بیویوں کی قدر کیجئیے

بیویوں کے حقوق۔۔۔ عموماً یہ عنوان سنتے ہے بہت سوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، کچھ خوشی کے مارے اور کچھ صدمے کی وجہ سے۔ موضوع ہی حساس ہے۔ حقیقت میں بھی یہ موضوع بہت ہی حساس ہے مگر چونکہ بیوی ایک "عورت" ہوتی ہے، عورت کو عربی میں نساء کہا جاتا ہے اور پھر کسی "انجان" وجہ سے اردو معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کو "حقوقِ نسواں" بھی کہا جاتا ہے۔ اکثریت نہیں جانتی کہ "نسواں" کہاں سے در آمد ہوا۔ بیوی یا عورت یا نسواں ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر پاکستانی معاشرے میں اس کے ہلکی سی ہوا بھی چل پڑے تو بہت سے "مردانہ نما" زنانہ چہرے اس سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور پھر مختلف ٹی وی چینلز پر اس کے راگ الاپتے ہیں۔ لیکن میں نے آج تک حقوقِ نسواں پر بات کرنے "والے "کسی خاتون "صاحب" کو نسواں کا مطلب سمجھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم بہت جلد غیروں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ چِٹّی چمڑی تو ہمارے ذہنوں میں گولی سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ سرایت کر جاتی ہے۔ جو الٹا منہ کر کے بات کرے اسے ہم دانشور سمجھتے ہیں، حالانکہ احساسِ کمتری کا یہ حال ہے کہ جب تک ہماری خواتین و مرد اپنی گفتگو میں انگریزی کا بلا ضرورت تڑکا نہ لگائیں ان کی بات مکمل نہیں ہوتی۔ وضع قطع، طرزِ زندگی میں ہم اس قدر فکری یتیم ہو چکے ہیں کہ جیسے ہمارا کوئی شارع و رہبر ہی نہیں ہے کہ ہم غیروں کی تقلید کرتے ہیں۔ ذہنی و فکری غلامی نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک حصہ حد سے زیادہ جدت و بے راہ روی کا شکار ہے، یہ لوگ مغرب زدہ ہیں اور ان کا قبلہ و کعبہ بھی لندن، پیرس اور نیو یارک میں ہے۔ جب کہ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو صوفی محمد کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ بہت چند وہ لوگ ہیں جو اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اعتدال کا راستہ ہی بھلائی اور بہتری کا راستہ ہے۔ یہی رسولِ امین ﷺ کا راستہ ہے۔

بیوی کے حقوق پر مجھ جیسے تہی دامن اور کم علم کا کچھ لکھنا چادر سے باہر پاؤں پھیلانے کے مترادف ہے مگر میرے حلقہ قارئین و احباب میں بہت سارے لوگ اس "مذمّن و حادّ" مرض میں مبتلا ہیں۔ روحانیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین بھی یہ سوالات کرتی رہتی ہیں کہ شوہر عزت نہیں کرتا، گھر کا خیال نہیں رکھتا، حقوق نہیں دیتا، آپ کوئی ایسا تعویذ دیں جو اس کو پلاؤں تو وہ میرا مرید ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح کے جاہلانہ اور غیر شرعی خیالات کیوں جنم لیتے ہیں؟؟؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ بنیادی اسلامی فرض علوم سے ناواقفیت ہے۔ دینِ حنیف میں اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ نے حقوقِ زوجین بڑی وضاحت سے بیان فرما دئیے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں عرض کروں کہ ذرا پہچانئیے کہ بیوی کیا ہے؟ بیوی اللہ کی ایک مخلوق ہے، اور اشرف مخلوق ہے۔ معاشرے میں جتنے مرد کے حقوق اتنے ہی عورت کے بلکہ بعض مواقع و حالات کے تناظر میں عورت کے حقوق مرد سے زیادہ مقدم رکھے گئے۔ جو ضروریات ایک مرد کی ہیں وہی ایک عورت کی ہیں۔ لباس، طعام، معاملات، عبادات، خانگی و معاشرتی ذمہ داریاں اور پھر مذہب و سیاست تک عورت برابر کی شریک ہے۔ رسول رحمتﷺ نے بیوی کے حقوق کی بنیاد اپنے گھر سے رکھی، ایک تاجرہ خاتون کو اپنی زوجہ بنانے کا شرف بخشا تو دوسری طرف سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خاتون محدث بنایا۔ تعلیم و تعلم، سیاست و معاشرت میں شریک فرمایا۔

ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ فسادات جن امور پر ہوتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں، مثلاً بیوی نے میرے کپڑے نہیں دھوئے، کھانا بر وقت نہیں بنایا، میرے جوتے پالش نہیں کئیے، گھر کی صفائی نہیں کی، کھانے میں مرچ زیادہ ڈال دی، سوتی بہت زیادہ ہے، کھاتی بہت زیادہ ہے، میرے پاؤں نہیں دبائے، جہیز نہیں لائی، میرے لئیے پیسے ادھار مانگ کر نہیں لائی ، میری ماں کی خدمت نہیں کرتی، میری بہنوں، بھائیوں کو کھانا پکا کر نہیں دیتی وغیرہ وغیرہ۔

عزیزانِ گرامی!
اللہ وحدہ لاشریک کی عظمت کی قسم ،مندرجہ بالا امور میں سے کوئی ایک کام بھی عورت کا فرض نہیں ہے۔ شوہر کے والدین، بہن بھائی، عزیز و اقارب کی خدمت کرنا عورت کا فرض نہیں ہے۔ شوہر کے جوتے صاف کرنا، اس کے کپڑے دھونا، کھانا پکانا، گھر کی صفائی کرنا عورت کا فرض نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ کام ہیں جو مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لئیے وہ خود کوئی متبادل انتظام کرے۔ ہاں اسلام نے ان امور میں شوہر کی مدد کرنے والی بیوی کو بہت عظمتیں عطا فرمائی ہیں۔ اخلاقی طور پر بھی بیوی کو شوہر کی مدد کرنی چاہئیے مگر چودہ سو سالوں کے مسلم فقہاء اور علماء نے اس پر ٹھیک ٹھاک بحث کی ہے اور کسی نے بھی مندرجہ بالا امور کو عورت کے شرعی فرائض میں داخل نہیں کیا۔ اب ان امور کی انجام دہی کے لئیے عورت پر تشدد کرنے والا ظالم اور گمراہ ہے۔ یہی علماء کا اتفاق ہے۔

اب تھوڑا سا ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش کیجئیے کہ عورت یہ معاملات ادا نا کر پائے تو اس پر سختی کیوں نہیں کرنی چاہئیے۔ سنِ بلوغت کو پہنچ کر نکاح کرنا ہر صحت مند انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں نکاح کو نصف ایمان کی تکمیل قرار دیا گیا۔ جنسی تسکین کے ساتھ ساتھ امورِ حیات میں ایک مشیر کا حصول بھی مقصد ہے۔ تشدد کرنے والے اور بات بات پر بگڑنے والے دوست غور کریں کہ ہمارے معاشرے میں لونڈیوں اور کنیزوں کا رواج بہت کم ہے۔ فجر میں اٹھنے والی عورت سب سے پہلے شوہر کو ناشتہ پیش کرے، پھر بچوں کے سکول کی تیاری، کچن کی صفائی ستھرائی، کپڑوں کی دھلائی، مہمانوں کی آؤ بھگت، دوپہر کا کھانا، پھر شام کا کھانا، پھر بچوں کی پڑھائی اور بہت سارے غیر معمولی کام یہ ایک عورت ہی کرتی ہے۔ اسے ایک انسان سمجھئیے نہ کہ کام کی مشین۔ ویسے تو مشین بھی ایک خاص حد تک چل کر تھک جاتی ہے۔ اب شام کو جب شوہر گھر لوٹے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بن سنور کر بیٹھی ہو، میں جاؤں تو وہ میری لذت کا سامان کرے مگر بیوی اس کے بر عکس مریضہ بن کر بیٹھی ہوتی ہے۔ وجوہات میں نے بیان کر دیں۔

اب ان امور کو انجام نا دینے پر اسلام میں شوہر کے لئیے سخت وعدیں آئی ہیں۔ کم علمی کی بنیاد پر ہمارے لوگ ایسی ناراضگی اختیار کرتے ہیں کہ بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ملاحظہ ہو؛

حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو کھائے تو اسے کھلا ، جب تو لباس پہنے تو اسے بھی پہنا اور اسکے چہرے پر مت مار ، نہ اسے برا بھلا یا بدصورت کہہ اور اس سے بطور تنبیہ علدح،گی اختیار کرنی ہوتو گھر کے اندر ہی کر ۔
سنن أبوداؤد : 3143 ، النكاح
اس فرمان سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو بلا وجہ ناراض ہو کر گھر سے چلے جاتے اور تشدد کرتے وقت منہ پر طمانچے رسید کرتے ہیں۔ اس حدیث کا ایک ایک لفظ سبق آموز ہے۔

