یہ ہم کون سی دنیا میں جی رہے ہیں، نہ بچپن محفوظ ہے نہ جوانی اور نہ
ہی بڑھاپا۔ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ سکون کہیں نہیں،جہاں عدل و انصاف کا
بول بالا تودیکھا جاتا رہا ہے مگر اب یہاں کے لوگ صرف انصاف کے طلبگار ہیں
اب تو یہ حال ہے کہ یہاں بے گناہ لوگوں کا خون بہتا دیکھ کر تو جنگل کا
نظام بھی شرمسار ہو رہا ہے۔ کیا ان تمام صوتحال کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ
ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے یا پھر سرِ عام پھانسی پر لٹکا
دیا جائے ۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ عالمی سطح پر انسان ترقی کی
منازل طے کرتا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی اپنے لئے آسائشیں بھی پیدا کرتا جا
رہا ہے لیکن ہمارا ملک اور یہاں کے لوگوں کو ان تمام ترقیوں کے ثمرات سے
نابلد رکھے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور کی جا رہی ہے۔ بد عنوانی، بد
اخلاقی، بے شرمی، بے حیائی ، فحاشی، بلا وجہ قتل و غارت گری کا بازار پہلے
سے زیادہ اب گرم ہے۔ پہلے جو باتیں معتوب و خلاف ادب تھیں اب ڈھڑلے سے فیشن
و تہذیب کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ نادیدہ قوتیں وقت کے ساتھ اخلاقی قدریں
بدلنا چاہتی ہیں شیطان صفت انسان دشمنِ وقت ہیں ۔ شیطانیت و جنگل کے قانون
کو عام کرنے کی کوششیں اور جتن عام ہوتی جا رہی ہیں۔ دراصل یہ انسانیت کی
تباہی امن بقائے عام کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔ انسانیت کی بقا و فکر
کے لیے بے پناہ ادارے اور تنظیمیں عام ہیں جن کا وجود ملکی اور بین
الاقوامی سطح پر کیا کر رہی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے ان اداروں اور تنظیموں
پر شیطانی و طاغوتی قوتوں نے قبضہ کر لیا ہے ۔ آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت
اس بات کی ہے کہ شیطانیت، بربریت، فحاشی، عریانیت کا خاتمہ ہو۔ ناداروں،
کمزوروں ، کسانوں ، مزدوروں اور متوسط طبقے کے ملازموں کو اس کا حق ملے ۔
کاش کہ اصلاح معاشرہ اور انسانیت کی تعمیر و بقاءکی خاطر ہمارے حکمران سچے
دل سے عملی اقدامات اٹھائیں۔ انہین سماج کی تعمیر و بقاءکے لئے تعمیری
کردار ادا کرنے میں کون سی رکاوٹ درپیش ہے۔ ہر چیز ان کے طابع ہے پھر دیر
کیوں؟ اگر میں کہوں کہ زیادہ میٹھا کھانے سے دانت کمزور ہوجاتے ہیں اس لئے
کبھی کبھی ضرورت پڑنے پر کھٹا بھی کھا لینا چاہیئے۔ دوسروں کی طرف مت
دیکھئے اور ایسے مثال میں شامل مت ہوں کہ” میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا
تھو تھو“دونوں کے ذائقے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اس لئے حالات کی
بہتری کے لئے اگر کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑے تو پی جائیں تاکہ عوام کو سکون
نصیب ہو سکے۔ مصلحت پسندی کو چھوڑیئے اور عملی اقدامات کیجئے جس سے نظر آ
سکے کہ آپ نے عوام کے لئے کچھ کیا ہے۔ اپنے آپ کی اصلاح کئے بغیر ہم معاشرے
کے لوگوں کی اصلاح کر ہی نہیں سکتے۔ آج انسانیت عدل و انصاف کے لئے تڑپ رہی
ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ چل رہا ہے۔ ہمارا اور آپ کا یہ
اخلاقی فرض ہے کہ انسانیت کی تباہی و بربادی کو روکیں ورنہ کل خدا کے یہاں
ہماری بھی پکڑ ہوگی۔ آج ہمارے اعمال کا دن ہے۔ کل یومِ حساب ہوگا۔ اُس دن
کے سفر کی تیاری ہمیں آج سے ہی کرنا ہے۔
معاشرے میں اس وقت نئی کروٹ اور نئی روح کروٹ لے رہی ہے ۔ ظالموں کی
حکمرانی کو پسند کرنے والے بھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ پڑھے لکھے تو ہر
جماعت میں ملتے ہیں مگر ہر جماعت میں جعلی ڈگریاں پکڑی جا رہی ہیں ۔
ماسوائے چند ایک جماعت کے لوگوں کے، کیونکہ ان کے لوگ نہ صرف پڑھے لکھے
بلکہ خالص پڑھے لکھے ہیں اور ہر مصیبت اور ہر مشکل کا توڑ رکھتے ہیں۔ چند
