جنسی جرائم پر بحث کا یہ انداز
(Syed Mansoor Agha, india)
دہلی میں ایک کمسن بچی کے ساتھ
وحشیانہ حرکت کے بعد عوام میں ایک مرتبہ پھرشدید غم و غصہ ہے اور احتجاجی
مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
۵ سالہ بچی کی گمشدگی کے بعد دہلی پولیس نے
شروع میں اپنی روائتی لاپروائی سے کام لیا، مگر معاملہ کی سنگینی ظاہر ہوتے
ہی حرکت میں آگئی ادر تین دن کے اندر ملزموں کو بہار سے گرفتار کرکے دہلی
لے آئی۔اصل ملزم منوج( ۲۲ سال) کو ضلع مظفرپور میں اس کی سسرال سے اور اس
کے ساتھی پردیپ (۱۹) کو ضلع لکھی سرائے سے اس کے ماموں کے گھر سے پکڑا گیا۔
یہ دونوں ابھی شباب کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، جس میں جنسی داعیہ شدید ہوتا
ہے۔ دونوں دہلی میں راج ، مزدوری کا کام کرتے تھے۔ منوج اگرچہ شادی شدہ ہے
مگربیوی ساتھ نہیں رہتی ۔ دوسرا غالباً غیر شادی شدہ ہے۔ اس سے قبل دہلی
میں ہی۱۶ دسمبر کو ایک
۲۳ سالہ غیر شادی شدہ لڑکی کی عصمت دری اور ہلاکت
کے معاملے میں جو ملزمان پکڑے گئے، وہ بھی معمولی کام کاج کرتے تھے اور
عمریں بھی ان کی کچھ زیادہ نہیں تھیں ۔ ان میں جس نے سب سے زیادہ وحشیانہ
حرکتیں کیں وہ تو۱۸ سال کابھی نہیں ہوا ۔ یہ سارے ملزمان تقریبا غیر تعلیم
یافتہ ہیں اور ارتکاب جرم کے وقت غالباً اس کی سنگینی اور سزا کے امکان سے
بے پرواہ تھے۔ ایک توعمر کا تقاضا اوپر سے گردوپیش پھیلی ہوئی عریانیت اور
فحاشی نے جنسی جنون کو مشتعل کر رکھا ہے، چنانچہ یہ لڑکے شدید جرم کے مرتکب
ہوگئے۔ اس دوران اس طرح کے واقعات ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہوئے مگر
راجدھانی دہلی میں پیش آنے والے ان واقعات کو زیادہ پبلسٹی ملی ، جس کی ایک
وجہ اس لابی کی سرگرمیاں بھی ہیں جو آئندہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے مرکزی
حکومت کی شبیہ کو زیادہ سے زیادہ بگاڑ دینا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ
پہلو ہے۔
جرم کے ان واقعات میں کئی یکسانیتیں ہیں۔مثلاً ملزمان نے صرف جنسی فعل پر
ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے شکارکو جسمانی اذیتیں بھی پہنچائیں۔ ان کے جسم
میں ایسی چیزیں داخل کیں جن کاایک عام جنس زدہ انسان تصور بھی نہیں کرتا
ہوگا۔ ۲۳ سالہ لڑکی کے جسم میں مبینہ طور سے لوہے کا موٹاسریہ گھسایا گیا
جس سے آئے ہوئے زخم اور ان میں انفکشن اس کی موت کا سبب بنے۔ ۵ سالہ بچی
کے جسم سے بھی تیل کی شیشی اور موم بتیاں نکالی گئیں ۔ یہ جنسی داعیہ سے
بڑھ کرملزمان کی نفسیات میں انتہائی مکروہ تشدد پسندی کا اظہار ہے۔ گویا ان
دونوں معاملات میں جرم کی کئی نفیسات جمع ہوگئیں۔ اول جنسی آسودگی کے لئے
زنا اور اس کے لئے جبر ،پھر اپنی بے بس شکار کوجسمانی اذیب پہنچانا اور اس
