لسانیت ․․․․․ تقسیم در تقسیم ہے

بر صغیر میں اسلام جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات ـطیبہ میں داخل ہوچکاتھا،ملیبار کی موجودہ مسجد شیرامین ۰۸ھ میں قائم ہوئی تھی ،نیرن (حیدرآباد )عہد نبوی ؑ ہی میں پانچ صحابہ کرام ؓ کی آمد سے حلقہ بگوش ِاسلام ہوچکاتھا ،ادھر افغانستان کاوفد حضرت قیس عبد الرشید کی سربراہی میں مدینہ منورہ جاکر آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں بیعت کرچکاتھا،بعد میں بلادِ سند ھ وہند کوباقاعدہ اسلامی خلافت میں ضم کرنے کیلئے جہاں محمد بن قاسم جیسے سپہ سالار آئے ، وھاں صحابہ وتابعین نے بغرض تجارت وتبلیغ یہاں کا رخ کیا، کراچی سے پشاور تک مؤرخین نے ان جلیل القدر ہستیوں کی پانچ سو مقابر کی نشاندہی کی ہے ،جزائر برونائی مالدیپ اور سری لنکا ان تاجر صحابہ وتابعین کی برکت سے توحید وسنت سے ہم کنار ہوئے ،محمود غزنوی ہو یا ابدلی ،غوری ہو یا سوری ،صوفیاء ہوں یا حکمراں ،علماء ہوں یا مفکرین ،سب نے ظلمت کدۂ ہند میں دیاجلانے اور روشنی پھیلانے کی پے درپے کا وشیں کیں ۔کسی کو یہاں دعوت توکسی کو اجابت وتسلیم،کسی کو ھجرت توکسی کو نصرت ،کسی کوجہادتو کسی کو انفاق،کسی کواقدام توکسی کودفاع کے فضائل برسوں سے حاصل ہیں ۔

نکتے کی بات یہ ہے کہ یہاں برصغیر میں اور اُدھر اسپین میں اہل اسلام کو تقریباً ہزار سال قابض حکومتیں قائم کرنے کا اتفاق ہوا، ان مسلم حکمرانوں کے کارنامے زیر نگیں علاقوں میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں ۔۔۔یہ سب اپنی جگہ مگر جب دنیا عالم گیریت کی طرف گامزن ہوئی ،اور بین الاقوامی طور پر ہمارے یہاں کی کسی بھی معمولی سے ہاؤسنگ سکیم کے مانند کرۂ ارض کی جغرافیائی پلا ٹنگ ہوئی ،اس موقع پر خلافت عثمانیہ مرد بیمار کہلا یاجارہاتھا،جبکہ بر ٹش امپائر ،روس ،امریکہ ،اور فرانس وغیرہ اپنے جوبن میں تھے، ان نامساعد حالات میں بھی ہمارے آباء واجداد نے ہر طرف سے مسلم دشمنی کے باوجودقاعدے قانون کی وہ جدوجہد کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ،متحدہ ہند وستان یا تقسیم ہند کی آزادی کیلئے قید وبند،شہادت و سر فروشی ،مذکرات ومجاھدات کی ایک تاریخ رقم کی ،چنانچہ تقسیم بر صغیر کے بدولت ہمیں بھی یہاں دو پلاٹ الاٹ کر دیئے گئے ،مشرقی و مغربی پاکستان کے نام سے ،ملکیت زمین کے ہمارے اس حق کو پوری دنیا بشمول ہند وستان نے بھی تسلیم کرلیا،اب قبضہ نہیں ملکیت کی حیثیت سے اسلام اور مسلمان یہاں موجود ہیں ،افسوس کہ اسپین میں ایسا نہ ہوسکا۔خاکم بدھن، کل کلاں اگر ہند وستان بھی ہمارے ان پلاٹوں پر فوج کشی کرے گا، قابض کہلائے گا ،اس سے یہاں کے مسلمانوں کو اگر ایک خود مختار خطۂ ارض دستیاب ہوا تو دوسری طرف عالم اسلام کے رقبے میں بھی ایک بیش قیمت اضافہ ہوا ،ایک تو تقسیم ہند اور حضرت قائد اعظم پر اعتراض کرنے والوں میں سے اکثر وبیشتر اس جغرافیائی الاٹمنٹ کے اہم ترین مقام سے ناواقف ہیں ،دوسری طرف لسانیت ،صوبائیت وعلاقائیت کے علم بردار دقیا نوسی،تنگ نظری ، رجعت پسندانہ اوربچکانہ سوچ کی وجہ سے عصر جاھلیت کے قبائل کی طرح یہاں قومیت،تعصب ،رنگ ونسل ، اور زبان کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم پر تلے ہو ئے ہیں ،وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دور مخابرات، خفیہ ایجنسوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کاہے، ان اداروں کی چیرہ دستیوں اور تخریب کے متعلق عر بی میں ’’المخابرات فی العالم ـ‘‘ نامی کتاب پچیس جلدوں میں بیروت سے چھپ چکی ہے ،یہ دانستہ یا نادانستہ خواص وعوام کو کس طرح استعمال کر تے ہیں ،ساری تفصیلات اس میں موجود ہیں ۔

