حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تنصیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ ( مکہ سے )ہجرت کرنے والوں میں
سب سے آخری آدمی تھے ۔( صحیح یہ ہے کہ یہ قصہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کا نہیں بلکہ ان
کے بھائی حضرت عبد بن جحشؓ کا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے )یہ نابینا ہو چکے تھے ۔جب
انہوں نے ہجرت کا پختہ ارادہ کیا تو ان کی بیوی جو ابو سفیان بن حزب بن امیہ کی
بیٹی تھی ۔اس کو یہ بات ناگوار گذری اور اس نے حضرت عبد اللہ بن جحش ؓ کو یہ مشورہ
دیا کہ وہ حضور کے علاوہ کسی اور کے پاس ہجرت کر کے جائیں (لیکن انہوں نے یہ مشورہ
قبول نہ کیا )اور وہ اپنے بال بچوں اور مال کو لے کر قریش سے چھپ کر ہجرت کر کے
مدینہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے (ان کی ہجرت سے ان کے سسر ابو سفیان بن حرب کو
بڑا غصہ آیا)اور ابو سفیان نے فوراً جا کر ان کے مکان کو بیچ ڈالا جو مکہ میں تھا ۔اس
کے بعد ابو جہل بن ہشام ،عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ ،عباس بن عبدالمطلب اور
حویطب بن عبدالعزیٰ اس مکان کے پاس سے گزرے ۔اس مکان میں اس وقت نمک وغیرہ لگا کر
کھالیں رکھی ہوئی تھیں(تا کہ ان کی بدبو ختم ہو جائے ) یہ دیکھ کر عتبہ کی آنکھوں
میں آنسو آ گئے اور اس نے یہ شعر پڑھا ۔
ترجمہ:
ہر گھر کو ایک نہ ایک دن ویران اور فنا ہونا ہے چاہیے کتنا ہی لمبا عرصہ وہ صحیح
سالم رہے ۔ابو جہل نے حضرت عباس ؓکی طرف متوجہ ہو کر کہا ہمارے لیے یہ ساری مصیبتیں
(اے بنو ہاشم)تم نے کھڑی کی ہیں ۔جب جب حضور فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو
حضرت ابو احمد (عبد بن جحشؓ)کھڑے ہو کر اپنے گھر کا مطالبہ کرنے لگے ۔حضور نے حضرت
عثمان بن عفانؓ کو فرمایا ،وہ کھڑے ہو کر حضرت ابو احمد ؓ ایک طرف لے گیے ( اور
انہیں آخرت میں لینے کی ترغیب دی ) چنانچہ حضرت ابو احمدؓ نے اپنے گھر کا مطالبہ
چھوڑ دیا ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور فتح مکہ کے دن اپنے ہاتھ کا سہارا لیے
ہوئے بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابو احمدؓ (مکہ سے اظہار محبت کے لیے ) یہ اشعار پڑھ
رہے تھے ۔
ترجمہ:
مکہ کی وادی کتنی پیاری ہے جس میں رہبر کے بغیر چل پھر لیتا ہوں ۔
ترجمہ:
بصورت بیماری میری عیادت کرنے والے بہت ہیں اس میں میری عظمت کے بہت سے کھونٹے گڑے
ہوئے ہیں ۔
قارئین آج کا کالم بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے پل صراط پر کھڑے ہو کر اپنا توازن
برقرار رکھتے ہوئے دل کی بات بھی کہنی ہے اور تہذیب کا دامن بھی تھامے رکھنا ہے ۔آج
کے کالم میں ہم کچھ سادہ لوح ،ان پڑھ ،دیہاتی اور دنیا کے طور طریقوں سے نابلد
لوگوں کی ایک سچی کہانی آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔اس کہانی کا تعلق ہماری جائے پیدائش
میرپور کے ساتھ ہے جسے آج آزادکشمیر ،پاکستان اور دیگر ممالک میں ” منی لندن“ کے
نام سے پکارا جاتا ہے ۔یہ اصطلاح غلط العام ہے یا درست فی الحال ہم اس بحث میں نہیں
پڑتے۔میرپور جموں کا حصہ تھا اور تقسیم ہند کے وقت آزادکشمیر بھرکے مجاہدین نے
ڈوگرہ فوجوں سے جہاد کرتے ہوئے اس خطے کو آزادکرایا ۔یہاں جملہ معترضہ کے طور پر ہم
ان مجاہدین کا بھی ذکر کریں گے جو قبائلی علاقہ جات سے آزادکشمیر آئے اور سرینگر تک
ان کے اس سفر کے دوران مختلف طرح کی کہانیاں مشہور ہوئیں ۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ
یہ قبائلی واقعی جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور کلمہ کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں
کی مدد کے لیے وہ جہاد کرنے کے لیے یہاں آئے اور کچھ حلقوں نے اس بات کی طرف نشان
دہی کی ہے کہ ان مجاہدین کے ساتھ کچھ ایسے قبائلی بھی شامل تھے کہ جنہوں نے ”مال
غنیمت “کے لیے جہاد کا نام استعمال کیا اور یہ ” مال غنیمتی مجاہد “ایسے ظالم تھے
کہ انہوں نے مال غنیمت حاصل کرنے کے دوران اخلاقیات کا ذرا بھی پاس نہ رکھا اور
ہندو مسلم لڑکیاں بھی اغواءکیں اور انہیں بھی مال غنیمت تصور کیا ۔بانی نظریہ خود
مختار کشمیر و جموں کشمیر محاذ رائے شماری عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ نے راقم او ر
آزاد کشمیر کی صحافت کے سرمایہ ءافتخار راجہ حبیب اللہ خان کو خصوصی انٹرویو دیتے
ہوئے انکشاف کیا تھا کہ سانحہ جموں جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کشمیریوں کو
شہید کیا گیا تھا ان ”مال غنیمتی “مجاہدین کے نام نہاد جہاد کا رد عمل تھا ۔
قارئین میرپور بنیادی طور پر ایک انتہائی غریب علاقہ تھا اور یہاں کے لوگ انتہائی
محنتی اور جفاکش تھے تعلیم کم تھی لیکن اخلاق کے وہ تمام پیمانے جن کا تعلق
مروت،رواداری ،وضع داری ،پیار ،محبت اور خلوص کے ساتھ ہوتا ہے ان لوگوں میں موجود
تھے ۔میرپور کے لوگ مختلف دیہات میں آباد تھے اور پرانا میرپور خرید و فروخت اور
ثقافت کا مرکز تھا چونکہ روزگار کے مواقع کم تھے اس لیے 1947ءسے بہت قبل ضلع میرپور
سے تعلق رکھنے والے محنتی ،جفاکش مزدور مختلف علاقوں میں جا کر تلاش معاش کیا کرتے
تھے ۔ان لوگوں میں سے کچھ کو یہ موقع ملا کہ وہ کراچی جا کر بحری جہازوں پر کام
تلاش کر نے میں کامیاب ہو گئے ۔چونکہ یہ لوگ انتہائی محنتی اور دیانتدارتھے اس لیے
بحری جہازوں پر ان کی جگہ بن گئی اور تلاش معاش کا یہ سفر کراچی سے پھیلتے پھیلتے
دنیا کے مختلف ممالک کی بندرگاہوں تک وسیع ہوتا چلا گیاکچھ لوگ بحری جہازوں کے ساتھ
ہمارے پرانے آقا برطانیہ کی سر زمین پر جا پہنچے ۔ان لوگوں نے وہاں پر دن رات محنت
کی ،فیکٹریوںمیں کام کیا ،خون جگر سے کی گئی محنت رنگ لائی اور میرپور کے ان
مزدوروں کو برطانیہ کی مٹی نے جگہ دے دی۔یہ لوگ اپنے آپ تک محدود نہ رہے ہر فرد نے
پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں اور پھر گاﺅں بھر کے لوگوں کو ایسی سر زمین پر بلوانے
کے لیے سر توڑ کوشش کی کہ جہاں انسانی محنت اور مشقت کا بھرپور معاوضہ انصاف کے
ساتھ دیا جاتا تھا ۔1960ءکی دہائی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان جو پاکستانی حکومت
کے سربراہ بھی تھے انہوں نے وطن عزیز کے وسیع تر مفاد میں پرانے میرپور کے مقام پر
منگلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ضلع میرپور کے ہزاروںلوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی
۔اس ڈیم کے خلاف باقاعدہ طور پر ایک تحریک بھی شروع کی گئی لیکن آخر کار پاکستان کے
وسیع تر مفاد میں میرپور کے ہزاروں باسیوں نے اپنے آباﺅ اجداد کی قبروں ،تاریخی
ورثے ،اپنی جائیدادوں اور یادوں کی قربانی دیتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی
مستقل ہجرت کی ایک عملی مثال رقم کر دی ۔اس موقع پر منگلا ڈیم بنانے والی اتھارٹیز
،واپڈا ،وفاقی حکومت اور حکومت آزادکشمیر نے متاثرین منگلا ڈیم سے ایک معاہدہ کیا ۔اس
معاہدہ میں ڈھیر سارے ” سبز باغ “دکھائے گئے ۔جن میں مختلف باتیں کی گئیں ۔دروغ بر