سے لطف اندوزہونا۔ہماری نظر میں یہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے کیونکہ بعض
طبقات میں عورت کے ساتھ زور زبردستی اور ظلم زیادتی کو روا ہی نہیں رکھا
جاتا بلکہ اس کو مرد کا حق اور اس کی شان بھی سمجھا جاتا ہے۔ قانون سے بے
خوفی اور نفاذ قانون میں کمزوری اپنی جگہ ، مگر ان واقعات سے جس طرح کے
نفسیاتی جنون کی نشاندہی ہے،جب تک اس کے محرکات کو تلاش کرکے ان کاعلاج
نہیں ہوگا،خطاکاروں کے لئے سخت سزاؤں کے قانون سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ان واقعات پرجو بحثیں چل رہی ہیں ، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر جو مباحثے
ہورہے ہیں ان میں اصل مسئلہ کی طرف توجہ کم اور سیاسی رنگ نمایاں
ہے۔حالانکہ یہ مسئلہ نہ سیاسی ہے، نہ کسی ایک ریاست کا ہے اور نہ اس طرح کے
واقعات کے بعد استعفوں کے مطالبوں یا استعفوں سے حل ہونے والے نہیں۔ایک عام
تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری پوری پوری پولیس پر
ہے، حالانکہ پولیس کی تحویل میں بھی عورتوں کی آبروریزی کی خبریں آتی رہتی
ہیں۔ اگر کوئی دانا، بینا یہ کہتا ہے کہ اپنی عصمت اور عفت کی حفاظت کی کچھ
فکر خود خواتین کو بھی رکھنی چاہئے تو مغرب زدہ ذہن ابل پڑتے ہیں۔جماعت
اسلامی ہند کے سیکریٹری جناب محمد احمد نے ایک ٹی وی مذاکرہ میں جب ساتر
لباس کی طرف متوجہ کرانا چاہا تو مذاکرہ میں شریک خواتین نے ان کو بولنے
نہیں دیا۔یہ منطق عجیب ہے کہ یہ توہمارا حق ہے، ہمیں آزادی ہے کہ چاہے جس
حلیہ میں گھر سے نکلیں، البتہ دعوت نظارہ کے باوجود کوئی غلط نظر ان پر
نہیں اٹھنی چاہئے۔ ابھی چند روز قبل ایک کھلاڑی لڑکی سے ایک معمر وزیر نے
یہ کہہ دیا کہ کپڑے تو ڈھنگ کے پہن لیا کرو تو میڈیا کو فوراً طالبانی
ذہنیت یادآنے لگی۔ البتہ یہ کہنا درست ہے کہ جنسی جنون کا معاملہ اتنا آگے
بڑھ گیا ہے کہ کمسن بچیوں کو بھی شکار بنایا جانے لگا ہے۔ یہ ایک سنگین
سماجی اور نفسیاتی پیچیدگی ہے جس کی جڑ میں اخلاقی اقدار کا انحطاط اور
دعوت جنس کی افراط ہے کہ جنون میں خطاکار یہ بھی نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی
آسودگی کے لئے آلہ کار کس کوبنا رہا ہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جو بحثیں ہوتی ہیں ان میں بھی مقابلہ
آرائی بڑھ چڑھ کر سخت سزاؤں کے مطالبوں میں ہوتی ہے۔ گزشتہ پیر (۲۲؍اپریل)
کوایک ماہ کی تعطیل کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو لوک سبھا
میں تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکا ،البتہ راجیہ سبھامیں کچھ بحث ہوئی۔ مگر
محترم ممبران کی اس سنگین مسئلہ پر سنجیدگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے
کہ بحث کے دوران اکثر نشستیں خالی پڑی تھیں۔ جن ممبران نے بحث میں حصہ لیا
