امریکہ 2001 سے افغانستان
میں براجمان ہے 9/11 کی آڑ لے کر اُس نے اس ملک میں قدم رکھا اور اپنے اس
حملے کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا جبکہ عالمی سطح پر خود اس
جنگ کو سب سے بڑی دہشت گردی تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ اسی کے بعد دہشت
گردی میں اضافہ ہوا، مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا
اور پاکستان کو تو اتحادی بنا کر بھی دشمن سمجھا گیا ۔ ہم اُس کے اتحادی
کیسے بنے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔پاکستان کی معیشت ، معاشرت
اور ترقی پر اس جنگ نے جو بد ترین اثرات مرتب کئے اُن کا ازالہ کرنے کے لیے
شاید ہمیں پھر 1947 سے سفر شروع کرنا ہوگا۔ اس جنگ نے ساری دنیا کی معاشی
حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن خود امریکہ بھی اس لا حاصل جنگ کے اثرات
سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ اس کی فوج افغانستان سے اگلے سال نکل جائے گی کم از
کم اس نے اعلان 2014 ہی کا کیا ہے لیکن یہ انخلائ اپنے پیچھے امریکی فوج کی
ناکامی کی ایک عبرت انگیز داستان چھوڑ جائے گی۔ اس جنگ کے دوران خود امریکی
فوج کو بھی کئی مسائل کا سامنا رہا اُس کا کہنا تو یہ ہے کہ اُس نے
افغانستان کی تعمیر نو کی ہے یا کر رہا ہے لیکن یہ کام کرنے کی فرصت تو
اُسے تب ملتی جب وہ اپنے مسائل پر قابو پاتا۔ امریکہ نے اس گیارہ سالہ جنگ
پر جتنا پیسہ خرچ کیا اگر وہ افغانستان کی ترقی پر خرچ کرتا تو آج
افغانستان بھی کسی ترقی یافتہ یورپی ملک کا نقشہ پیش کرتا لیکن زمینی حقیقت
یہ ہے کہ آج بھی افغان مہاجرین پشاور اور پاکستان کے دوسرے شہر چھوڑنے کو
تیار نہیں کیونکہ یہاں اب بھی ان کی معاشی حالت اپنے ملک سے بہتر ہے تباہ
حال افغانستان میں زندگی گزار نا اب بھی مشکل ہے اور وہ اسی لیے ایک دوسرے
ملک میں رہ کر خوش ہیں۔
امریکی فوج اگر چند کلومیٹر کی سڑک تعمیر کرکے یہ سوچے کہ اُس نے بڑا معرکہ
سر کیا ہے تو وہ یہ بھی سوچ لے کہ اُسے درحقیقت کیا کچھ کرنا چاہیے تھا
جبکہ وہ ایک ملک کے سیا ہ و سفید کا مالک بھی تھا ۔ وال سٹریٹ جرنل میں
شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق 270 کلو میٹر کی سڑک کی تعمیر پر لاکھوں ڈالر
خرچ ہوچکے تو 100 کلومیٹر سڑک تعمیر ہوئی جبکہ سیکیورٹی کے انتظامات کے لیے
مقامی شخص اجمل حسن کو لاکھوں ڈالر دئیے گئے اس سے پہلے نیویارک ٹائمز میں
شائع شدہ ایک مضمون میں بتایا گیا کہ سڑک کی تعمیر کرنے والوں کو دہشت
گردوں سے بچانے کے لیے 43.5 ملین ڈالر ایک شخص کو دئیے گئے لیکن نہ سڑک
تعمیر ہوئی نہ حملے رُکے۔ امریکہ افغانستان میں اُسامہ کی تلاش میں آیا یا
کسی بھی اور وجہ سے لیکن وہ اپنے ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے چکا ہے اور
آرلینگٹن کے قبرستان میں ہزاروں قبروں کا اضافہ ہوا ہے صرف فوجی ہی نہیں
1173 وہ سول ٹھیکیدار بھی مارے گئے جو افغانستان کی تعمیر نو کے نام پر
یہاں لائے گئے یا افغانستان کے اندر ہی سے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ
کام کرتے رہے اگر پانی کے ہینڈ پمپ لگانا یا کچھ سکول بنا لینا ترقیاتی کام
شمار کیے جائیں تو پھر شاید کہا جا سکے کہ کچھ ترقیاتی کام ہوئے ہیںلیکن یہ
کام تو کوئی این جی او بھی کر لیتی ہے ۔ خود امریکی فوجی اہلکار اعتراف
