احساس کے سفر ميں احساس مر گيا ؛

جو بھی دنيا ميں آتا ھے اس نے واپس اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ھے۔چاہے وہ امير زادہ ہو يا کچی بستی ميں دن رات غربت کی آگ ميں جلنے والا مزدور،شہنشاہ ہو يا پنکھا جھلتا ہوا درباری،قاضی ہو يا مجرم ، سب نے اس منزل کی طرف روانہ ہونا ہے۔ جس کا انہيں کچھ پتہ نہيں کہ وہاں ہمارے حصے ميں کيا آئے گا۔سايہ دار شجر نصيب ہو گا يا دہکتے ہوئے انگاروں ميں مکان ہو گا۔ سب کی منزل ايک ہے ، قبلہ ايک ہے،دين ايک ہے ، خدا ايک ہے،رسول ايک ہے ،تو پھر يہ اتنا تضاد کيوں ہے۔راستے جدا ہيں،منزليں لا پتہ ہيں، سب اپنی آخری منزل کو بھول گئے ہيں اوردنياوی خواشات کی تگ و دو ميں اس قدر کوشاں ہيں کہ ہم يہ بات بھی بھول چکے ہيں کہ ہم کون ہيں ۔ کہاں سے آئے ہيں ۔ بس ہر وقت يہ فکر لاحق ہے کہ دوسروں کو نيچا کيسے دکھانہ ھے۔منافقت ابھر آئی ہے ، تفرقہ ميں پڑھ چکے ہيں ۔ہر ايک کا فرقہ الگ ہو چکا ہے ۔ کوئی سنی ہے تو کوئی شيعہ، کوئی بريلوی ہے تو کوئی ديوبندی، کوئی امير ہے تو کوئی غريب کوئی بڑی بڑی گاڑيوں ميں گھوم رہا ہے تو کوئی اپنے دل ميں حسرت ليے بے بسی سے گاڑيوں کو ديکھ رہا ہے۔ کسی کے پاس پجارو ہے تو کوئی سائيکل تک سے محروم ہے،کوئی بڑے بڑے عاليشان بنگلوں ميں رہ رہا ہے تو کوئی حسرت بھری نگاہ سے اپنے مٹی سے بنے ہوئے جھونپڑے کو ديکھ رہے ہيں، کسی کے پاس بڑی بڑی مليں ہيں اور کوئی بے بسی سے ان پر نظرڈالتے ہوئے ٹيکس ادا کرنے پر مجبور ہے۔ کہيں پہ بجلی چوری ہوتی ہے اور کوئی اس سے محروم ہے، تو کوئی دولت مند ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کے پوری دنيا کی دولت ان کے قدموں ميں ڈھير ھو جائے۔اور جو غريب ھے وہ بے چارہ مارا مارا پھر رہا ھے صبح گھر سے نکلتا ھے محنت مزدوری کرتا ھے، اپنا پيٹ پالتا ھےاپنے بيوی بچوں کو پالنے کے ليے کيا کيا جتن کرتا ھے اور آنکھوں ميں سہانے سپنے سجائے دنيا سے يہ کہتا ہوا رحصت ہو جاتا ھے ـ؛ مجھ سے نہ بن سکا چھوٹا سا گھر تو نے خدايا کيسے يہ جہاں بنا ديا؛۔ اس کے لہجے ميں شکوہ بھی ہوتا ھے اور دل ميں خدا کی ياد بھی،سکون بھی ہوتا ہے اور سکھ چين کی تلاش ميں بھی ہوتا ہے۔ کوئی مسجد ميں امامت کروا رہا ھوتا ہے تو دوسرا ممبر پربيٹھا مسلمانوں کو آپس ميں لڑانے کی ترغيب دے رہا ہوتا ہے ۔سنی ہے تو کہہ رہا ھے شيعہ کافر ہے، کوئی گورا ھے تو وہ کالے کو حقارت بھری نگاہ سے ديکھتا ھے، کوئی کالا ھے تو وہ گورے کو حسرت بھری نگاہ سے ديکھ کر احساس کمتری ميں مبتلا ہو جاتا ھے ،عورت ھے تو وہ دوسری سے حسد کرتی ھے۔ مالک ھے تو وہ نوکر کو دبا رہا ھے غرض يہ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھينس۔ حلانکہ حضور پاک نے اپنے خطبہ ميں واضح طور پر ارشاد فرمايا ؛ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقيت خاصل نہيں ھے،اور قرآن ميں ارشاد ربانی ھے کے ؛۔ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے ميں مت پڑو؛، اور اس کے باوجود ہم تفرقے ميں پڑے ہوے ہيں ہم ميں نفرتيں اتنی بڑھ چکی ہيں کہ ہم بلاتميز ايک دوسرے کا استحصال کر رہے ہيں ۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ھے ايک دوسرے کا حق چھين رہے ہيں۔ آخر ايسا کيوں ھے دوسری قوميں روز بہ روز ترقی کر رہی ہيں اور ہم مسلمان بجائے ترقی کرنے کہ آگے بڑھنے کے اپنی منزل کھو رہے ہيں۔ واضح احکامات ہيں کہ ؛،قرآن مجيد مسلمانوں کے ليے مکمل کتاب ھے؛، سوچنے والی بات ھے کے کيا ہم مسلمان کہلانے کے قابل ہيں ہميں اپنا احتساب کرنا چاہيے اپنے گريبان ميں جھانک کر ديکھيں کہ آيا ہم اس قابل ہيں کہ دوسروں پر کيچڑ اچھال سکيں کسی کو تنقيد کا نشانہ بنا سکيں ۔ اگر ہم مسلمانوں نے ترقی کرنی ھے دنيا ميں اپنا نام پيدا کرنا ھے تو اس کی نفرتوں کو پس پشت ڈالنا ہو گا پيار بڑھانا ہو گا ملکر قدم بڑھانا ہو گا کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہو گا خواتين کی عزت کرنی ہو گی چھوٹوں کو سبق سکھانا ہو گا ۔اسلام کا درس دينا ہو گا ۔قرآن کو آنکھوں سے لگانا ھو گا۔ اسلام کا پرچم بلند کرنا ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر يہ کے خدا کو قريب لانا ہو گا دشمنوں کے خلاف جہاد کرنا ہو گا ۔ ايمان کو مظبوط بنانا ہو گا اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہو گا اور اگر ہم نيک نيتی کے جزبے سے سر شار ہو کر يہ عہد کر ليں کہ ہم نے دنيا اور آخرت ميں سرخرو ہونا ھے اور اپنے رب کے سامنے پيش ہونا ھے ۔آگ سے بچنا ھے تو سچے دل سے خدا کو ياد کرنا ہو گا اور سب سے بڑھ کر يہ کے وہ عظيم ھے۔ ہمارا رب ھے معاف کرنے والا ھے۔ اور کہتے ہيں کہ ؛، ارادے مظبوط ہوں تو بدل جاتی ہيں تقديريں بھی؛، باقی دلوں کا حال تو وہی جانتا ھے ؛ واللہ عالم بالصواب؛

عابدہ عارف
لاہور گريژن يونيورسٹی
saira
About the Author: saira Read More Articles by saira: 3 Articles with 7149 views simple living girl....... believe in this statement life z short enjoy each nd every moment of life.. View More