وہ بھی پوری طرح تیار نہیں تھے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقصدعوام کے غم وغصہ
سے فائدہ اٹھا کر اپنی پارٹی کے لئے ووٹ حاصل کرنا ہے، مسئلہ کا حل تلاش
کرنا نہیں ہے۔ بھاجپا کی رکن محترمہ مایا سنگھ نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے
عجیب منظق پیش کی کہ مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں، ملزمان کا جرم ظاہر و ثابت
ہے، اس لئے ان کو بلا تاخیر پھانسی دیدی جائے۔ان کا یہ مطالبہ سنگھ کی
فسطائی ذہنیت کو آشکار کرتا ہے جو آئین اور نظام قانون کی بالاتری میں یقین
نہیں رکھتا اور موجودہ قانونی و آئینی نظام کو ختم کرکے ملک میں ہٹلر شاہی
قائم کرنا چاہتا ہے۔ شاید محترمہ مایا سنگھ چاہتی ہیں کہ جس طرح مودی سرکار
نے کیا،وہی مرکز بھی کرے اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر ان لوگوں کوموت کے
گھاٹ اتاردے، جو اس کی نظرمیں سنگین جرائم میں ملوّث ہوں۔ مطالبہ یہ ہونا
چاہئے کہ عدالتی نظام کو چست و درست کیا جائے تاکہ قانونی کاروائی طول نہ
پکڑے۔اور پھر جنسی جرائم میں ہی کیوں، دوسرے معاملات ، خصوصاً دہشت گردی کے
الزام میں گرفتار افراد کے معاملات سمیت تمام فوجداری معاملات میں فیصلے
جلد ہونے چاہیں۔ لیکن راجیہ سبھا رکن کا یہ کہنا کہ مقدمہ چلانے کی ضرورت
نہیں ، پھانسی دیدو، کوئی سنجیدہ مطالبہ نہیں ہوسکتا۔
بعض ممبران نے بجا طور پر ان عوامل کی نشاندہی کی جو نوجوانوں میں جنسی
جنون اور تشدد کو ہوا دیتے ہیں، مثلاًتجارت کے فروغ کے لئے عریاں اشتہارات،
فلموں میں آئٹم سانگس کی نئی وبا، اور ایسے لٹکے جھٹکے جن سے نوجوان بے
قابو ہوکر جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں۔اسی کے ساتھ نفاذ قانون کی ابتر حالت پر
بھی کچھ ممبران نے نکتہ چینی کی مگر اس کی اصل وجہ پر توجہ نہیں گئی۔ یہ
درست ہے کہ پولیس محکمہ کو زیادہ فکر وصولی کی رہتی ہے مگر اس کے لئے پولیس
ہی نہیں بلکہ موجودہ سیاسی نظام بھی قصوروار ہے۔ پولیس سے مطالبہ کیا جاتا
ہے کہ وصولی کرکے ماہانہ رقم پہنچائی جائے۔باہو بلی لیڈروں کی چڑھتی بڑھتی
دولت آخر کہاں سے آتی ہے؟ یہی وہ نیتا لوگ ہیں کہ جب کوئی جرائم پیشہ پولیس
کی گرفت میں آجاتا ہے تو اس کو چھڑانے پہنچ جاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو
غنڈوں کی مدد سے اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔ بھرے جلسے میں پولیس افسر کو اسٹیج
پر بلاکر تھپڑ رسید کرتے ہیں اور کہتے ہیں، دیکھو ایسے ہوتے ہیں نیتا جو
پولیس سے نہیں ڈرتے اور اس پر عوام مارے خوشی کے زور زور سے تالیاں بجاتے
ہیں۔ یہی وہ روش ہے جس کی بدولت ایک طبقہ قانون سے بیخوف ہوگیا اور جرم
کرتے ہوئے ڈرتا نہیں۔
اس بحث کے دوران سب سے افسوسناک تقریر محترم جاوید اختر نے کی۔ انہوں کہا
ان جنسی جرائم کے لئے نہ تو فلموں کی فحاشی ذمہ دار ہے ، نہ صارفیت کا وہ
طوفان جس نے عورت ذات کو اپنی سیل بڑھانے کا ایک آلہ بنالیا ہے اور نہ
مغربی تہذیب کا یہ اثر ہے جس نے بے حجابی اور جسم کی نمائش کو آرٹ اور
تجارت بنارکھا ہے۔ اپنی دلیل کی تائید میں انہوں نے کہا جنوبی ریاستوں میں
سنیما گھر زیادہ ہیں،مگر ان میں جنسی جرائم کم ہیں۔ ان کے بقول مغربی
معاشرے میں جنسی جرائم گویا ہوتے ہی نہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کی اصل وجہ
ان کے خیال سے یہ ہے کہ ایک طبقہ نے ماں کو بہت اونچا درجہ دیدیا ہے ، اس
کے قدموں میں جنت تلاش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ان کے بقول یہ نکلتا ہے بس
ماں محترم رہ جاتی ہے، اس کی پوجا کی جاتی ہے ، ماں کے علاوہ باقی ساری
عورتیں خوار سمجھی جاتی ہیں اور ان کو کوئی عزت و وقار ذہنوں میں باقی نہیں
رہتا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں میں آزادانہ اختلاط کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے
یہ اوندھی منطق دی کہ اس سے زنابالجبر کم ہوگا۔(بیشک باہم بے تکلفی حد سے
بڑھے گی تو جبرکا امکان کم اورباہم رغبت کی راہیں آسان ہونگیں، جوملکی
قانون اور مغربی ذہنیت کے حاملین کی نظر میں کوئی عیب نہیں۔)
جاوید اختر صاحب کے یہ دعوے حقائق کے منافی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو
کے تازہ اعداد شمار بتاتے ہیں کہ بڑے شہروں میں دہلی کے بعد سب سے زیادہ
جنسی جرائم جنوبی ریاست کرناٹک کی راجدھانی بنگلورمیں ہوئے، حالانکہ ممبئی
اور کلکتہ آبادی کے اعتبار سے اس سے بہت بڑے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ
کے نصف سے کچھ کم (۸ء۴۲ فیصد) واقعات اکیلے اندھر پردیش میں ہوئے،یہ بھی
جنوبی ریاست ہے۔ ریپ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش(۳۴۰۶کیس) کے
ساتھ سرفہرست رہا۔ دوسرا مقام مغربی بنگال (۲۳۶۳) کا ،تیسرا یوپی(۲۰۴۲)کا،
چوتھامدھیہ پردیش(۱۸۰۰)کا، پھر مہاراشٹر اور آسام (۱۷۰۰) کااورساتوں اندھرا
پردیش(۱۴۴۲) کا ہے۔زرا محترم اختر صاحب ترتیب قایم کرکے فرمائیں کہ ان میں
سے کس ریاست میں اختلاط مرد و زن کم اور کس میں زیادہ ہے؟ ریپ کے سب سے کم
(صرف تین سو)واقعات کشمیر میں پیش آئے اور ان میں بھی زیادہ شکایات
سیکیورٹی عملے کے خلاف ہیں ۔ یہ وہ ریاست میں جس میں مرد وزن کے اس طرح
آزانہ اختلاط کے مواقع بہت کم ہیں جیسے دیگر ریاستوں میں ہیں۔
جہاں تک ان کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ہندستان کے مقابلے مغرب میں آبروزی کے
کیس کم ہوتے ہیں تو اعداد و شمار سے اس کی بھی نفی ہوتی ہے۔ ہندستان کی ایک
