ہمارے حکمراں رول آف لا کی حکمرانی کریں اور عوام شعور کی

مسلمانوں سے میری یہ گزارش ہے کہ ہم کسی کی شخصیت پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے اپنے دامن کو ضرور دیکھ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس وحشی کو لگام دینا چاہتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں خود ہمارے اندر بھی موجود ہو اور پھر ہمارای ساری کو ششیں رائگاں بلکہ شرمندگی کا باعث بن جائیں۔ مسلمان ہوتے ہوے ہمیں یہ سبق نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں اسلام جہاں اصلاحی کام کی دعوت دیتاہے وہیںیہ بھی بتاہے کہ’ وہ باتیں تم نہ کہوجس پر خود عمل نہ کرو‘اور حضور نے اسی لیے فرمایا کہ’ ایسے اسپیکروں کے ہونٹ کل بروز قیامت بار بار آگ کی قینچی سے کاٹی جائیںگی جن کے گفتار ان کے عمل کے خلاف ہو‘ ۔اسی طرح جہاں ہمیں اسلام ظلم کے خاتمے کا سبق سکھاتاہے اور جہاں رسول اللہ ﷺ کی زبانی یہ بتا تا ہے کہ’ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا سب سے بڑا جہاد ہے‘ وہیں رسول کی زبانی یہ بھی سکھاتاہے کہ’ تم پر لازم ہے کہ تم اپنے حکمرانوں کے ساتھ اطاعت کا رویہ اختیار کرو چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی سے اور اس کے باوجود کے تمہارا حق تمیں نہ پہونچے‘۔(مسلم رقم1836)

مذکورہ احادیث سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو یہ سمجھ کر لوٹ گھسوٹ اور اور بدعنوانیوں کے جواز ڈھونڈھتے ہیں کہ جب ہمارے حکمراں ہی کرپشن کررہے ہیں تو وہ کیوں نہ کریں۔اس حیلے سے اصلاح کے بر خلاف پوری زمین ظلم و زیادتی سے بھر جائے گی اور حکمراں طبقے کی محدود بدعنوانیاں نچلے طبقے تک سرایت کرجائیں گی ۔ہمیں بہر حال حکمرانوں کے جاری کردہ قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے اور رسول کے بتائے راستے پہ عمل پیرا ہوناچاہئے اور کسی کی برائی کو برائی کرنے کا جواز نہیں سمجھنا چاہئے کہ برائی بہر حال برائی ہوتی ہے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے اس کا کیا واسطہ؟ البتہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتے ہوے اپنے حکمراں کی بات ماننی چاہئے اور ہمیں پہلے دوسروں کے درندگی اور وحشی نفس کو کنٹرول کرنے سے پہلے اپنے اندر کے وحشی کو لگام دینا چاہئے نیزاپنے جذبات کا رخ احتجاج سے نکال کر دائرہ عمل کی طرف موڑنا چاہئے اور جو ممکن نہیں اسے چھوڑ کر اس کی کو شش کرنی چاہئے جو عین ممکن ہے۔

