پاکستان کے تین صوبائی
دارالحکومتوں میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران آٹھ بم دھماکے ہوئے ہیں، جن
میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور ہمدردوں سمیت گیارہ افراد ہلاک اور باسٹھ
زخمی ہوگئے ہیں۔
ان واقعات کے باعث ملک میں جاری انتخابی سرگرمیوں پر خوف اور بے یقینی کے
سیاہ بادل چھا گئے ہیں اور انتخابی نعرے دھماکوں کی گونج میں دب گئے ہیں۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکے کے خلاف
ایم کیو ایم کی اپیل پر شہر میں بدھ کو کاروبار معطل ہے۔کراچی شہر میں
چھوٹے بڑے کاروباری مراکز، بازار، مارکیٹیں مکمل طور پر بند ہیں اور
ٹرانسپورٹ اتحاد نے منگل کی رات کو ہی گاڑیاں نہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔
اسی طرح نجی سکول کے مالکان نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کی تھی، کراچی تعلیمی
بورڈ اور جامعات نے اپنے مجوزہ پرچے ملتوی کر دیے ہیں۔کراچی کے علاوہ صوبہ
سندھ کے دوسرے شہروں حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ اور چند دیگر شہروں میں
بھی کاروبار بند ہے۔انتخابات کے اعلان کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر میں یہ
پہلی ہڑتال ہے۔
دریں اثناء کراچی میں منگل کی رات کو ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں
کی تعداد پانچ ہوگئی ہے، نارتھ کراچی میں پیپلز چورنگی کے قریب گزشتہ شب بم
دھماکے میں دو افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہوگئے تھے، جن میں سے تین زخمی بعد
میں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ایس ایس پی عامر فاروقی نے تصدیق کی ہے
کہ بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور دہشت گردوں کا نشانہ متحدہ قومی
موومنٹ کا انتخابی دفتر تھا۔پولیس کا خیال ہے کہ دھماکے کے لیے ایک کلو
گرام بارود استعمال کیا گیا اور بم میں بال بیئرنگ بھی موجود تھے۔
کراچی میں انتخابی دفتر کے قریب دھماکے کے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف
حسین نے گزشتہ شب رابطہ کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ تمام انتخابی دفاتر بند کر
دیے جائیں۔
ایم کیو ایم کے اعلامیے کے مطابق الطاف حسین نے چیف الیکشن کمشنر سے سوال
کیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات اور بم دھماکوں میں پرامن انتخاب کا انعقاد
کس طرح ممکن ہے۔
اس سے پہلے کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے انتخابی دفاتر پر
فائرنگ ہوچکی ہے۔ پیر کو لانڈھی میں ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما آفاق احمد
کی رہائش گاہ کے قریب فائرنگ میں ایک بچے سمیت دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ادھر بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ بدھ کی صبح ایک اور دھماکے سے گونج اٹھا،
جس میں آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق یہ دھماکہ کوئٹہ کے علاقے
سیٹیلائٹ ٹاؤن میں ہوا ہے۔حکام کے مطابق بم سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، اس
سے پہلے کوئٹہ میں منگل کی شب یکے بعد دیگرے چار دھماکوں میں چھ افراد ہلاک
اور کم از کم چالیس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
دریں اثنا صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک دھماکے میں دو
افراد زخمی ہوگئے ہیں، ریڈیو پاکستان کے مطابق میں دھماکہ سرکی گیٹ کے قریب
ہوا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کولاچی میں سابق رکن اسمبلی اور حالیہ
انتخابات کے امیدوار پر بم حملے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں وہ محفوظ رہے
ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں سابق حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی اس عزم
کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود انتخابات
سے راہ فرار اختیار نہیں کرے گی اور ہر حالت میں جمہوری عمل کا حصہ بنے گی۔
https://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130424_election2013_blasts_rh.shtm
کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے ذرائع بلاغ کے
نمائندوں کو فون کر کے کو ئٹہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل نے انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان
نے عام انتخابات ملتوی کرانے کے لئے امیدواروں کے قتل اور دہشت گردی کی
وارداتوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کی جانب سے صدر
مملکت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے
نام مراسلہ بھیجا گیا ہے۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان
کے مطابق اگر 40 امیدواروں کو قتل کر دیا جائے تو حکومت اور الیکشن کمیشن
عام انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں
کے لئے بی این پی اور لشکر جھنگوی کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان کی
معاونت کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ دہشت گرد کراچی، بلوچستان اور خیبر
پختونخوا میں اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ مراسلے کے مطابق کالعدم
تحریک طالبان پاکستان نے لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں بھی وسیع