ارب۲۱کروڑ کی آبادی میں بلاتکار کے اوسطاً یومیہ۶۶ معاملے درج ہوتے ہیں
جبکہ امریکا میں ان کا اوسط یومیہ ۶۷۲ہے،جس کی آبادی صرف ۳۱کروڑ ہے۔ یہی
حال یوروپ کے دیگرممالک کا بھی ہے ۔ اس کے برخلاف مصر کی عورتیں اس حد تک
محفوظ ہیں کہ ان میں دس لاکھ کی آبادی میں صرف ایک کیس جنسی جرائم کا درج
ہوتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے کی ہے جن ممالک میں عریانیت ترقی کی علامت اور
ستر ڈھکی عورتیں پسماندہ قرار دی جاتی ہیں ان میں جنسی غلاظت بھی اتنی ہی
زیادہ ہے۔ حتٰی کہ ماں کو اپنے بچے کو یہ بتاتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ
تمہارا قانونی باپ تو فلاں ہے مگر بایولوجیکل فادر(اصلی باپ) فلاں ہے۔ حیرت
کی بات یہ ہے کہ اعداد و شمار کچھ بتاتے ہیں، رکن راجیہ سبھا کچھ کہتے ہیں
اور روش کمار جیسا صاف ذہن صحافی ان کی تحسین کرکے ان کی تقریر کا اقتباس
اپنے ٹی وی چینل پر الگ سے پیش کرتا ہے۔
ماں کے حد درجہ احترام پربھی ان کا مشاہدہ سراسر لغو ہے۔ ان کے علم میں
ہوناچاہئے کہ جس نظریہ حیات نے ماں کے قدموں نے جنت کی بشارت کی ہے اسی نے
بیٹیوں اور بہنوں کی پرورش اور اچھی تربیت پر بھی جنت کی بشارت دی اور
بیواؤں اور یتیم بچیوں کی نگہداشت اور ان کے لئے زندگی کی آسائشیں مہیا
کرنے والے کو بھی جنت کی بشارت دی ہے۔ زندہ درگور کردی جانے والی بچیوں کو
جینے کا حق دیا، ان کو وراثت میں حصہ دیا اور ملکیت کا حق دیا۔ جو نظریہ
ماں کو محترم قرار دیتا وہ ہر عورت کو عزت کا مقام دیتا ہے۔بیوی کو وہ پیر
کی جوتی نہیں بلکہ لباس قراردیتا ہے، جو انسان کی سرد و گرم سے ہی حفاظت
نہیں کرتا بلکہ اس کو وقار اور وجاہت بھی عطا کرتا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ
اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، ان کے ساتھ ہی نہیں جو تمہارے
نکاح میں ہیں بلکہ ان کے ساتھ بھی جو تمہارے نکاح کے معاہدے سے آزاد
ہوجائیں۔ اس کے برخلاف وہ نظریہ ہے جس کی آپ مداحی فرمارہے ہیں جس میں
ماں،بیٹی، بیوی اور پڑوسن میں کوئی فرق و تمیز نہیں رہتا، ہر کسی سے اپنی
جنسی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے اور جب ماں بوڑھی ہوجاتی ہے گھر سے نکال دی
جاتی ہے اور کسی اولڈ ہوم میں پہنچادی جاتی ہے۔ اور ہم مرتے دم تک اپنی ماں
کے حکم کی تابعداری اور اس کی خدمت گزاری میں اپنے لئے جنت تلاش کرتے ہیں۔
آج جنسی جرائم کا جو مسئلہ درپیش ہے ،اگر آپ ٹھوڑا سا بھی غور کریں گے پا
جائیں گے کہ اس کی جڑیں مغرب زدگی، عریانیت اور جنسی آزادی کے نظریہ میں ہے
اور ان جملہ امراض کا علاج اس نسخہ کیمیا میں ہے جو چودہ صدی قبل صحرائے
عرب میں رسول رحمت ؐنے عالم انسانیت کے لئے تجویز کردیا تھا جس کو فرسودہ
سمجھ کرجاوید اختر جیسے دانشور ترک کردینے کا مشورہ دیتے ہیں۔(ختم) |
|