گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین حضرت مولانا
محمدخان شیرانی صا حب نے ــ‘‘امت مسلمہ اور اس کے مسائل و مشکلات‘‘ کے
عنوان سے نہایت پروقار اور عظیم الشان سہ روزہ کانفرنس منعقد کی، جس میں
ملک بھر کے تمام مکاتبِ فکر کے نامور علماء اور جدید عصری اداروں کے اہل
فکرو دانش سکالروں کو دعوت دی گئی تھی، کانفرنس کی کل پانچ نشستیں تھیں ،ہر
نشست کے ابتدائی اور اختتامی کلمات خود چیئر مین صاحب فرمایا کرتے تھے،
مختلف مجلسوں میں مرکزی خطاب، صدارت اور اسٹیج پر بطور مہمان خصوصی تمام
مکاتب فکر نیز قدیم وجدید کے حاملین ِفہم و دانش کو مدعو کیا جاتا تھا ،
پروگرام حسنِ انتظام، لطافت ،وقار، متانت ،ہماگیریت، اپنائیت اور ضیافت
ومہمان نوازی کا عمدہ نمونہ لئے ہوئے تھا۔
مولانا شیرانی ہر نشست میں اپنے خاص وضع قطع کے ساتھ اپنے دستِ راست اور
دست چپ میں دو دوبزرگوں کے درمیان اسلامی نظریاتی کونسل کے صحیح معنوں میں‘‘
حق بحقدار رسید‘‘ کے مصداق بطور چیئر مین خوب جچتے تھے اور بجا طور پر ان
سے یہ امید کی جا تی کہ اب جا کر کہیں اس ادارے کا‘‘ لاشہ‘‘ اپنی اس روح کی
برکت سے کچھ نہ کچھ ارتعاش میں آجائے گا۔
شرکائے اجلاس کے فرمودات مرتب کرنے کا کام مولانا انعام صاحب کے ذمے تھا،
جبکہ اس کی کمپوزنگ وغیرہ مولانا نصیر شاہ کے سپرد تھی ۔۔۔۔۔۔ہم نے
جومعروضات پیش کیں تھیں اسکا خلاصہ کونسل کے اراکین نے اپنے ریکارڈ کے لئے
یوں قلم بند کیا تھا:
شیخ ولی خان المظفر نے کہا کہ قرآن کریم نے متعدد بار جناب رسالت ِمآب ﷺ کی
ذات ِگرامی کو(کل کائنات)کے لئے رحمت قرار دیا ہے، ان کی رسالت کو (پوری
انسانیت )کے لئے لازم اور ان کی لائی ہوئی کتاب کو کل صحف سماویہ کا آخری
ایڈیشن قرار دیکر اقوام عالم کے لئے سر چشمۂ ہدایت بنایا۔ چنا نچہ
انسانیت۔۔۔اور عا لمیتِ رسالت ِمحمد ﷺ پر غیر مسلم اسکالر ز نے ایسی ایسی
کتا بیں لکھی ہیں کہ آدمی دنگ رہ جائے ۔
جب ہمارا دین گلوبل، ہمارا پیغمبر گلوبل، ہماری کتاب گلوبل تو ہمیں بھی بین
الاقوامی اور بین المللی افکار وتصورات سمجھنے، پیش کرنے اور عالم بشری کی
فلاح وبہبود کے لئے فیصلے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امت
مسلمہ کو عالم بشریت کے اس ترقی یافتہ زمانے میں غیر مسلموں کو متأثر کرنے
کے لئے ان مسلمہ نظریات کے پرچار کے لئے کمر بستہ ہونا ہو گا، جن میں بلا
تفریق پوری انسانیت یا کل کائنات کی بات ہوئی، کائنات اس لئے کہ آج یوم
الارض اور یوم الحیوانات وغیرہ بھی منائے جاتے ہیں ۔اس لئے ہمیں اپنا فریم
ورک وسیع تر دکھانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ اس دور میں بین
الاقومی برادری کی بغیر نہیں رہ سکتی ،لہـذا بین الاقوامی برادری کے مسائل
و مشکلات کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جناب نبی کریم ﷺ نے میثاق
مدینہ میں اس تصور کو ملحوظ رکھ کر یہودو نصاریٰ اور مسلمانوں کے درمیان
معاھدہ کیا تھا، آ ج بھی اس طرز کے ایک میثاق العالم البشری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی مثال آج کے اس نہایت ترقی یافتہ دور میں بھی
قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود فکری وتکنیکی افلاص کی وجہ سے ،کَلّ علیٰ
مولاہ اینمایوجہہ لایات بخیر کی مثال ہے ۔
آج اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ملک میں آکر محمد
خان شیرانی جیسی عبقری شخصیت مل چکی ہے، جنہوں نے اس مردہ گھوڑے کے جسم میں
جان ڈال دی ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک غنیمت ہے کہ ہم اس کرشماتی، فکری، روحانی
اور نظریاتی انقلابی شخص کے دست و بازو بن کر دامے در مے سخنے ان کے شانہ
بشانہ کھڑے ہو کر صرف امت ہی نہیں انسانیت بھی نہیں بلکہ کائنات کی ڈوبتی
ناؤ کو کنارے لگانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ وقت آ چکا ہے جس میں ہم اپنے دین، پیغمبر اور کتاب
کی عالم گیریت، بین الاقوامیت اور رحمت للعالمین ہونے کو ثابت کریں، اپنی
مسلم اقلیات اور مسلم اکثریات کو بٹھا کر نئے پیغامات نئے اندازِ تخاطب اور
دعوت کی نئی اصطلاحات ایجاد کریں۔ اسلام، قرآن اور محمد ﷺ نہ صرف عربوں کے
ہیں، نہ صرف مسلمانوں کے ہیں اور معاف کرنا نہ صرف مولویوں کے ہیں، یہ کل
کائنات اور پورے عالم کے لئے ہیں ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی نبی
جب بھی آیا وہ ہمیشہ اپنی قوم کی زبان کا ماہر آیا، آج انبیاء کے وارث جتنے
بین الاقوامی زبانوں ،اصطلاحات اور مزاجوں سے نا واقف ہیں، اتنا کوئی اور
نہیں اور تو اور عربی ایک عالمی زبان ہے اور ہمارے دین ،پیغمبرﷺ اور قرآن
کی زبان ہے ،اس کے اسالیب و آداب سے یہ حضرات آج پچانوے فیصد نا واقف ہیں،
تو وہ مولوی کیوں کراس دین ،اس پیغمبرﷺ اور اس کتاب کے پیغامات کو صحیح
معنوں میں سمجھ سکتا ہے ؟؟
آخر میں انہوں نے کہا کہ امت کے عوام، علماء اور حکمران تینوں طبقات کو سر
جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گلوبلائیزیشن میں اپنا کردار ادا کر
سکیں اور اس دور میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔یہاں تعلیم، اقتصاد، تجارت،
معدنیات، دفاع، سیاست ،میڈیا وغیرہ کے مختلف میدانوں کے حوالے سے مفصل
مسائل و مشکلات کاتذکرہ کیا گیا ہے ۔میری ایک تجویزتو یہ ہے کہ ان سب کو
سنجیدگی سے لیا جائے اور ہر ایک کے لئے نہایت با صلاحیت جدید وقدیم کے
حاملین افراد پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور عالم اسلام ہی نہیں پورے عالم
بشری کو مد نظز رکھ کر پالیسیاں تشکیل دی جائیں ۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ عربی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے
لئے اسلامی نظریاتی کونسل با معنی اور مؤثر سفارشات سینیٹ اورقومی اسمبلی
سے کوبھیجے،اور انہیں منظور کرانے کے لئے قائدِجمعیت مولانا فضل الرحمن
اپنا بھرپور کردار ادا کرے،یقیناًقوم ان کا ساتھ دے گی۔
مولانا محمدخان شیرانی کی کرشماتی شخصیت پاکستان کے اس فکری ادارے کو پورے
عالم کے لئے صلاح و فلاح اور خیرونجاح کا ادارہ بنانے پر قادر ہے ،وہ یہ کر
سکتے ہیں ،بشرطیکہ اخلاص وﷲیت کے ساتھ ساتھ مختلف میدانوں اور زبانوں میں
ہم ان کا ہاتھ بٹائیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔ |