انسان اس وقت تک جرم نہیں کرتا جب تک اسے خوف رہتا ہے کہ اگر اس نے یہ
جرم کیا تو اسے یقیناًسزا ملے گی لیکن جیسے ہی خوف ختم ہوجاتا ہے وہ جرم
کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہندوستان میں چوں کہ اب تک قانون کا نفاذ صرف لاچاروں،
بے بسوں، بے کسوں، دلتوں اور مسلمانوں پر ہی ہو اہے اس لئے عام طور پرجرم
کا خوف دل سے نکلتا جارہا ہے۔ 16دسمبر کو بہت زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں۔ اس
واقعہ کے خلاف پورا ملک ابل پڑا تھا اور ملک کے کونے کونے سے صدائے احتجاج
بلند ہورہا تھا اور سخت قانون کا مطالبہ کیا گیا اور سخت قانون بنابھی اور
اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سمیت صدر جمہوریہ کی منظوری بھی مل چکی ہے
لیکن اس طرح کے گھناؤنا واقعات میں کمی تو دور کی بات ہے بلکہ اس میں اضافہ
ہوگیا ہے اور پورے ملک سے اس طرح کی وحشیانہ خبریں اخبارات کی زینت بن رہی
ہیں۔ دامنی کے واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب لوگوں میں
بیداری آگئی ہے اور جرم کے خلاف لوگ اب آواز اٹھانے لگے ہیں لیکن صرف دہلی
میں ہی اس واقعہ کے بعد کم از کم سے 200 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں۔ پہلے
مقابلے لڑکیاں اب زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ خواتین شام ہوتے ہی ڈرنے لگتی ہیں۔
لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھروں کو پہنچ
جائیں۔ لڑکیوں اورخواتین کے لئے نہ تو اسکول محفوظ ہے نہ آفس اور نہ ہی
دوسری جگہ محفوظ ہے ۔ سروے میں 75 فیصد سے زائد خواتین نے بتایا کہ وہ دہلی
میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ 16 دسمبر کے بعد پانچ سالہ بچی کی آبروریزی
واقعہ سب سے زیادہ سفاکانہ ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جس طرح بربریت کا مظاہرہ
کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔ ملزم منوج کمار یا اس کا ساتھی پردیپ نے بچی کے
ساتھ جنسی زیادتی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے اسے مردہ سمجھ کر اپنے کمرے
میں بند کرکے فرار ہوگیا تھا جسے 20اپریل کو بہار کے مظفرپور سے دہلی لایا
گیا۔ یہ بچی40 گھنٹے تک بند رہی تھی اور اس دوران کسی پولیس یا کسی نے بھی
بند کمرے کی طرف توجہ نہیں دی۔ پڑوسی کے کراہنے کی آواز سننے پر کمرہ کھولا
گیا تو سامنے دلدوز منظر تھا۔ یہاں بھی پولیس کی لاپروائی سامنے کھل کر آئی
کیوں کہ بچی کا تعلق غریب خاندان سے تھا اس لئے پولیس اس پر زیادہ توجہ
نہیں دی اور کہا جاتا ہے کہ اس کے برعکس معاملہ پر خاموش رہنے کے لئے دو
ہزار روپے بھی دئے۔ اس کے بعد دہلی ابل پڑا ہے اور پورے دہلی میں مظاہرے
جاری ہیں۔
آبرو ریزی کا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہاہے۔ سخت قوانین کے باوجود
اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ جالندھر کی رہنے والی، اجتماعی عصمت دری کی شکار 14
سالہ لڑکی آبروریزی کا شکار ہوئی۔ ڈاکٹروں نے رحم کو سرجری کرکے نکال دیا
کیوں کہ لڑکی کا بچہ دانی پھٹ گیا تھا اور اس میں شدید انفیکشن بھی ہو گیا
تھا۔28 جنوری کو لڑکی رفع حاجت کے لئے گئی تھی تبھی گاؤں کے تین افراد نے
اس کا اغوا کر اس سے اجتماعی عصمت دری کیا۔دہلی کے ایک دوسرے واقعے میں 17
اپریل کی شب کو ایک 19سالہ خاتون کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا تھا
اور وہ سڑک کے کنارے نیم ہنہ حالت میں پائی گئی۔ یکم مارچ 2013 کو دہلی میں
سات سالہ بچی کے ساتھ اس کے اسکول میں ہی جنسی زیادتی کی گئی ۔یوپی کے بلند
شہر کے خاتون تھانہ میں 15 اپریل کو دس سال کی بچی اپنی ماں کے ساتھ ایک
خاتون پولیس تھانے گئی تھی تاکہ وہ 24 سال کے نوجوان کے خلاف عصمت دری کی
شکایت درج کروا سکے۔لیکن ان کی شکایت سننے کے بجائے خواتین پولیس افسران نے
انہیں گالیاں دیں اور بچی کی ماں کو بھگا دیا۔ متاثرہ بچی کو تھانے کے
عارضی حوالات میں بند کر دیا گیا۔ بچی کو رات کو حراست میں گزارنی پڑی جہاں
وہ ننگے فرش پر ہی پڑی رہی۔پولیس اہلکاروں نے اس سے یہ بھی کہا کہ "وہ خود
ہی اپنے عصمت دری کی وجہ ہے۔سپریم کورٹ نے از خود کارروائی کرتے ہوئے
اترپردیش حکومت سے جواب طلب کیا ہے اس سے پولیس کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے
کہ پولیس خاتون ہو مرد ذہنیت نہیں بدلتی۔علی گڑھ شہر کے بننادیوی پولیس
تھانہ علاقے میں 18 اپریل کی صبح کوڑے کے ڈھیر سے 6 سال کی ایک بچی کی لاش
ملی۔ بچی جمعرات کی صبح لاپتہ ہو گئی تھی۔بچی کے اہل خانہ نے بچی کی عصمت
دری اور قتل ایک خدشہ ظاہر ہے۔اوڈیشہ کے ضلع سنبھل پورمیں ایک تین سالہ
قبائلی لڑکی کی سڑی گلی لاش برآمد ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق لڑکی سے مبینہ
زیادتی کے بعد اس کو قتل کیا گیا۔مدھیہ پردیش کے دتیا میں سات سال کی ایک
معصوم بچی کی عصمت دری کے بعد اس کا قتل کر دیاگیا۔ وہیں سونی میں ایک
درندے نے چار سال کی بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ تیسرے واقعہ دموہ کی
ہیں، جہاں نابالغ لڑکی سے دبنگوں نے اجتماعی عصمت دری کی۔ملزم نے کھیت میں
لے جاکر بچی کی عصمت دری کی اور پھر راز افشا ہونے کے خوف سے اس کا قتل کر
دیا۔فروی میں ضلع ناگپور کے مرواڑی گاؤں کی تین لڑکیاں جن کی عمر 11 سال سے
کم تھیں اور یہ تینوں 14 فروری سے لاپتہ تھیں۔پولیس نے ابتدا میں اسے
اتفاقی موت کے معاملے کے طور پر درج کیا تھا مگر پوسٹ مارٹم میں جنسی
استحصال اور قتل کی تصدیق ہوئی۔مغربی بنگال کے سلی گوڑی کے پاس ایک گاؤں
میں کچھ لوگوں نے ایک 24 سالہ خاتون کو مبینہ طور پر اغوا کیا اور پھر اس
کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے کے بعد اسے آگ کے حوالے کر دیا۔ ایک دوسرے
واقعہ میں دہلی میں 19سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا واقعہ پیش
آیا۔ رپورٹوں کے مطابق یہ خاتون نوکرانی کے طور پر کام کرتی تھی اور لفٹ
دینے کے نام پر کچھ لوگوں نے اس عورت کو اپنی گاڑی پر بٹھایا اور پھر مبینہ
طور پر اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی۔ صفدر جنگ ہسپتال کے ڈاکٹروں کا
کہنا ہے کہ یہ خواتین کو بھی کافی نقصان لگا ہے۔یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ
روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین،بچیوں اور بچوں کا جنسی استحصال کیا
جاتا ہے۔
گجرات میں مسلم عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی کرنے والوں کو سزا دی جاتی
،اسی شدت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی اور انصاف کی راہ میں روڑے
اٹکانے والے حکمرانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاتا تو آج نہ تو دامنی کا
