آبادی اور زمینی وسائل کے عدم تناسب کا نظریہ یعنی ‘خاندانی منصوبہ بندی‘
اصل میں امریکی اور یورپی پالیسی سازوں کے لیئے اپنے استعماری اور نسل
پرستانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ اور جواز ہے اور
اس کے پیچھے ‘گُڑ دے کر مارنا‘ کی سازش کار فرما ہے، اس کا نیک نیتی سے
کوئی تعلق نہیں ہے- زلزلے، قحط، سونامی، بیماریاں، سیلاب، حادثات اور دیگر
آفاتِ سماوی جن میں بیک جنبش ہزاروں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں،
آبادی اور وسائل میں تناسب برقرار رکھنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں- قابلِ غور
پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب ہر انسان کے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہے، کسی
گھر میں بچہ بالخصوص لڑکی کی پیدائش رحمت کہلاتی ہو، جب خدا پتھر میں کیڑے
کو غذا مہیا کرتا ہے تو پھر ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کی حمایت میں اس قدر شور
و غوغا کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کے حق میں میڈیا وار کیوں چلائی جا رہی ہے؟
اس پر کثیر سرمایہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟
‘کھو گیا جو وہی حقیقت تھا
ہے جو موجود، ہے گماں کی طرح‘
یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ بنیادی حقیقتیں ہمیشہ پسِ دیوار ہی ہوتی ہیں
اور جو سامنے دکھایا جاتا ہے وہ محض شیشے کی چکا چوند ہی ہوتی ہے اور دراصل
اس چکا چوند کی آڑ میں دھوکہ دے کر ‘مفادات و عزائم‘ کو حاصل کرنا ہوتا ہے-
‘خاندانی منصوبہ بندی‘ بھی دراصل سرمایہ دار کی اپنی بقا و سلامتی کی
برقراری کی ایک باقاعدہ سوچی سمجھی اور ‘لانگ ٹرم‘ سازش و چال ہے- سرمایہ
دار ممالک اور اسکے معاون و چیلے معاشی و انسانی حقوق کے ادارے کی تجید
آبادی کی مہنگی مہمات اور پروگرامز جہاں ایک سوچھی سمجھی سیاسی اور جنگی
حکمتِ عملی ہے وہیں پہ یہ ساتھ ہی بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی
بھی ہے اور ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی معاشی بالادستی اور سیاسی تفوق کو
قائم و دائم رکھنا ہے-
حیران کن امر یہ ہے کہ ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کا ڈھنڈورا ایسے یورپی و
مغربی ممالک اور امریکہ پیٹ رہے ہیں جن کا اپنا خاندانی نظام ہے ہی نہیں
اور اگر تھوڑا بہت ہے بھی تو اسکا شیرازہ دن بدن بکھری جا رہا ہے-ایسے
معاشرے جہاں بچے کو اپنے باپ کے نام کا ہی پتہ نہ ہو، شادی سے پہلے بچے
پیدا کرنے کو قانون کی شکل میں جائز قرار دیا جاتا ہو، لڑکی اپنے گھر کی
بجائے اپنے بوائے فرینڈ کے گھر ہفتوں گزارتی ہو لیکن اسکے گھر والوں کے لیے
یہ کوئی مسئلہ نہ ہو، بوڑھوں کے لیے اولڈ ہوم بنائے گئے ہوں، الغرض ایسے
معاشرے، عام یورپی اور امریکی افراد جو ‘خاندان‘ کے کسی جھنجھٹ میں پڑنا ہی
نہیں چاہتے اور ‘انجوائے دی سیلف‘ کے معروف مغربی اصول کے تحت اپنی زندگی
ذمہ داری سے پاک اور عیش و عشرت و رنگ رلیوں سے بھرپور گزرنا چاہتے ہوں تو
ان معاشروں کا، ان ملکوں کا ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ پر چیخ و پکار کس طرح
عقل کی کسوٹی پر فِٹ بیٹھ سکتی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے کسی سکول ٹیچر
کو کسی میڈیکل لیبارٹری میں بٹھا کر میڈیکل رپورٹ تیار کرنے کا کہا جائے-
لہذا ثابت ہوا کہ ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کے پراپیگنڈہ کے پیچھے نہ صرف دال
