انسانی تعلیمات ....اور معاشرتی رویے
(Abdul Majeed Siddiqui, )
معاشرتی رویوں پر تعلیمات اپنا
گہرا اثر رکھتی ہیں۔ انسانی تعلیمات کے زیر اثررویوں سے کسی بھی معاشرے یا
قوم کی تہذیب و ثقافت، اخلاقی و مذہبی اقدار، معاشرتی و سماجی معاملات کو
سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ مثبت انسانی رویے ہی صحت مند معاشرہ کی
تشکیل اور قوموں کی فکری صلاحیتوں میں پختگی کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔ تعصب
اور تنگ نظری کے زیر اثر رویے کسی بھی قوم یا معاشرہ کی مضبوط اخلاقی
بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ بظاہر تو کوئی بھی معاشرہ یا تہذیب غیر
اخلاقی رویوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی مگر اس کے باوجود انسانی رویوں میں
اتار چڑھاؤ ایک فطری عمل ہے۔ اگر قدیم قوموں کے رہن سہن اور معاملات کا
جائزہ لیا جائے تو اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ بہترتعلیم و تربیت کے ذریعے
ہی اخلاقی اقدار کو فروغ حاصل ہوا اور ہر دور میں اس کی شدت سے ضرورت بھی
رہی۔ دنیا میں نفع بخش اور موثر تعلیم و تربیت رب کائنات کے ہدایت یافتہ
برگزیدہ بندوں کے ذریعے ہی ممکن ہوئی۔ اسلام سے پہلے عرب اور دنیا میں بسنے
والی قوموں کے اندر پائی جانے والی جہالت اور اخلاقی پستی کے بنیادی اسباب
میں ”الہامی ہدایت“ سے روگردانی کا رحجان اور حقیقی تعلیمات کا فقدان بہت
اہم تھے۔ کوئی بھی قوم جب مسلمہ اصولوں اور ہدایت سے راِہِ فرار اختیار کر
لےتی ہے تو ذلت و خواری کی بتدریج منازل طے کرتے ہوئے تنزلی و تباہی اس کا
مقدر ٹھہرتی ہے۔
عصر حاضر میں سائنس، طب و جراحت، فلسفہ، ادب سمیت علم و حکمت کے ہر میدان
میں دیگر علوم کے علاوہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صرف دنیاوی ضرورت کے
تحت رہنمائی حاصل کرتے ہوئے دوسری قوموں نے اپنے اندر اعلیٰ اخلاقی، تعمیری
اور فکری و عملی اوصاف پیدا کرنے کی جدوجہد میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
حیرانی اس بات سے ہوتی ہے کہ اس بیش بہا قیمتی اور پاکیزہ ورثہ کے تو ہم
وارث تھے مگر یہ بارِ عظیم ہم سے تو اٹھایا نہ گیا اور شاید اسی وجہ سے آج
ہمیں اپنے اسلاف کی شبانہ روز محنت اور عرق ریزی سے حاصل شدہ اس عظیم
سرمایہ کو قائم رکھنے میں ناکامی کا بھی سامناہے۔ علم و حکمت کو جو بے مثل
پذیرائی اور ترقی اسلامی ادوار میں حاصل رہی اس کی آج بھی مغرب کی قدیم اور
بڑی بڑی لائبریریاں، کتب خانے گواہی پیش کر رہے ہیں۔ تحقیق کے ہر میدان میں
جتنی بھی محنت ہوئی اور اس حوالہ سے مستقبل میں مزید بھی علمی ترقی کی جانب
سفر میں اسلامی تعلیمات کی ہمہ وقت رہنمائی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے جو
تمام علوم کو ایک پائیدار اور نا قابل تردید بنیاد اور ستون مہیا کرتی ہے
جس پر قیامت تک کی جانے والی تحقیق کی ایک مضبوط اور جدید حالات سے موافقت
رکھنے والی عمارت کھڑی ہوتی رہے گی۔ ہمارے اندر علم و تحقیق سے روگردانی کا
رویہ ہماری ترجیحات کو یکسر بھی تبدیل کیئے ہوئے ہے جس کے باعث شوق، جذبہ ،
لگن اور محنت میں بتدریج کمی آتی جا رہی ہے۔ حقیقی اور با مقصد تعلیمات کی
بنیاد ناقابل تردید قوانین و ضوابط کے تابع مسلمہ ضابطہ اخلاق کی پیروی سے
مشروط ہے جس کا عملی مظاہرہ پوری انسانیت کے لیئے باعث منفعت ہے۔
اگر کسی اتھارٹی کے سامنے جوابدہی کے خوف سے شب و روز گزارنے کا معمول
بنالیا جائے اور اس کے حقیقی ثمرات کے حصول کے پیش نظر علمی، عملی، سیاسی،
مذہبی، فکری ، ظاہری، باطنی غرض یہ کہ ہر میدان میں اپنا مثبت کردار ان
مسلمہ اصولوں کے تحت ادا ہوتارہے تو بالآخر انسان زندگی کے اس عظیم مقصد کو
پا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو اس کی بنیادی غرض و غائیت بھی ہے۔ چونکہ
اللہ رب العزت کسی کی نیک نیتی پر مبنی اور ”ضابطہ اخلاق“ ٰکے تحت کی گئی
کوشش کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔دین اور عقیدے کی بنیاد پرہی تعلیم و تربیت
کے زیر اثر کوئی بھی کوشش بارآور ثابت ہو سکتی ہے اور اسی کوشش کے نتیجہ
میں معاشرتی و اخلاقی اقدار کو عروج حاصل رہتا ہے۔ یہی حقیقی انسانی
تعلیمات جو رب کائنات کے برگزیدہ بندوں کے ذریعے معاشرہ کے اندر عام ہوئیں،
پورے عالم انسانی کے لیئے یکساں امن و آشتی کا پیغام لائیں، اخلاقی و
معاشرتی پستی سے انسانیت کو نکال کر اشرف المخلوقات کے درجے تک لے گئیں،
انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں وہ دنیا و آخرت کی حقیقی
کامیابی کی بھی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ تعصب و تنگ نظری سے بالا تر وسعت
قلبی کے پیش نظر غیر متشدد رویوں کی عکاس تعلیم ہی کا اثر تھا کہ عرب و عجم
میں اخلاقیات و ایثار و قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں، ایک دوسرے کے
خون کے پیاسے اخوت و محبت کے رشتوں میں بندھ گئے۔ آج بدلے ہوئے معاشرتی
رویوں کو افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر اسلامی تعلیمات کے تابع کرنے کی
اشد ضرورت ہے تاکہ انسانی علمی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے حقیقی
معنوں میں تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں اپنی جگہ بنانے میں سرخرو ہو پائیں۔ |
|