معاملہ پیش آتا اور نہ ہی گڑیا کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک ہوتا۔ آج بھارتیہ
جنتا پارٹی کی خواتین سیل (جن کے لئے میرے پاس کوئی اچھا لفظ نہیں ہے)
پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے پولیس افسران چوڑیاں پیش کررہی ہیں اسے پہلے
نریندر، مودی ، جارج فرنانڈیز، شیو راج سنگھ چوہان اپنے دیگر لیڈروں کو
چوڑیاں پیش کرنی چاہئے جنہوں نے نہ صرف مسلم کی عورتوں کو آبروریزی کو جائز
قرار دیا بلکہ اسے عام واقعہ بھی بتایا تھا۔ دامنی اور گڑیا کے ساتھ ایسی
درندگی کا مظاہرہ نہیں ہوا ہوتا اگر گجرات میں 2002 کے قتل عام کے دوران
نرودا پاٹیا میں کوثر بانو کو سنگھ پریوار کے فسادیوں نے جب کہ وہ حاملہ
تھیں قتل کرنے سے پہلے اجتماعی آبروریزی کی اور پھر اسے پیٹ چاک کرکے بچہ
دانی سے بچہ کو باہر نکالا اور پھر تلوار کی نوک پر اسے نچاتے رہے اگر ان
کو سخت سزا ملی ہوتی دامنی اور گڑیا کو اس دردناک حادثہ سے بچایا جاسکتا
تھا۔ دنیا میں بہت سارے سفاکانہ واقعات انجام دئے گئے ہیں لیکن ایسا
سفاکانہ، وحشیانہ اور درندگی کا مظاہرہ کہیں نہیں کیا گیا ہے جوگجرات میں
مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ گجرات میں ہی کوثر بی ا ور ان کے شوہر سہراب
الدین کو 2005 میں کرائم برانچ نے کرناٹک سے اغوا کیا اور ایک فرضی مڈبھیڑ
میں قتل کردیا۔ اس عورت کی تکلیف کا احساس کیجئے کہ اس کے سامنے اس کے شوہر
کا قتل کیاگیا وہ کس قدر رنج و غم سے چور ہوگی لیکن درندگی مظاہرہ یہیں تک
نہیں رکا بلکہ اس کے شوہر کے قتل کرنے کے بعد اس کی اجتماعی عصمت دری کی
گئی اور پھر اسے قتل کرکے جلادیاگیا۔ گجرات کے قتل کے دوران بلقیس بانوکے
پورے خاندان کو ان کے سامنے قتل کیاگیااور پھر اس کی ماں ، بہن بچوں کی
آبروریزی کی گئی اور پھر بلقیس بانو کے ساتھ بھی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔
ان کی جان اس لئے بچ گئی تھی کیوں کہ فسادیوں نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا
تھا۔ اگر سخت سزا دی گئی تو ریپ کے معاملات پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اس
لئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو آبروریزی کے بارے میں بولنے کا کوئی حق
نہیں ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق ہر روز دارالحکومت دلّی میں اوسطا چار خواتین جنسی
تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ہندوستانی دارالحکومت دلّی میں ایک 23 سالہ طالبہ کے
ساتھ اجتماعی ریپ کے بعد ہونے والے مظاہروں کے باوجود خواتین کے تئیں دلّی
پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیںآئی ہے۔ اب بھی چھیڑ چھاڑ کے واقعات کے
لیے متاثرہ خاتون پر ہی شبہ کیا جا رہا ہے اور جنسی تشدد کی دھمکی کو غیر
ضروری سمجھا جا رہا ہے۔حال ہی میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار
کے مطابق جنوری سے دلی میں ہر روز عصمت دری کے چار واقعات رونما ہو رہے
ہیں۔ اس پر دلّی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ قانونی نظام کے خراب ہونے کی
نہیں، بلکہ خواتین کے آگے آ کر شکایت درج کرانے کی وجہ سے ہے۔ سرکاری اعداد
و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہر سال سات ہزار سے زیادہ بچوں سے ریپ کیا