میں کالا کالا ہے بلکہ ساتھ ہی نیلا پیلا لال سرخ بھی ہے-
تجید آبادی کے لیئے سرمایہ دار کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ڈائریکٹلی اور
انڈائریکٹلی، عالمی اداروں جو کہ دراصل اسی سرمایہ دار نے اپنی بقا وسلامتی
وتحفظ کے لیئے دریافت یا بنائے ہیں مثلاً یو این او، آئی ایم ایف، عالمی
بینک اور علاقائی ترقیاتی بینکوں وغیرہ کے ذریعے بھی غربت کے خاتمہ،
اقتصادی ترقی، زچہ بچہ صحت، بچے دو ہی اچھے، وغیرہ جیسے پروگراموں کے پردے
میں تجدید آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے- اور اس مہم کو اولیت دینے
کا، اس مہم پر زور صرف کرنے کے پیچھے سرمایہ دارانہ ملکوں کا یہ خوف کار
فرما ہے کہ کہیں دوسری اقوام (بالخصوص مسلمان) محض افزائش نسل سے طاقت کا
توازن ہی نہ بدل کر رکھ دیں اور وہ محض اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے زور پر ہی
دنیا میں غلبہ اور تسلط حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں- چونکہ زیادہ
آبادی سے غربت میں اضافہ ہوگا لہٰذا سرمایہ داروں کو اس بات کا بھی خوف ہے
کہ کہیں بھوک سے نڈھال افراد اپنی بھوک مٹانے کے لیئے ان کی فیکٹریوں پر
براجمان نہ ہوجائیں، ان کے منافع میں مزدور برابر کا حصہ مانگنے کے لیئے
کہیں اٹھ کھڑا نہ ہو اور سرمایہ دار کے لیئے عوام کے سمندر کے آگے ٹِک جانا
ممکن نہیں رہے گا-
‘فیملی پلاننگ‘ درحقیقت افرادی قوت کو کھپانے والے آنے والے ممکنہ علاقائی
تنازعوں کے حل کی غرض سے کیپٹیلسٹ ممالک کا ایک حفاظتی قدم ہے تاکہ ان کی
دولت، منافع انہی کے پاس رہ سکے، اور اس کی گردش کا مدار وسعت اختیار نہ کر
سکے- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی پذیر قومیں اپنی شرح آبادی کے نتیجہ میں
‘زیادہ قوت اور اثر‘ کی مالک ہوں گی- باالفاظ دیگر، تجدید آبادی سرمایہ
کاروں کا ایک ‘فیملی پلاننگ سرجیکل اٹیک‘ ہے جسکے پیچھے یہ بات کارفرما ہے
کہ مغرب یعنی ‘خوشحال ممالک‘ کی حفاظت باقی دنیا میں ‘برتھ کنٹرول‘ کے
ذریعہ ہی ممکن ہے-
سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ‘آبادی پروگرام‘ بیرونی دخل اندازی کا ایک
‘مہذب‘ ذریعہ ہیں اور یہ استعماری اور نوآبادیاتی سازشیں ہیں کہ ترقی پذیر
ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا کے ملکوں کو زیردست رکھا جا سکے، اس پروگرام میں
نسل کشی کا ارادہ بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا- فیملی پلاننگ
پروگرام میں جو رکاوٹیں مثال کے طور پر مذہبی، روحانی، سیاسی، ثقافتی اور
روایاتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کی غرض سے تجدید آبادی پروگراموں میں ‘زچہ بچہ
کے لیئے صحت کی فراہمی‘ کو پاپولیشن پراجیکٹ سے مربوط کر دیا جاتا ہے- مزید
برآں، فیملی پلاننگ کے سلسلے میں جو لٹریچر، کتابچے، پمفلٹ، کتابیں وغیرہ
چھاپی جاتی ہیں ان میں اس بات کی پیشن گوئی بھی بکثرت کی جاتی ہے کہ آبادی
میں اضافہ کے ساتھ صحت کی سہولتوں کی حالت بدتر ہوتی جائے گی اور علاقے کی
حکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ رہائشی سہولیات، ٹرانسپورٹ، حفظان
صحت، پانی، ایندھن، اور بنیادی عوامی خدمات زیادہ آبادی کے لیئے مہیا کر
سکیں- منصوبہ بندی نظریہ کی تشہیر میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ‘خاندانی
منصوبہ بندی‘ لوگوں کے لیئے فائدہ مند ہے، بچے تھوڑے ہوں تو مائیں صحت مند
