برما میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
برما میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں
اور
یورپی یونین کی طرف سے پابندیاں اٹھائے جانے کا اعلان

برمامیں گزشتہ کئی ماہ سے مسلمانوں کے خلاف ایک طویل خون ریزی جاری ہے جس کے پیش منظر کے طور پر یہ توقع کی جارہی تھی انسانی حقوق کے دعوے داروں کی طرف سے شاید کسی طرح کی کوئی پابندی لگانے کا اعلان کیا جا ئے ،لیکن اس کے مطلقاََ برعکس آج منگل مورخہ23اپریل 2013کویہ جاں گسل خبر آئی ہے کہ سیاسی عدم آزادیوں کے باعث جو کچھ تھوڑی بہت پابندیاں برماکی حکومت پر یورپی یونین کی طرف سے لگائی بھی گئی تھیں وہ بھی اٹھا لی گئی ہیں۔گویا بادی النظر میں یورپی یونین نے ایک طرح سے شاباش دی ہے کہ برما کی حکومت نے مسلمانوں کے قتل عام میں ،ان کی بستیوں کے جلاؤ گھراؤ میں اور ان کی املاک کے نظر آتش کرنے میں جو ’’شاندار‘‘کردار اداکیا ہے اس کے انعام کے طور پر ان پر سے عائد پابندیاں اٹھا لی گئیں ہیں۔

برما کاپرانانام ’’سوشلسٹ ریپبلک آف دی یونین آف برما‘‘تھا،آجکل اس ملک کو صرف برما ہی کہا جاتا ہے،1989میں فوجی حکمرانوں نے اس ملک کانام ’’میانمار‘‘رکھا لیکن اس نام کو مقامی اور بین الاقوامی قبولیت ابھی تک نہیں مل سکی۔یہ ملک جنوب مشرقی ایشیا میں بنگہ دیش اور تھائی لینڈ کے درمیان واقع ہے۔678,500مربع کلومیٹر اس ملک کا کل رقبہ ہے،پٹرول،قیمتی پتھر،لکڑی اور نایاب دھاتیں اس ملک کی قدرتی دولت ہیں۔47,758.180افراد پر مشرمل برما کی کل آبادی ہے جس کی اکثریت برمی مقامی افراد پر مشتمل ہے تاہم چین اور ہندوستان سے آئے ہوئے قبائل بھی ایک مدت سے وہاں آباد ہیں جن میں بدھ 89%،عیسائی4%،مسلمان5%اورکچھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔یہاں برمی زبان ہی بولی جاتی ہے۔برما کا دارلخلافہ رنگون ہے۔برمامیں فوجی طرزکانظام حکومت قائم ہے،ملک کو سات بڑے صوبوں اور متعدد چھوٹے انتظامی حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔فوجی حکمران ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اگرچہ ایک سیاسی نظام کا ڈھانچہ انکے تحت متحرک ہوتا ہے لیکن انہی کے رحم و کرم پر۔متعددسیاسی جماعتوں کو ایک محدودسیاسی آزادی حاصل ہے،حال ہی میں مئی2008قوم کو ایک دستور بھی دیا گیاہے۔ملک میں تقریباََ90%افراد پڑھے لکھے ہیں۔