جاتا ہے لیکن بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اصل تعداد
اس سے کہیں زیادہ ہے بلکہ کئی لاکھوں میں ہے کیوں کہ بچے شرم کے مارے اپنے
ماں باپ کو نہیں بتاتے یا ماں باپ خاندان کی عزت کے خوف سے اس بات کو
پوشیدہ رکھتے ہیں اور بیشتر معاملات میں ریپ کے زیادہ تر واقعات کو پولیس
تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔
ہندوستان امریکی تہذیب اور امریکہ پرستی میں بہت آگے جاچکا ہے یہاں کی
معاشرتی حالت بہت ہی دگرگوں ہے۔ عورتوں کے حقوق اور جنسی عمل کی عمر مقرر
کرنے جیسے موضوع پر بحث میں حصہ لینے والوں کی مانیں تو تقریباً 80 فیصد
لڑکے لڑکیاں اسکول اور کالج لائف میں جنسی عمل سے گزر چکی ہوتی ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور دی پاپولیشن کونسل کی 2007
کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 24 سال کے پیار کرنے والے لڑکے
لڑکیوں میں سے 42 فیصد لڑکوں اور 26 فیصد لڑکیوں نے اپنے ساتھی کے ساتھ
سیکس کیا ہے۔جنوبی افریقہ میں اسکولوں کی 28 فیصد لڑکیاں اس وقت ایڈز کی زد
میں آ چکی ہیں۔جنوبی افریقہ کے وزیر صحت ایرن موٹسوالیڈی نے معاشرے کے تمام
طبقوں، سول سوسائٹی اور والدین کو خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ اس مسئلے
کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسکولوں کی طالبات میں پیدا شدہ اس رجحان کی نفی
کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ایرن موٹسوالیڈی کے
مطابق 2011 کے دوران ملک میں اسکولوں کی 94 ہزار طالبات حاملہ ہوئی تھیں
اور ان میں کئی دس برس کی عمر کی بھی تھیں۔ان حاملہ لڑکیوں میں سے 77 ہزار
کو اسقاط حمل کی سرکاری سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔وقت رہتے ہندوستان میں
اس پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا حال افریقہ جیسا ہوسکتا ہے۔ ہندوستان میں
انسداد آبروریزی بل کے تحت خواتین کی عصمت دری اور دیگر جرائم کے لیے سخت
سزا کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ بل میں تیزاب سے حملہ، پیچھا کرنے، گھورنے اور
چھپ کر تانک جھانک کرنے کو مجرمانہ فعل گردانا گیا ہے۔عصمت دری کی شکار
متاثرہ کے ہلاک ہونے یا اس کے کوما جیسی حالت میں جانے پر مجرم کو موت کی
سزا دینے کا اس میں انتظام کیا گیا ہے۔فوجداری قانون ترمیمی بل 2013 میں
عصمت دری کوجنس سے منسلک مخصوص جرم مانا گیا ہے یعنی اسے خواتین مرکوز
بنایا گیا ہے اور اس کے لئے صرف مردوں پر ہی الزام لگے گا۔لیکن خواتین کو
یہ بل تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔
اتنے سخت قانون وضع کرنے کے باوجود خواتین کے ساتھ آبروریزی کے واقعات میں
جس طرح اضافہ ہوا ہے اور بچیوں سمیت خواتین پر جنسی حملے جس طرح تیز ہوئے
ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجرموں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ کیوں کہ
ہندوستان میں قانون میں امتیاز ایک عام بات ہے اس لئے مجرم یہاں بے دھڑک
جرم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان میں جس طرح لوگوں کے پاس دولت آئی ہے اس
سے کہیں زیادہ مغربیت آئی ہے۔ ہر خاندان الٹرا ماڈرن بننا چاہتا ہے اور اس
کے نشے میں وہ تہذیب و تمدن سب کچھ بھول جاتا ہے۔اسی کے ساتھ فلموں کے بے