لیکن ان سب سے ہٹ کر عقل عام کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کیا خیبر پختونخواہ میں پشتونوں کے علاوہ کوھستانی ،چترالی،تنولی ،کھڑال ،گجراور ہزارے وال نہیں ہیں ،پنجاب میں پنجابیوں کے سوا سرائیکی،نیازی ،رانگڑاور پوٹھوہار والے نہیں ہیں ،بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون ،براہوی اور مکرانی نہیں ہیں ،سندھ وکراچی میں سندھیوں اورمہاجروں کے ساتھ ساتھ بلوچی،سرائیکی ،پنجابی ،قدیم خاصخیلی ودرانی پختون، جدید آباد کار پٹھان ،گجراتی،میمن ،کچھی ،براہوی ،ہزارے وال،میگوار اور بہاری نہیں ہیں ،کیا بنگلہ دیش کی علیحدگی پر وھاں محصور ین کا مسئلہ ایک دردناک داستان نہیں ہے ، کیا بنگلہ دیش نے اسلام اورمسلمانوں کے نام پر حاصل کر دہ وقف یا مسلمانوں کے مشترکہ قطعہ کواپناکر کوئی ثواب کمایا،کیا انہوں نے الگ ہوکر کوئی چین وسکون حاصل کیا۔

عالم گیریت اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں عظیم تراقوام متحدہورہی ہیں ،ایک تجزئے کے مطابق اگلے پچاس سالوں میں پوری دنیا کی ایک ہی زبان ہو گی ،کیا ان حالات میں کنویں کے مینڈک بن کر رہنے کو ہی تر جیح ہوگی ؟؟ یا پھر گلو بلائزیشن کے اس چیلنج کوباہمی اتحاد سے چانس میں تبدیل کرنے کا عزم نہیں ہونا چاہئے؟؟۔

نیز یہ بٹوارے یا رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر تحریکیں ہجرت ونصرت کر نے والوں کی روحوں کے ساتھ غداری نہیں ہے ،کیا موجودہ ہندوستان کے مسلمان کشمیر ،جونا گڑھ ،حیدرآباددکن ،بھوپال ،ٹونک اور روھیلہ کھنڈمیں ظلم کے شکار اور پورے ملک میں دوسرے درجے کے شہری نہیں ہیں ،کیا قرآن کریم نے تمام اہل ایمان کو بھائی بھائی نہیں ٹہرایا ،کیا پیغمبر اسلام نے عصبیت پر مرنے ،خرچ کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کو’’ ہم میں سے نہیں ہیں ‘‘ نہیں گردانا، کیاان نعروں کو آ پ ؑ نے بدبودار نعروں سے تعبیر نہیں فرمایا؟؟

آخر ان نسبتاً بڑی زبانیں بولنے والوں کے پاس وہ کوں سی گیڈر سینگی ہے جس سے چھوٹی لیکن مستقل شناخت رکھنے والوں کو وہ قانع وراضی کرلینگے ،اگر کچھ ہے تو اسی فارمولے کو پورے ملک میں آزمایاجائے ،ورنہ خبردار، بات صرف یہاں نہیں رُکیگی،پھر مکافات عمل کے طور پر تقسیم در تقسیم کیلئے تیار ہوجائیں۔۔۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823101 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More