے کہ جب ایک سو نوجوان ایک سو بکرے کھائیں گے تب ہی نکاح اور دلہن
کی رخصتی ممکن ہوگی،شرط کے سنتے ہی نوجوانوں کے اوسان خطا ء ہو گئے اور وہ پریشانی
سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے
لگے کہ اب کیا ہو گا؟ ان نوجوانوں میں سے ہی ایک نوجوان کو اچانک خیال آیا کہ بارات
کے ساتھ ایک بوڑھا بھی کچھ فاصلہ رکھ کر ان کے پیچھے آ رہا تھا ،وہ نوجوان مجمعے سے
آنکھیں بچاتا اور چھپتے چھپاتے ہوئے باہر کو نکلا اور فاصلہ رکھ کر ساتھ آنے والے
بزرگ کو ڈھونڈنے لگا ،اس نوجوان کو وہ بزرگ ایک درخت کی اوٹ میں آرام کرتے ہوئے ملے
اور اس نے جلدی سے سارا واقعہ ان کے سامنے بیان کیا اور رہنمائی طلب کی،بوڑھے نے
سارا واقع سنا اور کہا کہ تم واپس جاؤ اور دلہن والوں کے سامنے اپنی شرط پیش کرو کہ
بکر ا ایک ایک کر کے ان کے سامنے لایا جائے اور جب ایک بکر ا ان کے سامنے پہنچے تو
سب نوجوان ایک دم ہی اس پر ٹوٹ پڑیں اور اکٹھے کھائیں۔ نوجوان بوڑھے شخص سے ہدایات
لے کر واپس پہنچا اور اس نے وہی کیا جیسا کہ اسے ہدایت کی گئی تھی،یہ سارا منظر و
ماجرا دیکھ کر دولہن والے پریشان ہوگئے اور دولہے والوں نے دلہن والوں کی یہ شرط
پوری کر دی اور ایک سو بکرے کھا لیے۔اور پھر نکاح کے بعد دلہن کو لے کر بارات ہنسی
خوشی واپس آ گئی ۔نوجوانوں کو پھر احساس ہوا کہ کس طرح ایک بزرگ نے رہنمائی کر کے
ان کی پریشانی کو راحت میں تبدیل کر دیا ۔
اوپرکی سطور میں تمثیلاً ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آج ہم اپنے بزرگوں کا وجود
اپنے لیئے غیر اہم سمجھتے ہیں۔ ان کی صحبت میں وقت گزارنا ہم پر گراں گزرتا ہے چہ
جائے کہ ہم ان کی نصیحت آموز باتوں کو اپنے لیئے توشۂ زیست سمجھیں۔ کہنے کا مقصد یہ
ہے کہ ہم نوجوان جذباتی ہیں جو ظاہری دکھائی دے رہا ہوتا ہے اسے سب کچھ تصور کرلیتے
ہیں جبکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھ پاتے جو بزرگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بزرگوں
نے اپنی زندگی کے تجربات سے گزرتے ہوئے اپنے بال سفید کیئے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس علم
وعمل ،مشاہدات و تجربات کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ہم نوجوانوں کو چاہیے کہ
جذبات کو ایک طرف رکھ کے اپنے بزرگوں کی حکمت بھری باتوں پر عمل کرتے ہوئے ان کے
تجربات سے مستفید ہوں ۔ یقیناً بزرگوں و داناؤں کی حکمت بھری گفتگو اوررہنمائی ہم
نوجوانوں کو زندگی میں کبھی کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔نیک بزرگوں،بڑوں ،داناؤں
کی صحبت کسی بھی صحت مند معاشرے کا سرمایہ ہوا کرتی ہے۔ نوجوانوں کی ناکامی کا ایک
سبب یہ بھی ہے کہ ان کے پاس سب کے لیے وقت ہے مگر اپنے بزرگوں کے ساتھ کچھ پل
گزارنے کا وقت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نوجوانوں کو ان کی باتیں نشترکی طرح چھبتی ہیں
کیونکہ وہ باتیں حقیقت پر مبنی ہوتیں ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرانے
کے لیے نوجوان بڑوں ،بزرگوں اور داناؤں کی مجالس سے دوری اختیارکرتا ہے۔ ہمیں اس پر
سوچنا ہو گا کہ صحت مند معاشرے اور آئندہ آنے والی نسلی کی ترقی کے حصول کی خاطر
بزرگوں سے رہنمائی لینا ہوگی اور یہی ہماری کامیابیوں کے لیے راہیں متعین کرے گی۔ |