سال پہلے کراچی کیا تھا اب کراچی کا نقشہ ہی بد ل چکا ہے اس کو کہتے ہیں
عوام سے محبت۔ آج بھی اگر مکمل اختیارات کے ساتھ ایسے لوگوں کو حکومت مل
جائے تو کراچی میں امن و امان لانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ یہ
سب لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کا دُکھ درد سمجھتے
ہیں اور ان کی پریشانیوں کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔مگر اس ملک کا
وطیرہ یہ رہا ہے کہ اچھے لوگوں کو کام کرنے کا اور ملک کو ترقی کے ثمرات
پہنچانے کا موقع ہی نہیں دیاجاتا ۔ پتہ نہیں ہماری سیاست کی بساط کیسی ہے ۔
اچھی سیاسی لیڈر شپ کو آگے آنا چاہیئے تاکہ ملک سے مضر ثبات کا خاتمہ ممکن
بنایا جا سکے۔ صرف تقریروں اور نعروں سے قوم کی حالت نہیں بدلی جا سکتی اس
لئے عوام اب آنکھیں کھولے اور اپنے بہتر مستقبل کا فیصلہ گیارہ مئی کو ایسے
کرے کہ کھری قیادت سامنے آئے جس سے آپ کے حالات بھی بدلیں اور ملک کے بھی ۔
کیا یہ دنیا میں ہو رہا ہے فلک
رحم دن رات کھو رہا ہے فلک
عوام پر ظلم کی حد ہوگئی ہے اب
اور چُپ چاپ رو رہا ہے فلک
سب کو پتہ ہے کہ باشعور اور معصوم شہریوں کے قاتل کون ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ نقاب پوشوں کو بے نقاب کون کرے گا، لہراتے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں کون
ڈالے گا تاکہ مظلوموں ،بے قصوروں کو انصاف ملے اورآزاد فضا میں عوام بھی
آزاد ہو جائیں۔ آج صورتحال کتنی بھیانک اور سنگین ہیں اس کا اندازہ لگاناآپ
کے لئے مشکل نہیں کہ ہر روز ملک بھر میں کتنے ہی بے گناہوں کا خونِ ناحق
بہا دیا جاتا ہے، قتل و غارت گری کے ذریعے،دھماکوں کے ذریعے، نشانہ وار قتل
کے ذریعے، دستی بموں کے ذریعے مگر پھر بھی ارباب کی سروں میں جُوں نہیں
رینگتی۔ قلمکاروں کی ایک طویل لسٹ ہے جنہوں نے اس موضوع پر لکھ لکھ کر اپنے
ہاتھوں کو سُجا ڈالاہے مگر پھر بھی اختیارات کے حامل لوگ اس طرف متوجہ نہیں
ہو رہے۔ عوام کے لئے گیارہ مئی انہی تمام ناانصافیوں کے ازالے کا دن ہوگا
اگر آپ نے درست فیصلہ کیا تو سمجھیں کہ آپ کی تقدیر بدلنے والی ہے اور اگر
آپ کا فیصلہ غلط ہو گیا تو یقین کیجئے کہ آج جیسے حالات کو بھی ترسنا آپ کا
مقدر بن جائے گا۔
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے بھی لگ بھگ چھ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن انگریزوں
کے مداح ابھی تک اپنی تشنگی بجھا نہیں پائے، جگہ جگہ بم دھماکے، فرقہ
وارانہ فسادت کرکے عوام کو زک پہنچا رہے ہیں۔ یہی حال ہے ہماری جمہوریت کا
جو ریت کا پہاڑ بن گئی ہے لیکن ریت کا پہاڑ ہوا کے ایک جھونکے میں تتر بتر
ہو جاتا ہے یہ بات بھی ذہن میں رہے اور اس کی مضبوطی کے لئے عوام کی
خواہشات کا احترام لازم ہے۔ عوام کے بے پناہ درد اور بے پایاں سوزِ دروں کی
تلافی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے ایک بار
تمام نفرتوں اور عداوتوں کو بھلا کر الفت و محبت کی شمع روشن کریں اور اخوت
کے جاوداں پیغام کو عام کریں اور قرآن کو اپنا مقصد اور رہنما بنائیں کہ
آئے دن ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے نہ جا سکیں، معصوموں اور بے گناہوں کو
بربریت سے نجات مل جائے، پورے ملک میں الفت ومحبت ، اخوت و اتحاد و اتفاق
کی ایک بار پھر سے ضرورت ہے اور اس میں سیاسی لیڈروں کو بھی اپنا کردار ادا
کرنا چاہیئے تاکہ عوام کو رہنمائی کے ساتھ نجات بھی مل سکے۔ حالات ایسے ہو
جائیں کہ ملک کے کسی گوشے میں کسی فرد کے پاﺅں میں کانٹا بھی چھبے تو ہر
ایک کو اس کی چبھن اور کسک محسوس ہو، اسی کا نام اخوت ہوتا ہے اور اس ملک
کے لوگوں کو آج اس کی اشد ضرورت ہے۔ بہت ہو لئے آپس میں دست و گریباں اب
محبت کا پرچار ضروری ہے۔ فانی دنیا میں اپنی ذات سے نکل کر انسانیت کی فلاح
کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ |