عورت

میں بے دھیانی سے اس مرد کو دیکھ رہی تھی جو بیٹی کی پیدائش پر منہ لٹکائے ہوئے بیٹھا تھا۔ اسپتال والوں کے لئے ہوسکتا ہے کہ یہ منظر نیا نہ ہو اور نہ ہی دیکھنے والی بہت سی آنکھوں کے لئے ‘لیکن کیوں کہ میرا تعلق شعبہ صحافت سے ہے جہاں ہر معاملے میں خواتین کے ساتھ مساوی سلوک ہوتا ہے یہاں تک کہ واقعات کی کوریج کے معاملے میں بھی کوئی صنفی تفریق نہیں ہے‘ پھر میرے والد اور ان کے بعد میرے شوہر میری زندگی میں آنے والے ایسے معتبر مرد ہیں جنہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور میری کمی کوتاہیوں سے صرف نظر کیا‘ اس لئے مجھے یہ رویہ کچھ مختلف لگا اور میرے لئے سوچ کے کئی در وا کرگیا۔

اکیسویں صدی روشن خیالی اور ترقی سے منسوب کی جاتی ہے ۔ اگر ہم نظر اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ خواتین ہر گزرتے ہوئے پل کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہی ہیں۔دنیائے عالم میں خواتین فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں‘ کوئی کسی ملک کی صدر ہے تو کوئی وزیر اعظم‘ کوئی کسی شعبے میں بطور سربراہ خدمات انجام دے رہی ہے تو کوئی کسی پیشے سے وابستگی کے بعد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہے۔خود پاکستان میں ایسی بے شمار خواتین ہیں جن کا نام اور کام ان کی صنف کے لئے باعث فخر ہے۔پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک خاتون دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں۔ جہاں کے مرکزی بینک کے گورنر کے عہدے کی ذمہ داری ایک خاتون نے نہایت احسن طریقے سے انجام دیں۔ جہاں خواتین بینک اور چینل چلاتی ہیں ‘ جہاں ملالہ بھی ہے او ر ارفع کریم بھی ‘ جہاں شارمین عبید بھی ہے اور بلقیس ایدھی بھی ۔یہ وہ ساری خواتین ہیں جنہوں نے اپنی ترقی کے لئے سخت محنت اور جدوجہد تو کی لیکن ان کی اس ترقی کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان کے گھر والوں کی روشن خیالی کا ہاتھ ضرور ہوگا یا کم از کم انہیں کسی قسم کی قدغن کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔

پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ خواتین کے ساتھ روا ظلم تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مردوں کی تربیت کا نہ ہونا بھی ہے۔ جب ہم اپنے مردوں کو عورتوں کی عزت کرنے کی تربیت دیں گے تو باقی مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے بصورت دیگر جس معاشرے میں مرد عورت کو آج بھی پاﺅں کی جوتی سمجھتے ہیں‘ جہاں بیٹیوں کی پیدائش کو عورت کی نحوست گردانتے ہیں ‘ عورتوں کو چیزوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے‘ جہاں زنجیروں میں جکڑی ہوئی خواتین بھی منظر عام پر آتی ہیں ‘جہاں آج بھی عورتوں کو برہنہ کرکے گھمایا جاتا ہے‘ جہاں پسند کی شادی سزائے موت بن جاتی ہے‘ جہاں بدلے لینے کی خاطر بہن‘ بیٹی ‘ بیوی یہاں تک کہ ماں کاری کردی جاتی ہے‘ جہاں ونی اور سوارہ جیسی قبیح رسوم آج بھی پوری آب و تاب سے جاری ہیں‘ جہاں گاﺅں کی عورتیں آج بھی وڈیروں کی ذاتی جاگیر سمجھی جاتی ہیں‘ جہاں سڑک پر چلتی ہوئی عورت پر فقرے اُچھالنا ‘ اُن کے دوپٹے کھینچنا اور بیہودہ گوئی کوحق سمجھا جاتا ہے ‘ جہاں بیٹوں کو سالن سے اچھی بوٹیاں دی جاتی ہیں ‘ جہاں بھائی بہنوں کی عزت کی رکھوالی کی آڑ میں ان کو اپنا محکوم سمجھتے ہیں ‘جہاں غیرت کے نام پر عورت قتل کردی جاتی ہے‘ جہاں محبت کے نام پر عورت کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ‘ جہاں والدین اپنی 10سالہ بیٹی کو 70سالہ بوڑھے سے بیاہ دیتے ہیں وہاں عورتوں کی ترقی خواب محض ہی توہے۔

تیسری دنیا کی بہ نسبت یورپی ممالک کی خواتین کے حالات زیادہ بہتر ہیں۔اس کامیابی اور ترقی میں وہاں پر مجموعی معاشی ترقی کا کردارفیصلہ کن رہا ہے اگر وہاں خواتین گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہو کرملکی اور معاشرتی ترقی کے لئے کام کر رہی ہیں تو ان پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ کم کیا گیا ہے ۔ ایسے معاشروں نے عورتوں کی ذمہ داریوں کو سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کرتے ہوئے تعلیم‘صحت‘بچوں کی نگہداشت کے لئے ڈے کئیر سینٹرز ‘ اجتماعی لانڈریاں‘ وغیرہ کا تصور پیش کیا جس کے نتیجے میں وہاں کی عورت شخصی آزادی کے سا تھ ملکی ترقی میں فعال ہوکر دنیا میں اپنا نام و مقام پیدا کررہی ہے۔

فورئیر (Fourier)نے کہا تھا کہ کسی بھی سماج کی ترقی کا اندازہ اس میں موجود خواتین کی آزادی کی کیفیت سے لگایا جاسکتا ہے۔لیکن پاکستان میں معاملات انتہائی ابتر ہیں۔ ترقی تو درکنا یہاں کا سماج مائل بہ تنزل ہے۔یہاں حصول معاش کے لئے باہر نکلنے والی خواتین کو معاشرے کی پسماندگی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ اگر ایک عورت معاشی مسائل حل کرنے یا اپنی صلاحیتوں اور تعلیم سے ملک کو فیض پہنچانے کا عزم کرتی ہے تو اسے دہری ذمہ داریوں سے نمٹنے کے باوجود مختلف طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔
ایک عورت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے بعد گھریلو ذمہ داریوں میں اُلجھ جاتی ہے جب کہ ایک مرد پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد آرام کرنے اور بستر پر کھانا کھانے کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے مردوں کی باقاعدہ تربیت کی جائے ۔ اسلام اور معاشرہ عورتوں کو جو مقام دیتا ہے اس کی آگہی کے حوالے سے باقاعدہ مہم چلائی جائے ۔گھریلو سطح پر عورتوں کو اپنے بچوں میں تفریق نہ کرنے کے حوالے سے آگہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں میں بچوں کو صنفی امتیاز نہ رکھنے کے حوالے سے تعلیم دی جائے۔ عورتوں کی تعلیم کو عام کیا جائے ‘ انہیں گھریلو سطح پر ذریعہ معاش فراہم کیا جائے۔ خواتین کو ترقی کرنے کے مواقع دیئے جائیں تاکہ بچوں کی تعلیم‘ تربیت اور گزر بسر کے لئے وہ کسی مرد کے ظلم کو سہنے پر مجبور نہ ہوں ۔

مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی عورتوں کے عالمی دن کی بازگشت شروع ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر ہر سال عالمی سطح پر خواتین کی حیثیت ‘ قابلیت او ر معاشرے میں اُن کے مقام کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سال رواں کے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سال 2013ءکا موضوع ”صنفی ایجنڈا‘ حاصل کرنے کی رفتار“ ہے جو اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ شاید اس کے بعد ہم مسئلے کے حل کی جانب بڑھنے کے لئے کوئی قدم اُٹھا سکیں۔قبل ازیں تو یہ ”ایک روزہ تقریب “ جوش و خروش سے شروع ہوکر بے نتیجہ ختم ہوجاتی تھی اور باتیں ہونے لگتی تھیں اگلے سال کی جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک سال سے دوسرے سال کے وقفے کے دوران نتائج پر بات کی جائے ۔ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ گزشتہ سال جن مسائل کوزیر بحث لایا گیا تھا آیا ان میں سے کتنے مسائل اور کس حد تک حل ہوپائے ہیں۔ اس عمل کے بغیر کسی بھی قسم کا دن منانا سعی لاحاصل ہے۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.