گردنِ راوی کہتے ہوئے ہم وہ دلچسپ قسم کے ” سبز باغ“آپ کو بھی بتاتے ہوئے دکھاتے
چلیں۔مبینہ طور پر یا یوں کہہ لیں کہ سینہ گزٹ سے پھیلنے والی اطلاعات کے مطابق
متاثرین منگلا ڈیم سے 1960 کی دہائی میں وعدہ کیا گیا کہ پرانے میرپور کو منگلا ڈیم
کی خاطر قربان کرنے والے شہریوں کو نیو میرپور میں بجلی مفت فراہم کی جائےگی ،بیس
مربعہ میل کے اندر رہنے والے تمام لوگوں کو یہ سہولت میسر ہو گی،تمام شہری سہولیات
ارزا ں ترین نرخوں پر فراہم کی جائیں گی ،میرپور شہر میں تمام لوگوں کو رہنے کیلئے
پلاٹ ڈویلپ کرکے دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
قارئین منگلاڈیم بن گیا اور ہزاروں خاندان بکھر گئے معاہدہ منگلاڈیم کا اور تو کوئی
بھی وعدہ پورا نہ ہواالبتہ جنرل ایوب خان نے میرپور کے ان مہاجروں برطانیہ جانے کی
ایک سہولت فراہم کی اور ہزاروں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ چلے گئے آج برطانیہ
میں 1947ءسے قبل کے آباد اہل میرپور اور 1960ءکی دہائی میں ہجرت اختیار کرنے والے
میرپوریوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے 2002ءمیں جنرل پرویز مشرف نے صدر
پاکستان ہونے کی حیثیت سے ”ملک کے وسیع تر مفاد “میں منگلاڈیم کی ریزنگ کا فیصلہ
کیا اس منصوبے کو 2008ءمیں مکمل ہونا تھا اور تخمینہ لاگت 65ارب روپے لگایاگیا
بوجوہ یہ منصوبہ لٹکتا چلاگیا اور لاگت بھی بڑھتے بڑھتے 120ارب سے تجاوز کرگئی
منگلاڈیم ریزنگ کے نتیجہ میں بھی کئی ہزار لوگ ہجرت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور
اہل میرپور نے پاکستان سے محبت کیلئے دوہری قربانی دینے کی ایک انوکھی اور منفرد
مثال قائم کردی اور دوسری سب سے بڑی مستقل ہجرت بھی اہل میرپور نے ہی کی منگلاڈیم
ریزنگ معاہدے میں وہ تمام ”سبز باغ“دوہرائے گئے جو منگلاڈیم بناتے وقت 1960ءمیں کیے
گئے تھے
قارئین یہاں سے اس کہانی کا ایک ڈرامائی موڑ شروع ہوتاہے آپ سب لوگوں کومعلوم ہوگا
کہ کالاباغ ڈیم نام کا ایک منصوبہ گزشتہ کئی عشرو ں سے کھٹائی میں پڑا ہواہے تمام
ماہرین یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ پاکستان کی بقاءکیلئے کالاباغ ڈیم بننا ناگزیر ہے
لیکن خیبر پختون خواہ ،سندھ اور دیگر صوبوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج اور اے این پی
کے جذباتی لیڈرز کی طرف سے کیے جانے والے اس اعلان کے بعد کہ اگر کالاباغ ڈیم بنایا
گیا تو ہم اسے بم سے اُڑا دیں گے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے
قارئین آئیے اب نتائج کی جانب چلتے ہیں گزشتہ روز آزادکشمیر کے سب سے بڑے صحافتی
مرکز کشمیر پریس کلب میرپور میں صدر پریس کلب عابد حسین شاہ اور جنرل سیکرٹری سجاد
جرال کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلوائی گئی میرپور سے تعلق رکھنے والے تمام
شہریوں نے بلاتخصیص سیاسی وابستگی والہانہ انداز میں اس کانفرنس میں شرکت کی جس کا
بنیادی مقصد اہل میرپور کو 1960ءکی دہائی اور 2002کے بعد ریزنگ معاہدے کے حوالے سے
لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانا تھا اس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے
چوہدری سعید ،مسلم کانفرنس سے عبدالقیوم قمر ،پیپلزپارٹی سے اعجاز میر ،پاکستان
میڈیکل ایسوسی ایشن سے ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،پرائیویٹ ہاسپٹل ایسوسی ایشن کی
جانب سے ڈاکٹر اکرم چوہدری ،چیمبر آف کامرس کے صدر خالد رفیق ،انصاربرنی ٹرسٹ کے
خواجہ طالب سمیت انجمن تاجران کے تینوں دھڑوں کے صدور اور ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ
موجود تھے آل پارٹیز کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ میں واپڈا ،وفاقی حکومت ،حکومت
آزادکشمیر اور دیگر تمام ذمہ دار اداروں کو ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ اگر
میرپور کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار نہ دیاگیا تو 1981ءجیسی پرتشدد عوامی تحریک اور
24مارچ 2010ءکا ایکشن ری پلے دکھا دیاجائے گا یہ تمام ذمہ دار ترین لوگ اس بات پر
شاکی دکھائی دیئے کہ حکومت پاکستان نے 1960ءکی طرح 2012ءمیں بھی اہل میرپور کو ”سبز
باغ “دکھائے اور وعدے پورے نہ کیے کہاں پر تو 1960ءمیں یہ وعدہ کیا گیا کہ اہل
میرپور کو ان کی قربانی کے اعتراف میں بلاتعطل مفت بجلی فراہم کی جائے گی یا ارزاں
نرخوں پر دی جائے گی یہ تمام وعدے ”سبز باغ“ثابت ہوئے آج منگلا ڈیم سے 1135میگاواٹ
سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے، لاریب کے نام سے ایک اور پروجیکٹ قائم کیا گیا ہے
جہاں 85میگاواٹ کے قریب بجلی پیدا کی جاتی ہے میرپور کی کل ضرورت 60میگاواٹ بجلی
ہے۔ اگر ”سبز باغ“کو حقیقت کا روپ دے دیا جاتا اور اہل میرپور کی عظیم قربانیوں کے
اعتراف میں میرپور کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ہی مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا تو یقین
جانیے کہ کالا باغ ڈیم ایک سراب کی صورت بن کر پاکستان کے لیے مستقل عذاب نہ
بنتااہل میرپور سعودی عرب میں آباد تارکین وطن کی طرح سب سے زیادہ فارن کرنسی ہر
سال وطن ارسال کرتے ہیں۔ لارڈ نذیر احمد نے راقم کو ایک مرتبہ برطانیہ سے ٹیلی فون
کال پر انتہائی درد دل سے یہ بات بتائی تھی کہ تارکین وطن ہر سال 14ارب ڈالرز سے
زائد کا فارن ایکسچینج ملک میں بھیجتے ہیں جو کیری لوگر بل کی ”بھیک نما امریکی
امداد“ سے چار گنا زائد ہے اور ان تمام قربانیوں اور محبتوں کا صلہ اہل میرپور
جفاﺅں کی شکل میں دیا جا رہا ہے۔
اگر ہم غالب کی زبان میں بات کریں تو شاید یہ کہنا پڑے گا
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
صرف بہائے مئے ہوئے آلات مے کشی
تھے یہ ہی دو حساب سویوں پاک ہو گئے
کرنے گئے تھے ان سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
قارئین پاکستانی حکومت اور واپڈا نوشتہ ءدیوار پڑھیں اور ایسی حرکتوں سے باز آ
جائیں جن کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا ، بلوچستان میں آگ لگی اور آج اہل
میرپور بھی اسی بے حسی کے شاکی ہو کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے
ہیں۔ اہل میرپور سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور ”سبز باغ“کو حقیقت کی شکل دی
جائے ورنہ ”کالا باغ“ سراب ہی رہے گا اور”منی لندن “کے لوگ اسی طرح احتجاج کرتے
رہیں گئے۔
آخر حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
شوہر نے انتہائی پریشانی بیگم سے کہا کہ اس ماہ اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں سمجھ نہیں
آتا کہ ڈاکٹر کا بل ادا کروں یا بجلی کا؟
بیگم نے اطمینان سے جواب دیا بجلی کا بل ادا کرو، ڈاکٹر تو ہمارا دوران خون بند
کرنے سے رہا۔
قارئین اس وقت اہل میرپور پاکستان سے قلبی محبت ہی کی وجہ سے جفاﺅں کے گلے کر رہے
ہیں خدارا ان محبتوں کی قدر کرنا سیکھئے ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
|