کرتے ہیں کہ اُن کے ترقیاتی کام کرنے والے اہلکاروں پر ہونے والے حملے یہ
کام پایہ تکمیل تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں یعنی خود ہی اعتراف کیا
جا رہا ہے کہ وہ ترقیاتی کام کرنے میں نا کام رہتے ہیں ۔ ایک ایسے ہی
امریکی فوجی نے کہا سیلاب سے بچانے والے بند صرف دو موسموں تک تو پانی روک
کر مطلوبہ دیہات کو بچا لیں گے مستقل نہیں تو کیا امریکہ خوداپنے ملک میں
بھی ایسی عارضی منصوبہ بندی اور ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے یا واقعی اُس کے
پاس ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہے جو وہ افغانستان میں استعمال کر سکے ۔
مسئلہ جو بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں وہ صرف ایک قابض فوج
اور قوت ہے جو بگرام جیل جیسی دھمکیوں سے حکومت کر رہی ہے اور اسی ملک کے
مذہب یعنی اسلام اور قرآن کی بے حرمتی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 517 بلین
ڈالر لگا کر بھی وہ افغانیوں کو فوجی شکست نہیں دے سکا ہے اور 57 بلین ڈالر
کے ترقیاتی امداد کے عوض بھی وہ افغانیوں کے دل خرید نہیںسکا ہے۔ خود اُس
کی فوج کے اندر یہ حالات ہیں کہ خود کشیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
امریکی اگر چہ خاندانی زندگی کے بہت عادی نہ سہی لیکن اپنے پر سہولت ملک سے
ہزاروں میل دور ہر وقت کسی خفیہ آنکھ اور گولی کی زد میں رہنے کا خوف انہیں
اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اب تک ڈھائی ہزار مارے جانے
والے فوجیوں کے علاوہ ڈھائی ہزار سے زیادہ نے خودکشی کی اور لیون پینیٹا نے
اِسے ایک وبا قرار دیا۔ صرف2012 میں 349 خود کشیوں کا اعتراف کیا گیا کتنی
کو چھپا لیا گیا یہ معلوم نہیں ہاں یہ ضرور مان لیا گیا کہ یہ اموات جنگی
اموات سے زیادہ ہیں۔ اسی جنگ کے دوران امریکی جنرل ڈیوڈ پٹریاس کا ایک غیر
خاتون کے ساتھ تعلقات کا سکینڈل بھی سامنے آیا تو ایک عام فوجی جو مہینوں
اپنے ملک کی شکل نہیں دیکھتا اُس کا رویہ کیا ہوگا اور کس ذہنی خلفشار کا
آئینہ دار ہوگا اس کا اندازہ کیا ہی جاسکتا ہے۔
امریکہ اگر صرف اس کو کامیابی سمجھتا ہے کہ چودہ سال تک افغانی اُسے اپنے
ملک سے نہ نکال سکے تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ بقول امریکہ اسی جاہل اور
غیر مہذب قوم نے اُسے سکون کا سانس بھی نہ لینے دیا۔ اُن کے لیے بیس کلو
آٹے کا تھیلا یا پانچ کلو گھی کا ڈبہ اپنی زمین کے آگے کوئی اہمیت نہیں
رکھتا ۔آزادی ان افغانوں کے خمیر میں گوندھی گئی ہے اگر امریکہ اپنی مرضی
کے اعداد و شمار جاری کرکے یہ سمجھتا ہے کہ وہ اِن افغانوں کو یہ باور کرا
دے گا کہ وہ ان کا محسن ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ زمینی حقائق بہر
حال زمینی ہوتے ہیں اور سچ ہوتے ہیں۔ امریکہ اگر چاہتا تو افغانستان کو
واقعی ترقی دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا لیکن قابض بن کر نہیں بلکہ
دوست بن کر۔ کیونکہ افغانی دوستوں کو تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن دشمن
کو تب تک معاف نہیں کرتے جب تک وہ دشمنی چھوڑ نہیں دیتے یا معافی نہیں مانگ
لیتے اور اُن کی آزادی سلب کرنے والا اُن کا سب سے بڑا مجرم اور دشمن ہوتا
ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہی لکھا ہوا ہے۔ |