پیمانے پر دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے۔ کئی کالعدم تنظیمیں متحدہ دینی
محاذ کی چھتری تلے اکٹھی ہو چکی ہیں اور اسے بطور سیاسی پلیٹ فارم استعمال
کر رہی ہیں۔ مراسلے میں سیکیورٹی انتظامات سخت بنانے اور انتخابی امیدواروں
کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
https://alqamar.info/news/2013/04/22/30311
دہشت گردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے نیز دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں
اور نہ ہی انسان۔ گذشتہ دس سالوں سے پاکستان دہشت گردی کے ایک گرداب میں
بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اور قتل و غارت گری روزانہ کا معمول بن کر رہ
گئی ہےاور ہر طرف خوف و ہراس کے گہرے سائے ہیں۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں اور
ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔ لشکر جھنگوی اور دوسرے دہشت گرد گروپ جان
بوجھ کر ملک کو فرقہ ورانہ فسادات کی دلدل کی طرف دہکیلنا چاہتے ہیں۔ انتہا
پسند داخلی اور خارجی قوتیں پاکستان میں سیاسی اور جمہوری عمل کو ڈی ریل
کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں اور ایسا کرنے میں تمام دہشت گرد عناصر متحد
ہیں۔ کیا دہشت گردوں کو علم نہ ہے کہ مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے
ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو
اسلامی تعلیمات میں اس امر کی اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے۔
اور اسلام کی رو سے یہ محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی
الارض ہے.
طالبان دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے
پر تلے ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں اور غیروں
کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ انتہا پسند داخلی اور خارجی قوتیں پاکستان میں
سیاسی اور جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں ، آئندہ
انتخابات کے پر امن انعقاد میں ہر ممکن رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور سیاسی
پارٹیوں کی انتخابی مہم میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں ، انتخابی ریلیوں پر حملے کر
رہے ہیں . خیبرپختونخوا میں انتخابی سرگرمیاں امن و امان کی غیرتسلی بخش
صورتحال کی وجہ سے پوری شدت کے ساتھ شروع نہیں کی جاسکیں، سوات اور پشاور
کے افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر قوم کو دہشت گردی کے بارے میں سنجیدگی سے
سوچنے پر مجبور کردیا ہے. پشاور، بنوں اور دیگر علاقوں میں اے این پی اور
آزاد امیدواروں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد لگتا تھا کہ ایک بار پھر
فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام پر کڑا وقت آنے والا ہے اور سوات میں اے این
پی کے رہنما کا دھماکے میں جاں بحق ہونا ثابت کرتا ہے کہ ملک کو عدم
استحکام سے دوچار کرنے والے عناصر پوری طرح سرگرم ہیں۔انتخابی سرگرمیوں
کونشانہ بنا کر درحقیقت دہشت گرد تنظیمیں پاکستان، دینی اقدار اور خوشحالی
کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں. تحریک طالبان پاکستان نے مختلف سیاسی
جماعتوں کے انتخابی امیدواروں کو جس کھلے انداز میں دھمکیاں دی ہیں ، اب ان
سنگین نتائج کی دہمکیوں کے عملی مظاہرے دیکھنےمیں نظربھی آرہے ہیں۔یاد رہے
کہ ایم کیوایم، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وہ جماعتیں ہیں
جن کے بارے میں تحریک طالبان نے کہا ہے کہ وہ ان پر حملہ کریں گے اور ان کی
انتخابی مہم پر اثر انداز ہوں گے.
دفاعی تجزیہ نگار ریٹائر لیفٹینٹ جنرل طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ سیاسی اور
فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر طالبان ایک خاص قسم کی بد نظمی پیدا کر رہے
ہیں۔انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند انتخابات میں خلل ڈالنے کی کوشش کریں گے
کیونکہ ان کی طاقت میں اضافہ اسی صورت ممکن ہے جب ریاست کمزور ہو گی.
درحقیقت دہشت گرد عناصر عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور انہوں
نے سیاسی جماعتوں کے دفاتر، ریلیوں اور اجتماعات پر حملے شروع کردیئے ہیں۔
اس وقت پاکستان کو شدید ترین اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ انتہا
پسندوں اور دہشتگردوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کو خطرات
لاحق ہو سکتے ہیں۔
خودکش حملے،دہشت گردی اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے.
اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور
سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے
ہو سکتے ہیں؟ یہ لوگ اسلام کا نام ے کر اسلام کو بدنام اور پاکستان کو
کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خودکش حملوں کے تناظر میں تمام مکاتب فکر
بشمول بریلوی، دیو بندی ، شیعہ ، اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے جید علماء
پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں ۔
دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا
سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی
ہے۔ |