سامراج نے جہاں جہاں سے بھی مجبوراََرخت سفر باندھاہے وہاں وہاں پرجرنیلوں کی شکل میں غلامی کی زنجیریں چھوڑتاگیاہے تاکہ اپنے مفادات ان جرنیلوں کی مددسے پورے کرائے جاتے رہیں اور انسانیت پر سوداورسیکولرتہذیب کی شکل میں مشق ستم جاری رہے۔برماکی مثال بھی انہیں ملکوں جیسی ہے جہاں آج تک جرنیلوں نے قوم کی گردنوں پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے ہیں،مئی2008میں فوج کاہی تیارکیاہواآئین ایک ریفرنڈم کے ذریعے نافذ کیاگیاجبکہ جرنیلوں کے کرائے گئے ریفرنڈم کی حقیقت اور ان کے نتائج سے وطن عزیز کے عوام بھی بخوبی آگاہ ہیں۔2010کے انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت یونین سولیڈیٹری اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی(Union Solidarity and Development Party) کو کامیابی عطا کی کردی گئی،ان انتخابات کی شفافیت پر غیرملکی مبصریں نے بہت زیادہ سوالات بھی اٹھائے۔ان عام انتخابات کی ایک اہم بات یہ تھی برماکی وہ تمام سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دئی گئیں جو فوج کی ناپسندیدہ تھیں ،ان میں سے ایک جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی(National League for Democracy )بھی تھی جو مملکت کی عوام میں بے مقبول سیاسی جماعت تھی۔اس سیاسی جماعت کی راہنماایک عرصہ سے قید میں تھی اور اس کے ساتھ سینکڑوں کارکنان بھی پس دیوار زنداں دھکیل دیے گئے تھے۔جرنیلوں کے زیرسایہ کسی بھی نظام کا چلنا اسی طرح ہی ممکن ہے کیونکہ سامراج نے ان کی تربیت ہی ان ہی اصولوں پر کی ہے۔

برما کی حکومت کے سیاسی مخالفین کے بارے میں مذکورہ رویے کے باعث برماپر یورپی یونین نے پابندیاں عائد کردیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ برما عالمی دنیامیں تنہائی کا شکار ہوتاگیااوراس کے ملک سے امریکی اور یورپی ادارے جو مختلف قسم کے معاشی و معاشرتی منصوبوں پر عمل پیراتھے وہاں سے عازم سفر ہوتے چلے گئے اور یوں مملکت میں بیرونی سرمائے کی قلت اوربے روزگاری میں اضافے کارجحان بڑھتاچلا گیا۔نومبر2011میں برمی حکومت نے کچھ آئینی اصلاحات بھی کیں جن میں آزادی رائے،سیاسی مخالفین کی رہائی ،مزدوروں میں انتخابی عمل کااجرا اور ملکی کرنسی پر عائد پابندیوں کے خاتمے سمیت کچھ دیگر اقدامات کئے گئے۔ان اقدامات کے نتیجے میں یورپی و امریکی پابندیوں میں کچھ نرمی تو آئی لیکن مکمل طورپرکامیابی حاصل نہ ہوسکی۔معاملے کی سنگینی کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ اپریل 2012میں برطانوی وزیراعظم ’’دیوڈ کیمرون‘‘اس میں براہ راست دلچسپی لینے لگے،اس دلچسپی کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں کالعدم جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی اور اس جماعت کی راہنما’’اونگ سان سو کوئی‘‘پارلیمان میں بھی پہنچ گئیں۔اکتوبر2012میں برطانوی وزیراعظم ’’ٹونی بلئر‘‘نے بھی برمی قیادت سے ملاقاتیں کیں،3نومبر2012کو پورپی یونین کمشن کے صدر’’جوس مینول بروسو‘‘نے بھی برمی صدر سے ملاقات کی اور پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ برماکی تنہائی ختم ہونے لگی اور یورپی قیادت کثرت سے اس ملک کے دورے اور ملاقاتیں کرنے لگی۔

برمی حکمرانوں اور یورپی نونین کے عمائدین کے درمیان کیاکیاگفت و شنید ہوئی اورکن کن امور پر تبادلہ خیالات ہوایہ تواﷲہی بہتر جانتاہے لیکن تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ جیسے جیسے یہ تعلقات مضبوط ہوتے گئے ویسے ویسے ہی مسلمانوں پرگردش ایام سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئی۔سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے واقعات نے جنم لیاکہ مسلمانوں کی بے پناہ املاک جلائی گئیں،کتنی ہی مساجد سے ہفتوں تک دھواں اٹھتارہا،بستیوں کی بستیاں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئیں اور ہزارہا افراد ظلم کی اس بستی سے نکل کر ہمسایہ ممالک کی سرزمین پرمہاجروں کی حیثیت سے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔اخبارات میں اور دیگر ذرائع سے پہنچنی والی تصاویر اس قدر روح فرسا تھیں آنکھیں ساتھ دیناچھوڑ جاتی تھیں کہ شاید کمیٹی والے جانوروں کوبھی اس طرح سے مارکر نہیں ڈال دیتے ہوں گے جس طرح مسلمانوں کی لاشیں ہی لاشیں کہیں سمندر کے کنارے ،تو کہیں سڑکوں پراور کہیں کھیتوں کھلیانوں میں بے گوروکفن پڑی ہیں اور بلڈوزراور ٹرک بھی کم پڑ گئے ہیں کہ زندہ و جاوید چلتے پھرتے انسانوں کے کشتوں کے پشتے لگا کر اب ان کو ٹھکانے لگانے کا سامان کیاجاسکے۔کیاافغانستان،عراق،گروزنی اور کشمیر سمیت متعدد دیگرعلاقوں میں سیکولرازم کی بیرونی مداخلت سے قتل وغارت گری کے بعد اب یورپی حکمرانوں نے مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی مسلمانوں کو ختم کرنے کامنصوبہ تو نہیں بنالیا؟؟؟برما پر مسلمانوں کے طویل کشت خون کے بعد یورپی یونین کی طرف سے پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد اس سوال کا جواب ہاں میں ملتاہے۔اور یہ اس لیے بھی گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل یورپ و امریکہ کے خفیہ اداروں کے سابقہ اہل کاروں اور متعدد صحافیوں کی طرف سے لکھی گئی کتب میں اس بات کا واشگاف اظہار کیاجاتا رہاہے کہ سیکولرملکوں کے حکمرانوں کاکاغذوں پر دستخطوں کامعاہدہ کچھ اور ہوتاہے اور بین السطور’’انڈر دی ٹیبل‘‘وعدے وعید اور خفیہ عہدبندیاں کچھ اور ہوتی ہیں۔پہلی جنگ عظیم،دوسری جنگ عظیم،امریکہ میں اسپینیوں کے خلاف بغاوت،افریقہ کی تقسیم ،مشرق وسطی میں اسرائیل کاقیام اور ماضی قریب میں بوسینیاکے مصنوعی حالات تواس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ جب تک حکمران ملاقاتیں ،مزاکرات اور معاہدے کرتے رہتے ہیں تو صورتحال بڑی امیدافزاہوتی ہے اور جب ان کے نتائج سامنے آتے ہیں تو انسانیت ان کی کذب بیانیوں اور دورخے پن و منافقت پر دنگ رہ جاتی ہے۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہواکہ کسی ملک کے حکمرانوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر سیکولرازم کی طرف سے انعامات کی بارش کر دی گئی ہو،انسانیت انسانیت کاراگ الاپنے والے انسانی حقوق کے یہ ٹھیکیداردراصل اپنے سودی نظام اور غیرفطری سیکولرتہذیب کے ہی محافظ ہیں یا پھران کی سوچ کی آخری حد گوری رنگت ہے اور بس،ان کے علاوہ باقی ساری دنیا ان سیکولراقوام کے لیے پیٹ اور پیٹ سے نیچے کے ایندھن کے سوا کچھ نہیں۔کیا یورپی یونین کو برمامیں مسلمانوں کی حالت زار نظر نہیں آتی؟؟؟اپنے ملکوں میں تو کتوں اور بلیوں کے حقوق کے لیے بھی ان سیکولرقوموں نے قوانین بنا رکھے ہیں جب کہ باقی دنیاؤں میں انسانوں کی نسلیں بھی اجاڑ دی جائیں تو ان کی ’’انسان دوستی‘‘پرکیوں کوئی اثر نہیں پڑتا؟؟؟حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی حقیقت طشت از بام ہوتی چلی جارہی ہے ،اس سیکولرازم کے ہاتھوں اب اقوام متحدہ بھی اپنی حیثیت سے دستبردارہوتانظر آتاہے اور رہی سہی کسر نام نہاد’’دہشت گردی‘‘کے خلاف عالمی جنگ نے پوری کردی ہے ،بس اب وہ وقت دور نہیں کہ یہ سیکولرازم اپنے سرمایادارانہ نظام معیشیت کے ساتھ کیمونزم کے ساتھ والے گڑھے میں ہمیشہ کیے لیے دفن دورہو جائے گا،انشاء اﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.