ہوں گی، بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں گے، چھوٹے کنبوں کا معیارِ زندگی بہتر
ہوتا ہے، شرح آبادی سست ہوگی تو ترقیاتی عمل پائیدار ہوگا، انجام کار لوگ
تھوڑے ہوں گے تو سیاسی لیڈروں کی سر دردی بھی کم ہو گی، وغیرہ وغیرہ- یہ سب
باتیں، یہ سب جواز دراصل ‘برتھ کنٹرول‘ کے حقیقی مقاصد سے توجہ ہٹانے کے
لیئے استعمال کیئے جاتے ہیں اور آبادی میں کمی کے پروگرام میں
‘سائیکالوجیکل آپریشنز‘ کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کو
‘ورغلانا‘ یا اپنی ‘لائن‘ پر لانا ہوتا ہے-
‘بچے دو ہی اچھے‘ کو سامنے رکھ لیا جائے کہ اس سے بچوں کو اچھی تعلیم، صحت،
روزگار، تربیت وغیرہ ملے گی اور والدین کو بھی پارٹ ٹائم جاب کرنے کی ضرورت
نہیں رہے گی کہ گھرانہ دو بچوں پر مشتمل ہے- سوال یہ ہے کہ جب زندگی اور
موت کا کوئی پتہ نہیں تو پھر ان دو بچوں کی اچھی تعلیم، تربیت، روزگار
وغیرہ کی کیا گارنٹی ہے؟ یہ تو اتنے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ جیسے دو بچے
لازمی طور پر جوانی یا آگے کا زمانہ دیکھیں گے، جیسے ان کی موت کی تاریخ کا
فیملی پلاننگ والوں کو پہلے ہی سے علم ہے، معاذاللہ- مزید برآں، جب مذہب،
فرقہ، گھریلو معاملات ذاتی قسم کے ہوتے ہیں تو یہ پلاننگ والے کون ہوتے ہیں
‘بچے دو ہی اچھے‘ پر عوام کو ‘ہپناٹائزڈ‘ کرنے والے؟ یہ ہر کسی کا اپنا
ذاتی مسئلہ اور ذاتی معاملہ ہے کہ وہ چاہے دو بچے پیدا کرے یا زیادہ- یہ جو
کہتے ہیں کہ زیادہ بچوں سے والدین کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا
ہے، درست نہیں- کیونکہ یہ بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے اور محسوس بھی کی جا
سکتی ہے کہ جوں جوں بچے پیدا ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے قدرتی طور پر اللہ
تعالی والدین میں بھی ہمت و طاقت پیدا کرتا چلا جاتا ہے کہ وہ ان کی پرورش
کر سکیں- کوئی لاٹری نکل آتی ہے، کوئی اور ذریعہ معاش کھل جاتا ہے، یا غیب
سے مدد پہنچ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ- یہ سب روحانی باتیں ہیں جن کو ‘مادہ
پرست‘ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ‘مادہ پرستی‘ سے انکار، روحانیت کی طرف قدم
اٹھانے کی پہلی شرط ہوتی ہے-
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مناسب طریقوں اور ٹیکنالوجی کے درست
استعمال اور نیک نیتی کے استعمال سے پاکستان موجودہ آبادی سے کئی گنا زیادہ
آبادی کو بھی سہار سکتا ہے، پیداواری کارکنوں کی بڑی تعداد دوررس اثر کے
طور پر شرح آمدنی کو تیزی سے بڑھا بھی سکتی ہے- ویسے بھی اگر بہت سی بنجر،
بےآباد اور افتادہ زمین کا نقطہ نظر سامنے رکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ
‘آبادی بڑھانے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے‘- المختصر، ‘فیملی پلاننگ‘
سرمایہ دار کی اپنی ذاتی فلاح و بہبود و ترقی و بقا و پرورش کی ایک چال ہے
اور ایسا کرنا ‘نسل کشی‘ کے مترادف ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس
نسل کشی میں بالواسطہ شرکت اور کسی کو ایسی حرکت پر اکسانا یا سازش کرنا
بھی جرم ہے- صرف دو باتیں ہی یاد رکھنے کے قابل ہیں ایک یہ کہ ‘اللہ
پالنہار ہے‘ اور دوسری یہ کہ:
‘اللہ توں والی توں،
دتا ای تے پالی توں‘
حاصل بحث یہ کہ بقول شاعرِمشرق:
‘تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنیاد سرمایہ داری ہے‘ |