ہنگم مناظر، اشتہارات میں فحش و عریانیت، سیریل میں جس طرح پیار و محبت اور
ناجائز جنسی تعلقات کو پیش کیا جاتا ہے اس سے بھی معاشرے میں جنسی بے راہ
روی کو بڑھا وا ملا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے جو اب موبائل
فون میں دستیاب ہے۔انٹرنٹ پر فحش ویب سائٹوں کی بھرمار ہے۔ اس پر سپریم
کورٹ نے کئی بار تشویش کا اظہار رکرچکی ہے ۔اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس
التمش کبیر کی صدارت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت اور دیگر شعبوں کو ایک
نوٹس جاری کیا گیا ۔جس میں کہا گیا ہے کہ انٹرنٹ پر بچوں سے متعلق والدین
کی غیر موجودگی میں بڑی تعداد میں بچے ان ویب سائٹس کی جانب متوجہ ہو رہے
ہیں۔ ان سائٹس پر فراہم کیے جا رہے فحش مواد سے بچوں کے نرم و نازک دل و
دماغ پر برا اثر ہو رہا ہے۔ اس میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ انہیں سب
وجوہات کی بنا پر سماج میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق
زیادہ تر بچے 11 سال کی عمر تک اس سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہو چکے
ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ پر ہونے والی سرچ یا تلاش میں سے 25 فیصد مواد پورن سے
متعلق ہوتے ہیں اور ہر سیکنڈ کم سے کم 30 ہزار لوگ اس طرح کی سائٹ دیکھ رہے
ہوتے ہیں۔اطفال کے پورن سائٹ دیکھنے کا ایک بڑا نقصان ہے ان کے اندر جنسی
ہلچل کا پیدا ہونا اور یہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جو والدین کے لیے پریشان
کن بنتا جا رہا ہے۔ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان بچوں کی تعداد بڑھ
رہی ہے جن کے پاس ذاتی کمپیوٹر، انٹرنٹ کنکشن اور اسمارٹ فون موجود ہے اور
اسی لیے پورن سائٹس سے متاثر ہونے کے ان کے خطرے بھی بڑھ رہے ہیں۔
صرف سخت قانون بنانے سے اس طرح کے وحشیانہ واقعات کو نہیں روکا جاسکتا۔
خواتین اور لڑکیوں کو اپنی عفت کی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ ہم اپنی کسی اہم
چیز کوسات پردوں میں رکھتے ہیں ۔ مال و دولت کے دس تالوں میں رکھتے ہیں۔ تو
پھر اپنی پاکیزگی کو سرعام سربازار نمائش کیوں کرتے ہیں۔ 16 دسمبر کے
گھناؤنا واقعہ کے بعد ایسا لگا تھا کہ معاشرے کی سوچ بدلے گی خواتین اور
لڑکیاں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گی لیکن سڑکوں، بازاروں، شاپنگ مالس
اور دیگر عوامی مقامات پر لڑکیوں کے حرکات و سکنات، رہن سہن اور لباس کو
دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ لڑکیاں یہ تصور کرنے لگی ہیں وہ جیسی بھی
رہیں ان کی مرضی ہے کسی کو بچنا ہے تو وہ خود بچے۔ خصوصاً لڑکیاں سڑکوں
پرموٹر سائکل پر جس طرح بیٹھتی ہیں اور جس طرح کی حرکت کرتی ہیں اسے اشتعال
ہی کہا جائے گا۔ اسے جو بھی کرنا ہے وہ گھر یا پردے کریں عام لوگ اس سے
تعرض نہیں کریں گے۔ عربی میں ایک جملہ کہاگیا ہے اگر شرم فوت ہوجائے تو جو
مرضی میں آئے کرو۔ ایسا ہی نظارہ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر اس برائی سے
لڑنا ہے تو جہاں معاشرے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے وہیں لڑکیوں کو بھی اپنے
رویے میں تبدیلی لانے ہوگی۔ گوشت کو کھلی جگہ میں رکھ دیں اگر توقع کریں کہ
بلی نہیں آئے گی تو یہ سوچ اچھی نہیں ہے ۔ |