ہمیں قانون سے کہیں زیادہ شعورو آگہی کا سہارا لینا چاہئے اور ان عناصر کو مہمیز کرنا چاہئے جو ہماری فکر کو پرواز، ہمارے تخیل کو سیمابی ،ہمارے ذہن کو وسعت اور علم کو بال و پرسے سرفراز کرے کیوں کہ اگر ان میں کامیاب ہو گئے تو ہمار اشعور خود یہ فیصلہ کرے گا کہ بھلائی نظام کی پاسداری میں ہے نہ کہ نظام کی پامالی میں اور یہ شعور ہم اپنی محنت سے حاصل کر سکتے ہیں حکومت سے نہیں ۔ آج شاید ہم مسلمانوں کا شعور مر چکاہے یہی وجہ ہے کہ افراتفری ،بے عملی ،بے راہ روی اور بہت سے ناپسندیدہ عمل ہمار ے معاشرے کی ثقافتی اقدار بن چکی ہےں۔ ہمارے پاس نظام تو ہے لیکن ہمارا شعور انھیں برتنے کی صلاحیت سے کورا ہے۔ مثال کے طور پر مغربی ممالک میں عوامی جگہوں میں لائن اپ ہونے اورہربڑے چھوٹے کے اس پر شوق عمل کو اکثر نے سنا یا دیکھا ہوگا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم ہر روز پانچ مرتبہ اس عمل کو بہ حسن و خوبی انجام دینے کا ہنر رکھتے ہیں بلکہ عیدین اور حج کے موقع پر کمال کی ڈسپلن دکھاتے ہیں اس کے باوجود مسجد کے دروازے پہ آتے ہی ہم یہ مہارت کھو دیتے ہیں!آخر کیوں ؟اس لیے ناکہ ہمارے پاس نظام تو ہے اسے برتنے کا شعور نہیں! جب کہ اہل مغرب جو اقامت کے الف سے بھی واقف نہیں وہ ایسا ڈسپلن کیوں دکھاتے ہیں ؟صرف اس لیے نا،کہ ان کا شعور پورے طور پر زندہ ہے ۔وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایسا نہ کرنے میں ہر ایک کا نقصان او ر بہ صورت دیگر ہر ایک کو راحت ہے ۔دوستو! ہمیں اپنے بھولے ہوے اعلیٰ شعور کی بحالی ناگزیر ہے کہ’ اصل میں یہ عمدہ نظام نہیں ہوتا جو اعلیٰ شعور دیتا ہے، یہ اعلیٰ شعور ہوتاہے جو عمدہ نظام دیتا ہے اور اسلام کا احسان کہ اس نے ہمیں دونوں سے بھر پور حصہ دیا ہے پھر آخر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہم مغرب کی صرف خرابیوں کو بڑی آسانی سے لے لیتے ہیں اور وہ ہماری صرف اچھائیوں کو۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مغربی تہذیب اصل میں صرف شراب و کباب اوربے پردگی تھی جسے ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر قبول کر چکے ہیں اور عدل و انصاف حق گوئی و بے باکی اعلیٰ اخلاقی اقدارو کردار جو صرف میرا تھا وہ لے چکے ہیں ۔کیا ایسا نہیں کہ پہلے ہمارے گھروں میں ایک باپردہ خواتین کی تصویر داخل ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ اس کے دو پٹے کھلنے لگے اور ایک دن آیا کہ وہ نیم عریاں یا بالکل ننگی ہوکر ہمارے دیواروں تک پہنچیں اور اس طریقے سے غیر شعوری طور پر بے پردگی ہماے گھروں میں آگئی ۔جب ہم خود کی حفاظت نہ کرسکے تو اسلام کی حفاظت ہم کیا کریں گے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا جتنا ہمیں بدنام کرنے کی کو شش کرتی ،اور ہمارے خلاف جتنی سازشیں رچتی ہم اتنے ہی عملی مسلمان بن کر اس کا جواب دیتے ،ہم اتناہی اسلام میں پکے ہوکر سامنے آتے اور انھیں بتاتے کہ دیکھو آفتاب پہ تھوکنے والوں کے چہرے پر وہ کیچڑ واپس کیسے پلٹی ہے ۔لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔یہی وجہ ہے کہ ناکا می و نامرادی آج مسلمانوں کا نصیبہ اور ذلت و رسوائی مسلمانوں کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔

یہ تو وہ باتیں تھیں جسے ہم برت کر ہر مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اور یقینا ہمیں ایسا ہی کرنا چاہئے ۔آج ہندستان کے تناظر میں ہم بات کریں تو خواہ کوئی بھی پارٹی یا سیاسی لیڈرہی کیوں نہ ہو،ان پہ بدعنوان ہونے کا الزام عائد کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے بدعنوانیوں کے دور کرنے کا مزاج بنانا چاہئے جو توانا ہوکر ہمارے ساتھ مجلس قانون ساز میں بھی پہنچ جاتاہے ۔لیکن اس موقع پر ایک بات ہم اپنے حکمرانوں سے بھی ضرور عرض کریں گے کہ جمہوری ملک میں آپ پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہےں، ایک من حیث الفرد اور دوسری من حیث الحکمراں۔جب کہ آپ اکثر یا تو ایک کے مقابلے دوسرے سے غافل ہوجاتے ہیں یا پھر دونوں سے ۔اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ آپ ’رول آف لا‘ کی حکمرانی کریں نہ کہ’ رول آف خودی‘ کی تبھی آپ ایک کامیاب حکمراں ہوسکتے ہیں ورنہ پھرآپ تو ملک و قوم کو لوٹیں گے ہی آپ کی یہ باتیں عوام میں پہونچے گی تو پھر وہ اس کو حیلہ بنالیں گے اور اس طرح سے آپ تک محدودکرپشن معاشرے کے نچلے طبقے تک اتر آئے گا اور ہر کوئی یہی کہتا ہوا نظر آئے گا اور آرہاہے کہ ’موقع ملے تو چوکا لگاؤ یہ کا م بڑے بھائی بھی تو انجام دے رہے ہیں‘ اور اس طریقے سے پوری زمین ایک دوسرے کے دیکھا سیکھی ظلم و زیادتی کا گہوارہ بن جائے گی اس لیے ہمیں آج قانون کی حکمرانی کو ایک معاشرتی قدر کے طور پر پیش کرنا چاہئے اور اسے کہیں نافذ او ر کہیں معطل نہ ہونے دینا چاہئے کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب ہی ہوتاہے کہ من مانی کاخاتمہ ،قانون کی بالا دستی، انسانی تلون کی مغلوبیت اور اصول کی فتح ۔نیز یہ کہ اب فیصلہ فردکی حیثیت کے بنیاد پر نہیں بلکہ اصول و ظابطہ پر ہوگا۔لکن کیا آج ہمارا معاشرہ یا ہمارے حکمراں ایسے ہیں ؟یہ سوچنے اورسمجھنے کی چیز نہیں بلکہ دیکھنے اور محسوس کرنے چیز بن چکی ہے۔ کیا آج کسی حکمراں کو ویزہ لینے یا ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے اتنی ہی تحریری یا عملی امتحان سے گذارنا پڑتاہے جتنا کہ ایک عام آدمی کو؟ اگر نہیں تو پھر یہ جمہوری نظام کیسا ؟۔شاید آپ کو اس واقعہ سے کافی تعجب ہو کہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے آر نلڈ جو پہلے باڑی بلڈر بنے اور اس میں شہرت کا آسمان چھونے کے بعد فلمی دنیا کا رخ کیا اور کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اورپھر آخر میں ایک کامیاب سیاست کا آغاز کیا اور ۳۰۰۲ میں امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے گورنر بنے اور ۷۰۰۲ میں ایک بہت مضبوط پارٹی کے سربراہ ہوگئے ۔کچھ سال پہلے انھوں نے موٹر سائکل لائسنس بنوایا جس میں انھیں چھ مہینے تک کئی تحریری اور عملی امتحانات سے بھی گذرنا پڑا ۔کیا ہم اہل ہند کے لیے یہ کسی عجوبے سے کم نہیں ؟ کہ ہمارے ملک میں کسی حکمراں کو ایسا کرنے کی بات تو دور اگر انھیں کسی لائسنس کی ضرورت پڑی تو پورا محکمہ  لائیسنس ہی قدموں پہ آگرتاہے۔ انھیں تحریری اور عملی امتحان سے گذرنے کی بات تو درکنار۔لیکن اس کے برخلاف عوام الناس کواس میں اس وقت تک کامیابی نہیں ملتی جب تک کہ وہ دو چارکو گھوس نہ دےں یا پھر آمد و رفت کرتے کرتے ان کے پاوں نہ سوج جائیں ۔خود میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں نے ووٹر آئڈی کارڈ کے لیے بلاک میں ازخودجاکر تین مرتبہ فارم فلپ کیا اور کسی کی مٹھی گرم کرنے کے علاوہ ہر ممکن کوشش کی لیکن افسوس کے میرا پاسپورٹ بھی بن گیا اور گذشتہ دو سالوں سے اب تک میری ووٹر آئڈی کا کو ئی پتانہیں ۔کیا اس کے بعد بھی ہم ہندستان میں قانون آف لا کی حکومت کو مانیں؟ ۔

واضح رہے کہ زندہ قومیں جس قدر کو معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی ’رول آف لا‘ ہے اس لیے اگر ہمارے حکمراں ہمیں صحیح زندگی دینا چاہتے ہیں تو رول آف لا کو فکرو عمل دونوں لحاظ سے برت کر دکھائیں ۔کیوں کہ ہمیں اگر اپنے ملک میں سے ظلم و ناانصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے رول آف لا کو سب سے پہلے بڑامقام دینا ہوگا ۔اس کے بغیر امن و انصاف کا خواب کبھی شرمندہ ¿ تعبیر نہیں ہوسکتااور عوام شعور و آگہی کے ناخن لیں کہ اس کے بغیر نہ ہم قانون کوصحیح طور برت سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو کہ شعور و آگہی یہ علم کا وہ حصہ ہے جو انسان کو معرفت خدا بھی عطا کرتاہے اور معرفت خودی بھی ۔
Md Nooruddin
About the Author: Md Nooruddin Read More Articles by Md Nooruddin: 10 Articles with 24804 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.