اللہ کے حبیب ﷺ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ عورت کو ٹیڑھی ہڈی سے پیدا کیا گیا، اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی۔ جب سید الرسل ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے تو حکماً فرمایا عورتوں کے حقوق بارے اللہ سے ڈرو۔ اندازہ فرمائیں کہ تمام نبیوں کے سردار آقاﷺ اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ کی آخری گفتگو میں بھی عورتوں کے حقوق بیان فرما رہے ہیں۔ اس گفتگو کے بعد آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے۔

جو عورت صبح سے لے کر رات گئے تک گھر کے سارے کام کرے، ایامِ حمل میں سخت تکالیف سے گزرے، بیماریوں اور مشکلات کا سامنا کرے، راتوں کو جاگ کر بچوں کو سنبھالے، گھر کا سارا نظام چلائے تو اس کے ساتھ سختی نہیں بلکہ نرمی کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے اندر کوئی خرابی ہے تو اسے سب کے سامنے بیان نا کریں، اسے تنا ئی میں سمجھایا جائے۔ محبت فاتحِ عالم ہے، محبت کی زبان استعمال کریں۔ اس کی بے شمار خامیوں پر پردہ ڈالیئے اور احساس کیجئیے کہ اس کی وجہ سے آپ کی زندگی میں کتنی آسانیاں ہیں۔ اگر بیوی نا ہوتی تو آپ کی زندگی کے معمولات خراب ہو جاتے، گھر کی اندرونی حالت سے لے کر کام کرنے کی جگہ تک بے رونقی و بد مزگی ہوتی۔ انسان سارا دن کام کر کے تھکا ماندہ آئے تو گھر میں اس کی خدمت کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا سیکھئیے۔ وہ اللہ جو سب جہانوں کا خالق و مالک ہے اس کا خوف پیدا کیجئیے کہ ہم اگر بیویوں پر سختی کریں تو کیوں؟؟؟ اللہ ہمارے کتنے گناہ معاف فرماتا ہے، قتل، جھوٹ، غیبت، زنا، بد کاری، بد اخلاقی، حرام کھانا وغیرہ۔۔۔ کتنے ایسے گناہ ہیں جن پر اللہ نے پردہ پوشی فرما رکھی ہے۔ جتنی سختی ہم بیوی پر کرتے ہیں کیا اتنی ہی سختی ہم اپنی شادی شدہ بہن کے لئیے برداشت کر سکتے ہیں؟ یا پھر اگر ہمارے بڑے بڑے گناہوں پر مقرر شرعی سزائیں اگر سنائی جائیں تو کیا ہم برداشت کر پائیں گے؟ یا کیا ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے برے افعال پر اگر اللہ عدل کرنے لگے تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ بات احساس پیدا کرنے کی ہے۔ جس دل میں اللہ کا خوف نہیں اور وہ بات بات پر روک ٹوک، تشدد و سختی پر اتر آئے سمجھ لیں کہ وہ خود کو اللہ سے ٹکر انے کی کوشش کر رہا ہے۔ دل میں خوف پیدا کجئیے کہ اگر اللہ کریم ہمارے گناہوں سے پردہ اٹھا دے اور ہمارے اعمال ہماری بیوی اور دیگر لوگوں پر ظاہر کر دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہو گا۔

انسان اپنے معاشرے سے سیکھتا ہے۔ آپ کے گھر میں جیسا ماحول ہو گا ویسی ہی آپ کی بیوی ہو گی۔ رزق کی تنگی، معاشرتی مسائل اور امورِ دنیا کی پریشانیوں کو اپنی بیوی پر مسلط نا کیجئیے بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو زیرِ بحث لائیں تاکہ ان کا حل نکل سکے۔

بس دل میں اللہ کا خوف پیدا کیجئیے اور بیوی کو غلط کہنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ کو بھی اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ مضمون بہت طوالت اختیار کر گیا۔ اللہ تعالٰی ہمیں حق جاننے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
رابطہ کے ذرائع
Facebook pages:
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
https://www.facebook.com/elaj.roohani
Email: [email protected]
 
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 237842 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More